ن -م راشد نے کسی ’’مسز سالامانکا‘‘ کی آنکھیں دیکھیں تو گھبراہٹ میں پکار اُٹھے:’’خداحشر میں ہومددگارمیرا‘‘۔بدھ کی سہ پہر قومی اسمبلی کا اجلاس پریس گیلری میں ایک نشست پر دوگھنٹے بیٹھ کر دیکھنے کے بعد میں گنہگار کمزور انسان بھی یہی الفاظ دہرا رہا ہوں۔
اصل بات کی طرف لوٹنے سے پہلے میں اپنے ربّ سے حشر کے روز معافی کا طلب گار اس لئے بھی ہوں کہ میں نے راولپنڈی سے قومی اسمبلی کے لئے کئی بار منتخب ہونے والے جناب شیخ رشید احمد صاحب کو اکثر پھکڑپن کا نشانہ بنایا۔ ایسا کرتے ہوئے میں انتہائی سفاکی سے یہ حقیقت بھول گیا کہ اگر مجھے کالم لکھنے کے علاوہ ٹی وی پر ’’نیوزاینڈکرنٹ افیئرز‘‘کے نام پر کوئی نوٹنکی چلاتے ہوئے اپنے بچوں کو بہتر تعلیم دلوانے کے لئے کچھ رقم جمع کرنی ہے تو مجھے شیخ صاحب کا احترام کرنا ہوگا۔ خود کو محب وطن اور ایمان دار ثابت کرنے کے لئے بھی انتہائی ضروری ہے کہ میں لال حویلی جاکر شیخ صاحب کے قدموں میں گرجائوں۔ خلوصِ دل سے اپنی خطائوں کو معاف کردینے کا طلب گار بنوں۔
وہ بڑے دل والے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ سکندرِ اعظم جیسے دل کے ساتھ میرے ساتھ بادشاہوں والا سلوک برتنے کو تیار ہوجائیں گے۔ اس کے بعد شیخ صاحب کو مہینے میں کبھی کبھار میرے ساتھ ’’ون آن ون‘‘ بیٹھنا ہے۔’’انٹرویو‘‘ کے نام پر جو ’’ون آن ون‘‘ ہوگا اس میں میرے لئے سوال اٹھانا ہرگز ضروری نہیں۔ ’’وہ کہے اور سناکرے کوئی‘‘والا معاملہ ہوگا۔غالب کا محبوب بولتا تو صرف ’’کوئی‘‘سناکرتا تھا۔ شیخ رشید احمد صاحب کا وطن کی محبت میں دھڑکتا دل جب قوم کو سدھارنے کے لئے ہذیانی کلمات بیان کرنے کو مجبور ہوجاتا ہے تو پورا عالم دم بخود ہوکر سنتا ہے۔
بقول شیخ رشید احمد’’بے حس‘‘ ہوئی ہماری قوم میں سے کوئی ان کی بات سنے یا نہیں، وزیر اعظم کے لاڈلے اور چکری کے مشہور راجپوت گھرانے سے آئے چودھری نثار علی خان،ان کی ہر بات کان کھول کر سنتے ہیں۔ ’’خداحشر میں ہومدد گار میرا‘‘ کیونکہ میں نے اپنی گنہگار آنکھوں اور کانوں سے بدھ کی سہ پہر قومی اسمبلی میں بیٹھ کر بالآخر ٹھوس مثالوں سے دریافت کرہی لیا کہ عمران خان،شیخ السلام ،خورشید شاہ اور بیرسٹر اعتزاز احسن کی طرح چودھری نثار علی خان بھی اپنی سیاست کو راہِ راست پر رکھنے کے لئے شیخ رشید صاحب کے گراں قدر خیالات ہی سے رجوع کرتے ہیں۔
10اگست کا اجلاس اس حوالے سے بھی ’’تاریخی‘‘ تھا کہ اس روز حکمران جماعت کے کسی سیانے کو یاد آگیا کہ قیامِ پاکستان سے چار روز پہلے اس دن 1947ء میں قائد اعظم کی جمہوری جدوجہد کے ذریعے بننے والے ایک نئے ملک کے لئے آئین بنانے والی اسمبلی کا اجلاس بھی بلالیا گیا تھا۔ قیامِ پاکستان کے باقاعدہ اعلان سے چار روز قبل یہ اجلاس بلاکر درحقیقت قائد اعظم نے یہ پیغام دینا چاہا تھا کہ گوریلا جنگ کے بجائے طویل جمہوری جدوجہد کے ذریعے حاصل کئے نئے ملک کو صرف اور صرف خوب سوچ سمجھ کر بنائے آئین کے ذریعے ہی چلایا جائے گا۔اس آئین کے ہوتے ہوئے پاکستان کو کسی ’’دیدہ ور‘‘ کا انتظار کرنے کی ضرورت کبھی محسوس نہیں ہوگی۔
