معروف افسانہ نگار نیلم احمد بشیر نے اپنی امی جان سے ان کی احمد بشیر کے بارے میں ذاتی یادداشتیں لکھوا کر ایک بہت بڑا کام کیا ہے ۔ وہ لوگ جو احمد بشیر کو ایک بہادر اور دبنگ صحافی کی حیثیت سے جانتے ہیں، یا ممتاز مفتی اور دوسرے ادیبوں کی نظروں سے دیکھتے ہیں، انہیں احمد بشیر کو ان کی بیوی، محمودہ بیگم عرف مودی کی نظر سے دیکھنے کا موقعہ ملے گا، جن پر احمد بشیر کسی بچے کی طرح انحصار کرتے تھے۔ اس کتاب کی دو تحریروں میں ایک تحریر محمودہ بیگم کی ہے جس میں ایک سیدھی سادی بیوی جس سے اس کے خاوند نے ٹوٹ کر محبت کی زبانی احمد بشیر کی زندگی کے واقعات ہیں اور ایک تحریر احمد بشیر کی اپنی ہے، جس میں تقسیم ِ ہندوستان کے وقت خون سے جو لکیر لگی تھی، اس کی آنکھوں دیکھی کہانی ہے۔ احمد بشیر کا اپنا سچ ۔۔جو کسی بھی تاریخ کی کتاب میں نہیں ملتا۔ احمد بشیر نے جو دیکھا، اسے ایمانداری سے قلم بند کر دیا۔ لکھتے ہیں: ’’کانگرس بپھری ہو ئی تھی، جناح نے تو صرف ہندوستانی مسلمانوں کے اور اقلیتوں کے کچھ تحفظات مانگے تھے جو کہ1857ء کے بعد پیدا ہونے والے کمزور طبقے کا نمائندہ تھا۔ وہ طبقہ، لارڈ کلائیو کے زمانے سے شروع ہو کر ہندو بر طانوی سرمائے کے اتحاد سے کھڑا ہونے کی جگہ مانگتا تھا۔ اس غیر مسلم طبقے کی نمائندگی، نہرو، مہاتما گاندھی اور سردار پٹیل کرتے تھے اور وہ کمزور مسلمان طبقے کو آزاد ہندوستان میں کوئی جگہ نہیں دینا چاہتے تھے۔ جناح نے سمجھانے کی بہت کو شش کی مگر جب وہ مایوس ہو گئے تو انہوں نے دو قومی نظریہ پیش کر دیا۔ مگر اسے ہمیشہ تھیوری ہی کہا گیا اور تھیوری کو حقیقت نہیں کہا جا سکتا۔ اسی لئے جب کیبنٹ مشن پلان آیا تو جناح نے اس تھیوری کو ترک کرکے ایک محدود اختیارات والے ہندوستانی مر کز کے تحت کام کر نے والا ملک پاکستان مانگا تھا۔ اس میں غیر مسلمانوں کو مسلمانوں کے مساوی حقوق حاصل ہو نا تھے۔ اس میں تبادلۂ آبادی کا کو ئی سوال نہیں تھا۔ کانگرس نے یہ پلان اس بنیاد پر منظور کر لیا کہ جناح تو انگریزوں کا ایجنٹ ہے اور وہ نہیں چاہتا کہ انگریز ہندوستان سے چلے جائیں اس لئے وہ تو کیبنٹ مشن پلان منظور نہیں کر ے گا۔ پنڈت نہرو نے کہا َمیں کیبنٹ مشن پلان مانتا ہوں، شرط یہ ہے کہ جناح کے انکار کے بعد انگریز ہندوستان کا اقتدار یکطرفہ کانگرس کے حوالے کر دیں گے۔ پھر ہم مسلمانوں اور اقلیتوں سے خود معاملہ کر لیں گے۔ مگر جب جناح نے بھی پلان مان لیا تو پنڈت جی سٹپٹا گئے اور انہوں نے کہہ دیا کہ ہم کسی سابقہ قراداد کو نہیں مانتے …‘‘ احمد بشیر کے اس تاریخی سچ میں ان لوگوں کے لئے منہ توڑ جواب ہے جنہوں نے قائد اعظم کو برٹش ایجنٹ مشہور کرنے کیلئے سر دھڑ کی بازی لگا رکھی ہے اور ان لوگوں کے لئے بھی جو تقسیم ِ ہندوستان کی وجہ قائد اعظم کی ضد بتاتے ہیں۔ وہ ضدی نہیں تھے، کیبنٹ مشن پلان مان کر انہوں نے انتہائی لچک کا ثبوت دیا تھااور نہرو نے اس سے پیچھے ہٹ کر اپنے کمینہ صفت ہو نے کا ثبوت دیا تھا۔ احمد بشیر لکھتے ہیں :۔ کانگرس نے پنجاب اور بنگال کی مذہبی بنیادوں پر تقسیم مانگی تھی۔ اس نے یہ مطا لبہ جناح کے مطالبہ پاکستان کی چوٹ پر کیا تھا۔ کیا یہ جرأت کی بات نہیں کہ جو پارٹی ہندوستان کی وحدت کی قسم کھاتی ہو اور سیکولر کہلاتی ہو۔ وہ پنجاب اور بنگال کی مذہبی بنیادوں پر تقسیم پر اصرار کر نے لگے ۔ اس کا خیال تھا جناح ڈر کر بھاگ جائے گا۔ مذہب کی بنیاد پر تقسیم کی وجہ سے مذہبی جنون ابھارنے اور تقسیم کے وقت خون بہنے کے جو الزامات جناح کے سر ہیں اس کا جواب بھی بنگال اور پنجا ب کی تقسیم کا مطالبہ کر نے والوں کی دیدہ دلیری میں ملتا ہے اور ایک جگہ احمد بشیر لکھتے ہیں :۔ ماسٹر تارا سنگھ نے اس روز اپنی کرپان جوش ِخطابت میں نہیں لہرائی تھی بلکہ یہ مشرقی پنجاب کے مسلمانوں کے قتل ِ عام کا اذن تھا۔ اگلے روز یعنی 3 مارچ کو سکھوں کے بپھرے ہو ئے ہجوم اور ہندو مہا سبھا کے زرد جھنڈوں والے رضاکاروں کے غول لاہور میں پھیل گئے اور چاروں طرف تلواروں، نیزوں اور ترشولوں کی برسات چھا گئی اور جب داتا صاحب پر حاضری دیتے ہو ئے بابا دساکھا سنگھ کو مار دیا گیا تو احمد بشیر لکھتے ہیں :۔ اور میری آنکھوں کے سامنے وہ کرپان پھر لہرائی، جو ماسٹر تارا سنگھ نے پنجاب اسمبلی کی سیڑھیوں پر لہرائی تھی، کیا اس بے وقوف اکالی کو معلوم تھا کہ بابا دساکھاسنگھ کو جمعرات کے دن داتا صاحب کے مزار پر قوالی سننے کی عادت ہے ۔ وہ تو اکالی نہیں تھا ۔وہ تو نانک کا فقیر تھا۔ ادھر سے جب لاشوں سے اٹی ہو ئی ٹرینیں اور عورتوں کی عصمتیں لٹنے کی خبریں مسلمانوں کو غیرت دلانے کے لئے چوڑیوں کے ساتھ آنے لگیں تو پاکستان والے پنجاب میں بھی قتل و غارت شروع ہو گئی۔اس بارے میں لکھتے ہیں:۔ مسلمان غنڈے اپنے پروگرام انفرادی طور پر بناتے تھے اور قتل و خون اپنے شاگردوں سے کرواتے تھے۔ پولیس اور مسلم لیگی لیڈروں سے رابطے کا کام انہوں نے اپنے لئے رکھا ہوا تھا۔ اس رابطے کی ضرورت مسلمانوں کی اجتماعی حفاظت اور خدمت ِ ایثار کے سوا کچھ نہ تھا۔ مگر لوٹے ہو ئے مال ِ غنیمت کوہضم کر نا مشکل تھا اس لئے پولیس کا حصہ باقاعدگی سے نکلتا تھا اور مسلم لیگی لیڈر اس سے با خبر رکھے جاتے تھے۔ لوٹ مار، قتل و غارت اور پولیس لیڈر کا اتحاد شروع ہو چکا تھا اگر چہ پاکستان ابھی کئی دن کے فاصلے پر تھا ۔ اس کاٹ دار فقرے میں آج کا پاکستان بھی ہم دیکھ سکتے ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ایک حساس اور باشعور فرد، بے حسی کے ان لمحات میں بھی جب انسان مولی گاجر کی طرح کاٹا جا رہا تھا، تب بھی انسان ہی رہتا ہے۔ اس تحریر میں بہت ننگا دکھ ہے جسے پڑھتے ہو ئے قاری، تقسیم ِ ہندوستان کے وقت کی اذیت ریڑھ کی ہڈی تک محسوس کر تا ہے ۔ پاکستانی قوم آزادی کے اس دن کو صرف جشن کی طرح مناتی ہے اور تاریخ کے اوارق کو پلٹ کر نہیں دیکھتے اور نا آشنا رہتے ہیں کہ ہندو سے جب آپ نے پاکستان لے لیا تو اس کے دل پر کیا بیتی تھی۔ تاریخ پڑھیں گے تو پتہ چلے گا کہ نہرو اور پاٹیل نے کیسے علی الاعلان کہا تھا کہ یہ کٹا پھٹا پاکستان واپس ہم سے آملے گا۔ پاکستان کو ختم کر نے کا عہد، کوئی سازشی نظریہ نہیں، بلکہ تاریخ کے پنوں میں لکھی کہانی ہے جو تب ہی ہم جان سکتے ہیں جب خون کی لکیر جیسی مختصر تحریر ہی پڑھ لیں گے۔ ہر اگست کے مہینے میں پاکستان پر قیامت کیوں ٹوٹتی ہے۔ کس جرم کی سزا ہے جو پاکستان کا وجود کاٹ رہا ہے؟ کوئٹہ کے سانحے کو بھی سمجھنا ہے تو سارک کانفرس سے پیر پٹختے باہر جاتے انڈین وزیرِ داخلہ کو دیکھ لیجئے۔ پشاور سکول کے سانحے کے لئے 1971ء کی تاریخ دہرا لیجئے جب اندرا گاندھی نے سینہ پھلا کے کہا تھا ہم نے دو قومی نظریے کو بحیر ہ بنگال میں ڈبو دیا۔ بے وقوف لوگ آج بھی کہتے ہیں پیچھے مڑ مڑ کر کیا دیکھنا ، حال کی خبر رکھو۔ حال کی خبر کیسے رکھی جاسکتی ہے جب حال کو بے حال کر نے والی ماضی کی قسموں کی حقیقت سے آشنانہیں ہونگے۔ آج سے پڑھئیے!! اپنے وطن کے کل کو کالی نظر سے بچانے کے لئے۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024