حجِ بیت اللہ
علامہ منیر احمد یوسفی
نبی کریمؐ نے سارے عرب میں اپنے حج کا اِعلان فرمایا کہ ہم فلاں تاریخ کو مدینہ منورہ سے روانہ ہورہے ہیںتاکہ زیادہ سے زیادہ اِیمان والے لوگ اِس مبارک سفر میں آپؐکے ساتھ رہ کر مناسک ِحج اور دین کے دوسرے مسائل و اَحکام سیکھ لیں اور سفر حج میں آپ ؐکی صحبت و رفاقت کی خاص برکات حاصل کر سکیں۔ چنانچہ دُور دَراز سے ہزاروں مسلمان جن کو اِس عظیم فرمانِ عالی شان کی اِطلاع ہوئی اور اُن کو کوئی مجبوری نہیں تھی‘ مدینہ طیبہ آگئے۔ ۴۲ ذیقعدہ کو جمعتہ المبارک تھا ۔اُس دن آپ ؐنے خطبۂ مبارکہ میں حج اور سفرِ حج کے متعلق خصوصیت سے ہدایات جاری فرمائیں اور اَگلے دن ہفتہ ۵۲ ذیقعدہ ۰۱ ھ بعد از نماز ظہر مدینہ طیبہ سے یہ عظیم الشان نورانی قافلہ روانہ ہوا اور عصر کی نماز‘ ذوالحلیفہ جاکر پڑھی اور یہیں سے اِحرام باندھنا تھا۔ رات بھی وہیں گزاری اور اَگلے دن یعنی اِتوار کو ظہر کی نماز کے بعد آپؐ اور آپ ؐکے صحابہ کرام ے اِحرام باندھا اور مکہ معظمہ کی طرف روانہ ہوئے اور راستہ میں عُشَّاق میں اِضافہ ہوتا گیا۔ اِس سفر میں آپ ؐکے ساتھ حج کرنے والوں کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار سے ایک لاکھ تیس ہزارتک تھی۔
اِس سے معلوم ہوا کہ حج وہ عبادت ہے جس کا اِعلان اَفضل ہے تاکہ دوسروں کو بھی حج شریف کا شوق پیدا ہو اِن تمام کاموں کا ماخذ یہی حدیث ہے‘ یہ سب اِعلان کی صورتیں ہیں۔ (مرآۃ جلد ۴ ص ۷۰۱)
حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے‘ رسول اللہ ؐنے خطبہ اِرشاد فرمایا: ’’اے لوگو! تم پر حج فرض کیا گیا ہے‘ لہٰذا حج کرو۔ ایک شخص نے عرض کیا: کیاہر سال یا رسول اللہ ؐ؟ آپؐچپ رہے‘ حتیٰ کہ اُس شخص نے تین بار عرض کیا‘ تو آپ سرکارؐ نے فرمایا: اگر میں ہاں فرما دیتا تو ہر سال فرض ہو جاتا اور تم نہ کر سکتے پھر فرمایا: مجھے چھوڑے رہو جس میں تمہیں آزادی عطا فرمائوں کیونکہ تم سے پہلے لوگ اپنے اَنبیاء ؑسے زیادہ پوچھ گچھ کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔ لہٰذا جب میں تمہیں کسی چیز کا حکم دوں تو جہاں تک ہو سکے کر گزرو اور جب تمہیں کسی کام سے منع کروں تو اُسے چھوڑ دو‘‘۔ (مسلم جلد۱ ص۲۳۴ ودیگر
عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے ‘ رسول اللہؐنے فرمایا: ’’اے لوگو! اللہ نے تم پر حج فرض کیا ہے‘ تو حضرت اَقرع بن حابس نے عرض کیا‘ یارسول اللہؓکیا ہر سال؟ فرمایا: اگر ہم ہاں فرما دیتے تو اِسی طرح ہر سال فرض ہو جاتا مگر تم عمل نہ کر سکتے۔ پس حج تو ایک ہی بار ہے ‘جو زیادہ کرے وہ نفل ہے‘‘۔ (مشکوٰۃ ص۱۲۲‘ ودیگر
حضرت ابوہریرؓ ہی سے روایت ہے‘ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’جو اللہ کے لئے حج کرے اور فسق کی باتیں نہ کرے ‘وہ اَیسے لوٹے گا جیسے اُسے اُس کی ماں نے آج ہی جنم دیا ہے‘‘۔ ( مسلم جلد۱ ص۶۳۴‘ ودیگر)
قرآنِ مجید میں فرمایا گیاہے: ’’حج کے مہینے جانے پہچانے ہوئے ہیں‘ تو جو اِن میں حج کی نیّت کرے تو حج کرنے تک نہ تو بیویوں کے سامنے صحبت کا تذکرہ ہو اورنہ ہی کوئی گناہ اور نہ کوئی جھگڑا‘‘۔(البقرۃ: ۷۹۱) اِس آیۂ مبارکہ میں حاجیوں کو ہدایت فرمائی گئی ہے کہ وہ اِحرام اور حج کے دِنوں میں مذکورہ بالا اُمور سے بچیں۔
