1930ءکے خطبہ الہ آباد کے بعد اقبالؒ کے دو قومی نظریے نے ہندوستان کی سات کروڑ مسلم آبادی کو اس طرح بیدار کیا کہ 1940ءتک برصغیر پاک و ہند کی یہ مسلمہ قوم متحدہ ہندوستان کی دیگر اقوام کے مقابلے میں ایک جہت، متفق الخیال اور متحد نظر آنے لگی۔ یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جس نسل انسانی کے پاس ایک ضابطہ حیات و دستور ریاست موجود ہوتا ہے اور منتشر نسل قومی اکائی کی صورت اختیار کر لیتی ہے تو پھر بڑی نیک بختی ہے اس قوم کی کہ اسے قائدین مل جائیں جو اس قوم کو منظم کر کے ان کا ایک نصب العین متعین کر دیں اور پھر وہ اس متعین کردہ نصب العین کے حصول کے لئے اپنی قوم کے اندر تحریک بھی پیدا کر دیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ مفکر پاکستان کے حصول پاکستان کے خواب کی تعبیر کو سچ کرنے کے لئے ہمیں برصغیر پاک و ہند کی سیاسی و فکری نہج پر بہترین قیادت، نصب العین اور قومی اتحاد کے زریں وسائل میسر آئے جو 14 اگست 1947ءکی صبح نو کی نوید بنے۔ محمد علی جناحؒ نے اقبالؒ کے فلسفہ حریت و قومیت کو حکمت و دانش کے ساتھ برطانوی حکومت سے تسلیم کروایا جو کہ تاریخ میں سیاسی مبصرین کے مطابق بذات خود ایک بہت بڑا کارنامہ ہے۔ قائداعظم نے حکومت ہند کے سامنے دوٹوک یہ واضح کر دیا تھا کہ ہندوستان ایک ملک نہیں بلکہ یہ کئی قومیتوں کا مجموعہ ہے اور ان قومیتوں کے تناسب سے یہاں کئی ملک آباد ہیں۔ اس نقطہ نظر سے یہاں جو آئین بنایا جائے گا وہ جمہوری آئین کی روح سے خالی ہو گا خصوصاً مسلمان قوم اپنی مذہبی امنگوں کے مطابق زندگی کی گزارنا چاہتے ہیں اور مسلمان قوم کی مذہبی زندگی کو غیر مسلم قوم کے تسلط و آئین گزند ہو گا لہٰذا مسلمان قوم کا آخری فیصلہ فیصلہ یہی ہے کہ وہ ایسا زمین کا ٹکڑا حاصل کریں جو اسلامی اصولوں کی تجربہ گاہ ہو۔ پاکستان کا دنیا کا واحد اسلامی ملک ہے جس کی بنیاد ایسی نظریاتی اکائی پر رکھی گئی کہ جس کے سبب اسلام کی عملی جہت کی اصل روح دریافت کرنے کا موقع میسر آیا اور یہ اسلام ہی کہ جس نے مسلمانان ہند کو پہچان، آزادی، تشخص، خود مختاری اور وقار بخشا۔ نظریاتی جنگ لڑنا ہتھیار سے لڑی گئی جنگ سے کہیں زیادہ سخت و کٹھن ہوتی ہے لیکن قائداعظم محمد علی جناحؒ نے ہندوستان کی دیگر قوموں کے خلاف اپنے وطن پاکستان کا مقدمہ بڑی دلیل و حکمت سے لڑا اور جیتا۔ مسلمان ”انگریز و ہند“ ہر دو راج و تسلط میں بُری طرح پس رہے تھے۔ کالی ماتا کے پجاریوں کی شدھی اور ہندو سنگٹھن تحریکوں نے بھی مسلمانوں کے خلاف اودھم مچا رکھا تھا اگر یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہتا تو آج ہم اپنی تہذیب و افراد سے قطعی آشنا نہ ہو پاتے۔ کشمیر کے مسلمانوں اور دیگر ہندوستان میں بسنے والے 22 کروڑ مسلمانوں کی حالت زار دیکھ کر ہمیں اللہ کے حضور سر بسجود ہو جانا چاہئے کہ ہم نے پاکستان کی آزاد فضا میں سانس لی۔ پاکستان نے ہماری اقلیتی حیثیت بدل کر رکھ دی، ہمیں حب الوطنی کی زنجیریں پہنا دیں۔ ہمیں نظریہ پاکستان کا سودائی بنا دیا۔ ہمیں اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آزاد شہری بنا دیا۔ ہمیں ایک کتاب کا ماننے والا، ایک اللہ پر ایمان رکھنے والا اور ایک رسول ہاشمی کی قومی اکائی کا نشان بنا دیا۔ ہمیں ایسے دستور، ایسی روایات اور ایسے نظام کا معتقد بنا دیا کہ جس کا نقش معمار پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ نے چھوڑا تھا۔ اس سال بڑی شان سے پھر وہ لمحے 14 اگست آزادی پاکستان و اعلان تقسیم ہند کے اپنی یادوں کی ہرممکن بساط سے پلٹ آئے ہیں تو آئیں منائیں یہ جشن آزادی کا دن اور خراج تحسین پیش کریں اپنے قائدین کو اور تحریک پاکستان کے مجاہدوں کو --- کہ یہ ان کا حق ہے۔
مگر خبردار رہیے اس ٹولے سے جو آزادی وطن کی قدر نہیں جانتا۔ برما میں اقلیتی مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم تو دیکھ رہا ہے لیکن کہتا ہے کہ مسلمان ہندوستان میں رہ کر بھی اپنا تشخص بچا سکتے تھے۔ یہ معاملہ کئی زاویوں سے بحث میں آ سکتا ہے صرف ایک زوایہ بیان کروں گی اگر یہ ٹولہ قائداعظم کے اس فرمان کو سمجھ سکا تو بڑا کارنامہ ہو گا۔ قائداعظمؒ نے فرمایا ”مسلمانوں کی حکومت برطانیہ سے مطالبہ آزادی ہند کا جذبہ محرکہ کیا تھا؟ مسلمانوں کی علیحدہ ریاست کی وجہ جواز کیا تھی؟ تقسیم ہند کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ ہندو¶ں کی تنگ نظری و انگریزوں کی چال ایک طرف --- ایک علیحدہ ریاست کا قیام تو ہمارے دین کا بنیادی مطالبہ تھا۔“ جو قائداعظم کے اس فرمان کو سمجھ گیا اس کے دل میں احترام وطن اور بھی بڑھ جاتا ہے یعنی فرمان قائد کی روشنی میں ہماری آزادی صرف ایک غلامی کے لئے حاصل کی گئی ہے جو ہمیں نبی آخر الزمان محمد مصطفی کے در کا غلام بنا دے۔ چلئے آج ہم غیر کی غلامی سے نجات کا دن منائیں اور اپنے محبوب محمد مصطفی کی خوبصورت اسیری قبول کرنے کا جشن منائیں۔ اسلام زندہ باد، نظریہ پاکستان زندہ باد، پاکستان پائندہ باد!
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024