زاہد حامد نے بڑی شاندار انگریزی میں لکھی ایک قرارداد کے ذریعے اس پہلو کی طرف توجہ دلانے کی کوشش کی۔ انگریزی زبان میں تحریر ہوئی یہ قرارداد میرے کانوں کو اس لئے بھی اچھی نہ لگی کہ اُردو پر اکثر ہماری’’قومی زبان‘‘ ہونے کی تہمت لگائی جاتی ہے۔شاید اس ’’تہمت‘‘ کو جھٹلانے کے لئے زاہدحامد نے انگریزی میں قرارداد لکھی اور انگریزی بھی ایسی، جسے سمجھنے اور اس کی مناسب تفسیر کے لئے Ezra Poundجیسے کسی عالم کی ضرورت تھی۔ Ezra Poundجیسے زبان شناس بدقسمتی سے مگر اب اس دُنیا میں پیدا نہیں ہوتے۔ لہذا 2016ء کی 10اگست کو وہ پیغام بھرپور انداز میں دُنیا کو یاد نہ دلایا جاسکا جو 1947ء کی 10اگست کو بانی پاکستان نے اجاگر کرنے کی کوشش کی تھی۔
میں فقط 1947ء کی 10اگست کو دئیے پیغام کو مناسب یاد دہانی نہ ہونے کی وجہ سے ’’خدا حشر میں ہو مدد گار میرا‘‘ پکارنے پر مجبور نہیں ہوا۔ مجھے یہ فریاد باربار دہرانا پڑی کیونکہ وزیر داخلہ نے 2016ء کی 10اگست کو قومی سلامتی کو یقینی بنانے والے اداروں سے طویل ملاقاتوں کے بعد اسمبلی میں کھڑے ہوکر 40منٹ تک پھیلی ایک تقریر بھی کی۔ مجھے گماں تھا کہ اس تقریر کے ذریعے وہ سانحہ کوئٹہ پر توجہ دیں گے۔ ہمیں اطمینان دلائیں گے کہ بالآخر کچھ شواہد ایسے مل گئے ہیں جو بالآخر اس ہولناک سانحے کے حقیقی منصوبہ ساز، اس کے کارندوں اور سہولت کاروں کو ریاستِ پاکستان کی گرفت میں لانا ممکن بنائیں گے۔ ایسا کچھ نہیں ہوا۔
سانحہ کوئٹہ کے سرسری ذکر کے بعد چودھری نثار علی خان نے خورشید شاہ کی طرف منہ موڑ تے ہوئے اپنی راجپوتی آن وشان کے ساتھ انہیں بارہا یاد دلایا کہ پیپلز پارٹی کے گزشتہ دورِ حکومت میں ہر روز دھماکے ہوا کرتے تھے۔ ان کی وجہ سے ہزاروں جانوں کا ضیاع ہوا۔ بالآخر شاید قدرت بھی دُکھی دل کیساتھ مئی 2013ء کے انتخابات کے ذریعے پاکستان مسلم لیگ نون کو حکومت میں لانے کی راہ ہموار کرنے پر مجبور ہوگئی۔ تیسری مرتبہ اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان مسلم لیگ نے خلوصِ نیت سے دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کی ٹھان لی۔یہ تاثر غلط ہے کہ اس ضمن میں پیش قدمی عسکری قیادت نے کی۔ ’’حکم‘‘ صادر پاکستان مسلم لیگ نون کی قیادت کی طرف سے ہوا۔ ایک طاقت ور وزیر داخلہ ہوتے ہوئے چودھری نثار علی خان دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کی مہم کے اصلی تے وڈے کماندار ہیں۔دہشت گردی کے خلاف جنگ کی کمان کرتے ہوئے چودھری صاحب کو ’’میڈیا کے ذریعے ‘‘ یہ جان کر بہت افسوس ہوا کہ منگل کے دن قومی اسمبلی میں بلوچستان سے آئے ایک رکن قومی اسمبلی نے ایسی تقریر جھاڑدی جو اس ملک میں امن وامان کو یقینی بنانے والے اداروں کی حوصلہ شکنی کا باعث ہوسکتی ہے۔
