فنکاروں کی کمائی کا اصل موسم گرمیوں کی چھٹیاں ہیں۔ مغربی ممالک، امریکہ کینیڈا میںدیسی فنکاروں کا مینا بازار لگ جاتا ہے۔ بڑا نام بڑی بولی چھوٹا نام چھوٹی بولی۔ دماغ بولی کے مطابق دکھایا جاتا ہے۔ حقیقت میںبڑا وہ ہے جس کا دماغ زمین پر رہے اور فن آسمان سے باتیں کرے۔ پاکستانیوں کا دماغ آسمان پر اور فن بھارت کا محتاج۔بھارت کا دم چھلا لگ جائے تو دماغ خراب ہونے میں سیکنڈ نہیں لگتے۔ عالمی چمپئن باکسر عامر خان سے نیویار ک میں مقیم ان کے سسرالی گھر میں ملاقات ہوئی۔ انتہائی منکسر المزاج اور سادہ طبیعت کے نوجوان ہیں۔ مل کر دلی خوشی ہوئی۔ سسرال اور اہلیہ بھی ملنسار ہیں۔ عاجزی اور اخلاق سے بندے کی شخصیت کا پتہ چلتا ہے۔ بد دماغ خواہ صحافی ہو یا فنکار، دور سے سلام۔ امریکہ میں کسی کے پاس اتنی فرصت نہیں کہ بد دماغوں کی آئو بھگت کی جائے۔ بطور ماں بیوی سوشل ورکر صحافی کالم نگار ٹی وی شوز، ہماری زندگی بے حد مصروف ہے، کالم نگاری ہمارے لیئے دل کی بھڑاس نکالنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ کالم وطن عزیز سے رابطہ کا زبردست ذریعہ ہیں۔ تما م غصہ رنج پریشانی ڈیپریشن انگسائٹی دکھ سکھ بذریعہ کالم ’’کتھارسس‘‘ ہے البتہ ڈرامے اور دیگر تفریحی پروگرام دیکھنے کا موقع نہیں ملتا۔ پھر گھومنے پھرنے کا بھی شوق ہے۔ پاکستان اورحرمین شریفین کی سال میں دو مرتبہ زیارت نہ کر لیں تو روحانی تشنگی رہتی ہے۔ سعودی عرب والوں کا بھلا ہو، اس بار تو انہوں نے ہمیں پانچ سال کا وزٹ ویزہ ایشو کر دیا۔ کچھ لوگوں کو غلط فہمی ہے کہ عمرہ کو جانے ولے لوگ نیک یا مذہبی ہوتے ہیں۔ہم نیک ہیں نہ مذہبی لیکن سکون قلب اللہ و رسول اللہ ؐ کے گھروں کی زیارت سے ہی ملتا ہے۔ تمام تر مصروفیات کے باوجود اٹھارہ سال سے کالم نگاری کی ذمہ داری اٹھائے ہوئے ہیں۔ قارئین پوچھتے ہیں کہ تازہ چپاتی، پکوان، بچوں کی تعلیم و تربیت،گھر داری،مہمان داری اور پھر میڈیا ؟ آپ یہ سب کیسے کر لیتی ہیں ؟ روحانی طاقت اور جذبہ خدمت خلق بندے سے بہت کچھ کرا سکتا ہے۔ اگر یہ دو نعمتیں میسر نہیں تو ملازمین کی فوج بھرتی کرلیں، اتنے کام نہیں کر اسکتے۔ کام اور کام انسان کو جوان رکھتا ہے اور کام کے پس پشت مقصد خدا اور اس کے بندوں کی خوشنودی ہو تو بندہ دس بندوں جتنا کام کی صلاحیت رکھ سکتاہے۔ کالم کا پیٹ بھرنا ہمارا کبھی مقصد نہیں رہا۔ گرمیوں کی چھٹیاں مصروف ترین شیڈول ہوتا ہے۔ دیس پردیس سے مہمانوں کی آمد کا سلسلہ رہتا ہے اور مختلف تقریبات اور سیر سیاحت کا موسم بھی ہوتا ہے۔ یوم آزادی پاکستان کی تقریبات نیویارک کا جھومر ہیں۔فنکاروں کے لیئے کمائی کا سیزن ہے۔ گزشتہ ہفتہ نیویارک میں یوم آزادی کی ایک پریڈ لانگ آئی لینڈ کے علاقہ میں منعقد کی گئی۔گلو کار علی ظفر کو مدعو کیا گیا۔