حقوق العباد تو اَدا ہی کرنا پڑیں گے۔
حضرت عبداللہ بن ؓسے روایت ہے‘ ایک شخص نبی کریمؐکی خدمت ِ اَقدس میں حاضر ہوا۔ عرض کیا ‘یا رسول اللہ ؐکون سی چیز حج فرض کر دیتی ہے؟ فرمایا: ’’توشہ (زاد ِراہ) اور سواری‘‘۔ ( ترمذی جلد۱ ص۲‘ابن ماجہ حدیث نمبر ۷۹۸۲)
امیر المؤمنین حضرت علی ؓ سے فرماتے ہیں‘ رسول اللہ نے فرمایا: ’’جو شخص توشہ اور سواری کا مالک ہو‘ جو اُسے بیت اﷲ شریف تک پہنچا سکے پھر حج نہ کرے تو اِس میں فرق نہیں کہ وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر اور یہ اِس لئے ہے کہ اللہ فرماتا ہے کہ لوگوں پر اللہ کے گھر کا حج فرض ہے جو وہاں تک راستہ طے کر سکیں‘‘۔ ( کنزالعمال حدیث نمبر۷۷۸۱۱ ودیگر)
حضرت اَبواُمامہ ؓسے روایت ہے رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’جس کو حج سے کوئی ظاہری ضرورت یا ظالم بادشاہ یا روکنے والی بیماری نہ روکے پھر وہ حج کئے بغیر مر جائے تو چاہے یہودی ہو کر مرے اور چاہے عیسائی ہو کر مرے‘‘۔ ( مرقاۃ جلد ۵ ص ۳۴۴ و دیگر)
حضرت عبداللہ بنؓے روایت ہے‘ فرماتے ہیں: ’’جو حج کا اِرادہ رکھتا ہو وہ جلدی کرے‘‘۔ ( مستدرک حاکم جلد۱ حدیث نمبر۸۴۴‘ و دیگر حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے : ’’یمن کے لوگ حج کرنے آتے تھے اور زادِ راہ ساتھ نہ لاتے تھے اور کہتے تھے‘ ہم متوکل ہیں۔ جب یہ لوگ مکہ مکرمہ پہنچتے تو لوگوں سے سوال کرتے‘‘۔ (مشکوٰۃ ص۲۲۲ )تب ربِّ ذوالجلال والاکرام نے یہ حکم نازل فرمادیا: ’’اور زادِ راہ ساتھ لو کہ سب سے بہتر زاد ِراہ پرہیزگاری ہے ‘‘۔ (البقرۃ:۷۹۱) (سوال کرنے سے بچنا چاہئے) اَسباب ِسفر ساتھ رکھنا ‘توکّل کے خلاف نہیں بلکہ ضروری ہے اور توکّل میں تقویت کا سبب ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے‘ ایک شخص رسول اللہؐ کی بارگاہِ اَقدس میں حاضر ہوا اور عرض کیا‘ یا رسول اللہؐ’’حاجی کون ہے؟ تو آپ ؐے فرمایا: (حاجی وہ ہے) جو بالوں کی پراگندگی‘ سر میلا ‘ اور بُو والا ہو۔ دوسرا شخص کھڑا ہوا‘ عرض کیا یا رسول اللہ ؓکون سا حج افضل ہے؟ فرمایا :خون بہانا ‘ شور مچانا۔ پھر ایک اور اُٹھا‘ عرض کیا یا رسول اللہؐ سبیل کیا چیز ہے؟ فرمایا توشہ اور سواری‘‘۔ ( کنزالعمال حدیث نمبر۲۹۸۱۱ و دیگر)
حضرت عبداللہ بن عمرؐسے روایت ہے رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’جب تم حاجی سے ملو تو اُسے سلام کرو‘ او ر اُس سے مصافحہ کرو اور اُس کے گھر داخل ہونے سے پہلے اُسے اپنی مغفرت کی دُعا کے لئے کہو کیونکہ وہ بخشا ہوا ہے‘‘۔ (مسند احمد جلد۲ ص۹۶ و دیگر)
حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے‘ ‘ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’جو حاجی یا غازی یا عمرہ کرنے والا ہو کر نکلے پھر راستہ میں فوت ہو جائے تو اُس کے لئے غازی‘ حاجی اور عمرہ کرنے والے کا سا ثواب لکھ دیا گیا‘‘۔ (مشکوٰۃ ص۳۲۲ )
(جاری ہے)