ظفر اللہ خان، ظفر علی روڈ، گلبرگ، لاہور
میرا گاؤں جلال آباد شرقی آج کے ضلع موگا سے 7 میل کے فاصلہ پر پکی سڑک کے کنارے ہے۔ ارد گرد سکھ برادری آباد ہے۔ گولڈن ٹیمپل کیس میں مشہور سنت بھنڈرانوالہ کا گاؤں بھنڈر 2 میل کے فاصلہ پر ہے۔ میرے گاؤں میں پانچ نمبردار ایک سفید پوش اور ایک ذیلدار تھا۔ کافی بڑا ہونے کی بنا پر نہ صرف ارد گرد بلکہ پورے علاقہ میں دھاک بیٹھی تھی۔ آزادی کا اعلان ہوا تو گورداسپور اور ہمارا گاؤں پاکستان میں شامل تھا۔ گاؤں والوں نے جشن منایا۔ دو دن بعد ریڈ کلف ایوارڈ کے تحت کچھ حصہ فیروز پور کا اور گورداسپور کا ہندوستان کو دے دیا گیا تاکہ ہندوستان کو کشمیر کا زمینی راستہ مل سکے۔ اس طرح جاتے جاتے انگریز برصغیر ہند میں مستقل تنازعہ پیدا کر گیا۔
تقسیم ہند کے دوران مقامی سکھ آبادی‘ نہنگ اکالی تنظیم سول حکومت پولیس اور فوج مل کر مسلمانوں کے قتل عام کیلئے باقاعدہ پروگرام بناتے تھے۔ لوکل سکھ لیڈر ہر روز شام کے وقت سارا پروگرام میرے تایا جان چودھری گوہر حسین کی کوٹھی آ کر بتا جاتے۔ ان معلومات کے مطابق عید سے ایک روز قبل ایک قریبی گاؤں سنگھانوالہ پر حملہ کا پروگرام تھا۔ اس سے اگلے روز یعنی عید کے دن ہمارے گاؤں نماز عید کے دوران حملہ کرنا تھا تاکہ نماز کے دوران سارے گاؤں کی آبادی کو گولیوں کا نشانہ بنایا جا سکے۔ سنگھانوالہ پر حملہ ہوا۔ 8‘ 10 گھر مسلمانوں کے تھے۔ انہوں نے ساری خواتین کو ایک گھر میں جمع کیا۔ کہا کہ سکھوں کی تو ہمارا مقابلہ کرنے کی جرأت نہیں۔ پولیس اور فوج کا ہم مقابلہ نہیں کر سکتے لہٰذا آپ کو یہاں اکٹھا کیا گیا ہے۔ اگر ہم 2 گھنٹے تک واپس نہ آئے تو سمجھ لینا کہ ہم نہیں رہے۔ گھر کے صحن میں یہ کنواں ہے۔ اس میں آپ سب چھلانگیں لگا دیں۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ ان خواتین کی خدمت پر معمور خواتین نے یہ واقعہ بیان کیا۔ سکھ ایک لڑکے کو مردہ سمجھ کر چھوڑ گئے۔ آج کل وہ لڑکا کینیڈا میں کاروبار کر رہا ہے۔ یہ بچہ اور اس کے والد چھپتے چھپاتے رات کے پچھلے پہر جلال آباد پہنچ گئے۔ محترم تایا جان کو صورتحال سے آگاہ کیا اور ان کی خفیہ اطلاعات کی تصدیق کر دی۔ تایا جان نے اسی وقت گاؤں سے ہجرت کر جانے کا فیصلہ کر لیا۔ آپ کے ساتھ سارا گاؤں نکل پڑا۔
اپنے گھروں کو تالے لگا کر نکلے کہ چند دنوں کا بلوہ ہے پھر واپس آ جائیں گے۔ ضروری سامان لے کر کچھ پیدل کچھ بیل گاڑیوں پر روانہ ہو گئے۔ پیدل چلتے ہوئے جس گاؤں کے پاس رات ہو جاتی۔ وہاں قیام کرتے وہاں کے لوگ میزبانی کر کے اگلے روز ساتھ ہی روانہ ہو جاتے۔ راستہ میں اگر کوئی کنواں آتا لوگ دوڑتے تاکہ پیاس بجھا لیں۔ وہاں نعشیں دیکھ کر مایوس ہو جاتے۔ ایک جگہ راستہ میں کچھ سکھ قافلہ کو روک کر ایک ایک آدمی کو آگے نکالنے لگے۔ جو اسلحہ یا لاٹھی سوٹا ہوتا وہ اس سے رکھوا لیتے کہ یہ آپ کو آگے جا کر مل جائے گا۔ اس طرح غیر مسلح کر کے مار دیتے۔
اللہ تعالیٰ نے غیبی امداد فرمائی۔ 3 فوجی جوان جو کہ بلوچ رجمنٹ سے تھے مدد کو آ پہنچے۔ انہیں تین گھوڑیاں دے دی گئیں۔ وہ تینوں جوان عقابوں کی مانند سکھوں پر جھپٹے۔ ایک آدمی آگے چلتا تھا‘ دو جوان دائیں بائیں قافلہ کی حفاظت کرتے رہے تاآنکہ قافلہ پاکستان پہنچ گیا۔ ایک خاتون اپنی فوت شدہ بچی کو گلے لگائے چلتی رہی۔ کہتی تھی میری بچی نے کہا تھا کہ میں پاکستان جاؤں گی۔ لہٰذا اب میں اسے پاکستان جا کر دفن کروں گی۔