مداحوں کا ہجوم دھوپ اور گرمی سے بے نیاز فنکار کو سننے اور دیکھنے کے لیے بے تاب تھا۔ دو گھنٹے کے شو کا تیس سے اسّی ہزار تک ڈالر کا معاوضہ لینے والے کی سکیورٹی کا نظام کسی سیاسی رہنماء کے پروٹوکول سے کم نہیں تھا۔اس نے انتظامیہ کو تاکید کر رکھی تھی کہ مداحوں اور میڈیا کو اس سے دور رکھا جائے۔ چھنو کی آنکھ جیسے مزاحیہ گانے سنانے کے بعد فوری طور پر چلا گیا۔ البتہ بھارتی اداکار کو جپھی مار کر ملا۔ ہمیں یہ رپورٹ میڈیا کے توسط سے ملی۔ علی ظفر،عاطف اسلم،راحت فتح علی جیسے ہاف پاکستانی ہاف بھارتی فنکاروں کے کانسرٹس میں بھارتی مداحوں کی بڑی تعداد موجود ہوتی ہے۔مہنگے ٹکٹ بکتے ہیں اور کانسرٹ کرنے اور کرانے والے خوب مال بنا لیتے ہیں۔ فنکاروں کے بقول پاکستان کا نام روشن کرنے آتے ہیں اور مال بنا کر چلے جاتے ہیں۔ انٹرویوز میں حب الوطنی کی باتیں یوں کرتے ہیں جیسے فی سبیل اللہ فن پیش کرتے ہوں۔ بھارتیوں سے بغلگیر ہوتے ہیں اور پاکستانیوں سے بھاگتے ہیں۔ پاکستانی فنکاروں کے ساتھ بھارت کا دم چھلا لگ جائے تو ان کے دماغ ساتویں آسمان سے باتیں کرنے لگتے ہیں۔ خالد بیگ پاکستان کے ایک شو میں گانے سے مشہور ہوئے۔ بھارتی گلوکارمحمد رفیع مرحوم کی آواز میں جب گاتے ہیں تو موسیقی کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔خالد بیگ نیویارک میں ہمارے ایک ٹی وی شو میں بھی مدعو تھے۔ انہوں نے بتایا کہ محمد رفیع کی شخصیت پر تھیسس کے لئے بھارت بھی جا چکے ہیں اورمحمد رفیع کی شخصیت سے متعلق متاثر کن باتیں جان کر ان کی شخصیت کے مزید گرویدہ ہو گئے۔ محمد رفیع اپنے دور کا نیم برینڈ تھے جس فلم کے لئے گانا گا دیتے وہ فلم ہٹ ہو جاتی۔ خالد کو ایک بھارتی فلم ساز نے بتایا کہ برسوں پہلے جب انہوں نے پہلی فلم بنانا چاہی تو ان کی جیب میں صرف چار لاکھ روپے تھے۔ محمد رفیع ایک گانے کا تیس ہزار روپے معاوضہ لیتے تھے۔ اگر ان سے چار پانچ گانے گوائے جاتے تو باقی پیسوں میں فلم نہیں بنائی جا سکتی تھی۔ کسی طرح کوشش کر کے محمد رفیع تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے اور رفیع صاحب کے قدموں میں بیٹھ کر روتے ہوئے کہا کہ ان کے پاس یہی جمع پونجی ہے، اگر رفیع صاحب بیس ہزار روپے میں گانا گا دیں تو ان کی فلم ہٹ ہو جائے گی اور ان کا غریب خاندان خوشحال ہو جائے گا۔ رفیع صاحب مان گئے اور بیس ہزار روپے جیب میں ڈال لئے۔ بھارتی فلمساز سے بچوں کا حال احوال اور مالی حالات پوچھے اور اپنی جیب سے بیس ہزار روپے نکال کر فلمساز کو تھماتے ہوئے کہا کہ یہ بچوں کی تعلیم پرکام آئیں گے، وہ گانا بلا معاوضہ گا دیں گے۔ رفیع صاحب نے بلا معاوضہ گانا گایا، ان صاحب کی فلم ہٹ ہو گئی اور پھر وہ ایک نامور فلمساز کے طور پر ابھرے۔بڑے لوگوں کی بڑی باتیں، چھوٹے لوگوں کی سمجھ سے بالا ہیں۔ دور حاضر میں اب سب کچھ پیسہ ہے۔ بھارت کا کتا بھی ملنے آجائے، آگے بڑھ کر ملتے ہیں اور پاکستانی ہجوم سے کتراتے ہیں۔ اس رویہ کی ذمہ دار پاکستانی قوم ہے۔ پاکستانی ان بد دماغ اور مہنگے فنکاروں کے مداح بننا چھوڑ دیں تو ان کے دماغ درست ہو جائیں۔ گزشتہ ہفتے نیویارک لانگ آئی لینڈ کی یوم آزادی پریڈ میں علی ظفر کے پاکستانی میڈیا اور مداحوں کے ساتھ ’’حسن سلوک‘‘ نے اس شخص کے اندر کا چھوٹا انسان بے نقاب کر دیا۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38