محمود خان اچکزئی کی جانب سے منگل کے دن ہوئی تقریر کے فوری بعد راولپنڈی سے کئی بار منتخب ہوئے شیخ رشیداحمد صاحب نے بلوچستان سے کئی بار منتخب ہوئے اس رکن کو بھارتی اور افغان انٹیلی جنس اداروں کا ’’ایجنٹ‘‘کہا۔ یہ ’’ایجنٹ‘‘ مگر حکومتی گرفت سے بچا ہوا ہے تو وجہ اس کی شیخ صاحب کی نظر میں صرف یہ ہے کہ وہ وزیر اعظم کا ’’چہیتا‘‘ ہے۔ چودھری نثار علی خان کی تقریر کے دوران بھی اپنی نشست پر بیٹھے ہوئے شیخ صاحب نے وزیر اعظم کی موجودگی میں وزیر داخلہ کو اچکزئی کا ’’چہیتا‘‘ ہونا یاد دلایا۔ شیخ صاحب نے ’’چہیتا‘‘ والی آوازیں کسیں تو چکری کے راجپوت ہرگز ناراض نہیں ہوئے۔ انہوں نے بہت مہذب اور مؤدبانہ انداز میں بلکہ شیخ صاحب کو یقین دلانے کی کوشش کی کہ اچکزئی وزیر اعظم کے ’’چہیتے‘‘ بالکل نہیں ہیں۔
بات چودھری نثار صاحب کی درست تھی۔ اچکزئی اگر واقعی نواز شریف کے ’’چہیتے‘‘ ہوتے تو وزیر اعظم کے بائیں ہاتھ لگی کرسی سے کھڑے ہوکر قائدِ ایوان کی موجودگی میں چودھری صاحب بلوچستان سے آئے رکن قومی اسمبلی کی منگل کے روز ہوئی تقریر کی ایسے کڑے الفاظ میں مذمت نہ کرتے۔ اچکزئی کی ’’مذمت‘‘ ایک حوالے سے پاکستان مسلم لیگ نون کی قیادت کے حکم پر حکمران جماعت نے اجتماعی طورپر کی ہے۔اس اجتماعی مذمت کی وجہ سے چودھری نثار علی خان کے ایمان افروز خطاب کے بعد خورشید شاہ نے بڑے احترام سے اپنی نشست سے اُٹھ کر یہ بات یاد دلانے کی کوشش کی کہ محمود خان اچکزئی حزب مخالف کا حصہ نہیں ہیں۔ وہ تو پاکستان مسلم لیگ کے ’’اتحادی‘‘ ہیں۔ ’’حکومتی اتحادی‘‘ کی طرف سے ادا کئے کلمات کے بارے میں طنز کے نشتر مگر چودھری نثار علی خان نے حزبِ مخالف کی طرف کیوں برسائے ہیں۔ یہ کہنے کے بعد خورشید شاہ پوری اپوزیشن کے ساتھ واک آئوٹ کرگئے۔
اپوزیشن اجلاس سے چلی گئی تو وزیر اعظم نے ایک بار نہیں تین بار چودھری نثار علی خان سے التجا کی کہ وہ جاکر انہیں منائیں۔ راجپوتی انا مگر وزیر اعظم کی بھی نہیں سناکرتی۔بالآخر نواز شریف کو خود خورشید شاہ کے چیمبرز میں جاکر انہیں منانا پڑا۔ ’’خدا حشر میں ہو مدد گار میرا‘‘۔ میں نے ایک وزیر داخلہ کو اپنے ہی وزیر اعظم سے کہیں زیادہ تگڑا اپنی گنہگار آنکھوں سے دیکھا ہے۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کے آخری ایام یاد آگئے اور ان سے بغاوت کرکے بالآخر ’’قائد عوام‘‘ بنے ذوالفقار علی بھٹو۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024