اتحاد بین الملت
خالدہ جمیل
انسانی عادات اور فضائل میں چند ایسی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ جنہیں اس کی طبیعت ثانیہ اور فطری جذبات سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ جو اس کی حیات کیلئے جزولاینفک ہیں۔ مدنی الطبع اور انفرادی سے اجتماعی زندگی کو ترجیح دینا بھی ایک طبعی جذبہ ہے۔ اس مدنیت کی طرف نوع انسان کا میلان کچھ آج سے نہیں بلکہ روز آفرینش سے ہی ہے۔ انسان کی ضروریات اس قسم کی ہیں کہ جب تک وہ ایک دوسرے سے تعلقات پیدا نہ کرے آرام و اطمینان کی زندگی بسر نہیں کر سکتا، اسے پہننے کیلئے کپڑے کی ضرورت ہے، کھانے کیلئے خوراک کی حاجت ہے، رہنے کیلئے مکان کی تلاش ہیں۔ اور یہ سب چیزیں سوائے کسی دوسرے شخص کی اعانت کے ہم نہیں پہنچ سکتیں۔ ایک جولاہا کپڑا بنا سکتا ہے،مگر ہل نہیں چلا سکتا، کاشتکار تخم ریزی کر سکتا ہے ،لیکن نجاری سے واقف نہیں، اجتماعی حیات کی برکات اور ایک دوسرے کی مدد سے انسانی ضروریات پوری ہو تی ہیں۔
ا دیان عالم میں جو مذاہب الہامی ہیں۔ ان کی تعلیم ہمیشہ انسانی فطرت کے مطابق ہے۔ ایک عقلمند ذی ہوش آدمی کا سب سے بڑا معلم خود اسکا ضمیر ہے۔ اور مذہب نے بھی رواداری سے کام لیکر اپنے دل سے ہر معاملہ کے حسنِ قبیح کے متعلق دریافت کرنے کا حکم دیا۔ اسلامی تعلیمات تو سرا سر فطرت سلیم کے مطابق ہیں۔ اگر تفکرو تدبر سے کام لیا جائے۔ تو اسلام کے مقررہ اصول و قواعد میں کوئی ایک بات بھی ایسی نہیں، جو ایک مہذب و شائستہ قوم کے شایان شان نہ ہو۔ اگر ایک مومن مخلص کی زندگی پر نظر ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ وہ ایک اجتماعی حیات کی عملی تفسیر ہے۔ باجماعت نماز ادا شکر اور اجتما عیت کا عملی ثبوت ہے۔ حضور اکرمؐ کا ارشاد ہے کہ جو مسلمان کسی عذر کے نہ ہوتے ہوئے بھی نماز باجماعت میں شریک نہیں ہوتے جی چاہتا ہے کہ ان کو گھروں میں جلا دوں۔یہ حکم اس بنا پر صادر ہوا کو وہ اجتماعی حیات کے خوگر ہو جائیں۔ اور محلہ والے دن میں پانچ مرتبہ اور ہفتہ میں ایک مرتبہ جامع مسجد میں اکٹھے ہو کر عبادت کے بعد ایک دوسرے کے رنج و راحت میں شریک ہوں۔ اجتماع عیدین کا مقصد بھی یہی ہے۔ مصافحہ اور معانقہ بھی محبت اخوت کا عملی اقدام ہے۔ اسلام کی ایک متحدہ کانفرس حج تو اجتماعی حیات اور اتحان المسلمین کا وہ مظاہرہ ہے۔ جس سے اگر صحیح فائدہ اٹھایا جائے اور عظیم الشان اسلامی اجتماع مسلمانوں کے لئے کوئی نسخہ تجویز کیا جائے تو یہی وہ اجتماعی حیات اور دنیا بھر کے ذی استطاعت مسلمانوں کا باہمی اتحاد و اشتراک ہے۔ روزے کیلئے رمضان المبارک کے تخصیص محض اجتماعی صورت پیدا کرنے کیلئے ہے۔ زکوۃ کیلئے نصاب اور مصارف کے تعین وحدت کا اشارہ ہے۔’’ احادیث مبارکہ جماعت کثیر کا اجتماع کرو‘‘ آج مسلمانوں جن مصائب اور تکالیف میں مبتلا ہیں جن تنزل و انحطاط میں پڑے ہوئے ہیں۔ اور زمانے کے جو روستم برداشت کر رہے ہیں۔ اسکا سب بڑا سبب تفرفہ بندی، نا انصافی اور بدنظمی ہے۔ ایک خدا ،ایک رسولؐ اورایک کتاب رکھنے والے مسلمان فروعی اختلافات پر لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں۔ کبھی وہ دور تھا، جب بنی نوع انسان کو اتحاد و اتفاق ایک سطح ہموار لے آیا تھا۔ اور اپنے ماننے والوں میں اس نے ایک ایسا نظام ایک ایسی مرکزیت پیدا کر دی تھی۔ کہ خلیفہ وقت مدینہ طیبہ میں بیٹھا ہوا ان اسلامی لشکروں کی کمان کرتا تھا۔ جو ایران میں مصروف پیکار ہوتے تھے۔
مسلمانوں کی اجتماعی حیات کا مقصد یہ ہے کہ خدا کے پرستار اور رسولؐ کے نام لیوا سب رشتوں ا ور تعلقوں کے مقابلے میں اسلام کے رشتہ اور ناطہ کو اہم اور مقدم سمجھیں اخوت اسلامی کو سب برادریوں سے افضل جانیں اور اسلامی برادری کو سب پر ترجیح دیکر ایسا اتحاد پیدا کر لیں۔ ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی کے ایسے رشتے جوڑ لیںکہ دوسری اقوام پر ان کا رعب و دبدبہ قائم ہو جائے۔ اغیار کے دلوں پر ان کی ہیبت بیٹھ جائے۔ ان کی متحدہ قومیت کا مقابلہ کرنے کی دنیا میں کسی کو جرأت حاصل نہ ہو۔ اس اجتماعی حیات کی جنس گرایہ مایہ کو حاصل کرنے کی خاطرایک مرکزیت ، ایک نظام اور ایک ملک کی ضرورت کے لئے مسلمان ایک دوسرے سے منسلک ہو جائیں۔ مسلمان الجھنوں اور بندشوں میں پڑ کر اسلام کے بہترین اصل مرکزیت کو نہ بھولیں ، اجتماعی حیات جو اقوام ملت کی اساس ہے فراموش نہ کر یں آئو سب مل کر اپنے آپ کو بدنام ہونے سے بچائیں۔ مسلمانوں کی کشتی کو حوادث کے تھپیڑوں سے نجات دلائیں اور نعرہ توحید سے وحدت اسلامی کا سبق سیکھ کر دنیا کو بتلا دیں۔
ہم بلا تفریق رنگ و نسل کی حفاظت قرآن، اللہ اور اس کے رسولؐ کی عزت و ناموس کی حفاظت کیلئے ایک مرکز پر متحد ہو جائیں۔ اگر ہمارے خیالات ہمیں کسی صورت متحد نہیں بنا سکتے تو اغیار کی ریشہ دوانیوں اور مخالفین کی چالبازیوں کے مقابلے میں ہم اکٹھے ہو جائیں۔ ہم کمر ہمت باندھ کر اتحاد بین المسلمین اور اجتماعی حیات کے آلات سے مسلح ہو جائیں اور کار گاہ عالم میں برادران وطن اور دیگر اقوام سے نبرد آزما ہونے کیلئے نہیں بلکہ ان کے دوش بدوش قدم بہ قدم چل کر اور راستہ کی تمام رکاوٹوں کو دور کر کے منزل مقصودپر پہنچ جائیں۔اب باتیں بنانے کا وقت گزر چکا ہے اب عمل اور صرف عمل کا زمانہ ہے۔ ’’عملی زندگی‘‘ اور اجتماع حیات کو اختیار کر لو۔