تعلیم دشمنی کیوں؟

Apr 12, 2025

سید روح الامین....برسرمطلب

تعلیم کی اہمیت سے تو انکار ممکن ہی نہیں۔ قرآن و احادیث میں بار بار علم حاصل کرنے کی ترغیب ہی نہیں دی گئی بلکہ اسے فرض قرار دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ ’’عالم اور جاہل برابر نہیں ہو سکتے۔‘‘ خاتم النبین ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد عورت پر فرض ہے۔‘‘ دینی علوم کا سیکھنا بھی بے حد ضروری ہے۔ اس کے علاوہ ہر وہ علم جو شریعت کے خلاف نہ ہو وہ علم نافع ہے۔ ماں کی گود سے قبر تک علم حاصل کرنا چاہیے بلاشبہ قومیں تعلیم کی بدولت ہی عروج پاتی ہیں۔کسی بھی ملک و معاشرے میں تعلیم کو اولین ترجیح دی جاتی ہے۔ 77سال قبل بانیٔ پاکستان نے واضح طور پر بار بار فرمایا کہ ’’اس ملک کی قومی و سرکاری زبان اردو اور صرف اُردو ہو گی۔‘‘ بدقسمتی سے قائداعظم کے فرمودات اور 73ء کے آئین کی شق251(1) سے 77سال سے اغماض برتا جا رہا ہے۔ دنیا کے ہر ملک میں تعلیم ان کی اپنی مادری زبانوں میں دی جاتی ہے۔ لیکن ہمارے بچوں کو ایک غیر ملکی زبان پڑھنے پر مجبور کیا جا رہا ہے اور اس کے نام پر لوٹ مار کا سلسلہ جاری ہے۔ کوئی بھی پُرسان حال نہیں۔ پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں مافیا سرگرم ہے اور لوٹ مار کی انتہا کر دی گئی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ہمارے دور میں کچی پکی اور پہلی جماعت میں صرف دو کتابیں ہوتی تھیں۔ قاعدہ اور پہاڑے(ٹیبلز) پڑھانے پر زور دیا جاتا تھا۔ چند روز قبل برادرم نوید اسلام سلہری نے جب بتایا کہ میں کلاس ون کے بچے کا سلیبس بارہ ہزار اور دوسری تیسری کلاس کے بچوں کی کتابیں 36ہزار میں لایا ہوں تو یقین کریں میرے رونگٹھے کھڑے ہو گئے ۔ پرائیویٹ تعلیمی ادارے بخدا محض کاروبار کے لیے بنائے جاتے ہیں۔ ایڈمشن فیس ہزاروں کے حساب سے علیحدہ لی جاتی ہے۔ پھر یہ حکم ہوتا ہے کہ کتابیں کاپیاں نوٹس ایک ایک چیز آپ نے سکول سے خریدنی ہے۔ یونیفارم کے لیے بھی آپ کو مخصوص دکانوں پر جانا ہوتا ہے۔ عید ملن پارٹی، فن فیئر وغیرہ بچوں کو لوٹنے کے مہذب کئی طریقے ہیں۔ 
مجھے یاد ہے کہ ہمارے دور میں خلاصے، ہینڈ بکس استعمال کرنے کی اجازت ہی نہیں تھی ۔سکول میں لانے کو برا سمجھا جاتا تھا۔ اب سکول کی طر ف سے پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی بکس کو اہمیت ہی نہیں دی جاتی کیوں کہ وہ ساری ایک ہزار میں مل جاتی ہیں۔ اب خلاصے، گائیڈیں بھی لینے پر بچوں کو مجبور کیاجاتا ہے۔ مخصوص مصنّفین اور دکانوں سے ہی لینی ہے۔ ایک خلاصہ، ہینڈ بک ایک ہزار سے کم نہیں ملتی۔ پہلے استاد کلاس میں بچوں کو پڑھاتے، سمجھاتے، رف کاپیوں پر لکھاتے پھر گھر سے کاپیوں پر لکھ کر کام لانا ہوتا تھا۔ بار بار لکھنے سے لکھائی بہتر ہونے کے علاوہ چیزیں یاد بھی جلدی ہوتی ہیں۔ اب یہ باتیں سننے کو بھی نہیں ملتیں۔ اساتذہ بی۔ ایڈ، سی ٹی وغیرہ ڈگریوں کے حامل ہوتے تھے۔ اب کوئی بچہ میٹرک، ایف اے ، بی اے بھی ہے تو اسے کم معاوضے پر رکھ لیا جاتا ہے۔ نوٹس پرنٹ کرا کے، فوٹوکاپیاں کرا کے بچوں کو ہزار دو ہزار میں لینے ہوتے ہیں۔ 
تعلیمی معیار یہ ہے کہ ایک بچی کی کاپی میں علامہ اقبال کے بارے میں مضمون میں لکھا تھا کہ’’علامہ اقبال حافظ قرآن تھے‘‘ میں چونک گیا کہ شاید میری نظر سے نہ گزرا ہو۔ بہرحال سکول والوں کو بتایا کہ علامہ محمد اقبال حافظ قرآن نہیں تھے۔ اُن پر رحم کیجیے ان کی مہربانی کہ مان گئے۔ معصوم بچوں کو پچیس تیس کلو وزنی بیگ سکول لازمی لے کے جانے ہیں۔ اگر صرف PTBکی کتب اور چند کاپیاں ہوں تو دو کلو بھی وزن نہیں بنتا۔ ایک وقت تھا کہ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسرز اور اے ای او صاحبان سکولوں میں جا کر چیک کرتے تھے۔ اسی طرح مجسٹریٹ صاحبان بازاروں میں اشیاء کے نرخ چیک کرتے۔ اب یہ سب کچھ ختم ہو گیاہے۔ شاید اٹھارہویں ترمیم میں یہ سب بھی شامل تھے۔ تعلیم کو تو لگتا ہے کہ حکومت سوچے سمجھے منصوبے کے تحت نقصان پہنچا رہی ہے۔ لوگ پرائیویٹ طور پر بی اے اور ایم اے تک تعلیم حاصل کرتے تھے۔ اب تو B.Aاور M.Aکو بالکل ہی ختم کر دیا گیا ہے۔ بی ایس میں داخلہ لیں چار سال بھاری بھرکم فیسیں ادا کریں اور آٹھ سمیسٹر مکمل کریں پھر B.Sکی ڈگری لیں۔ 
غریب لوگوں کے لیے پرائیویٹ تعلیم حاصل کرنے کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند ؟ کسی کو بھی اس کی فکر نہیں کہ تعلیم کے ساتھ یہ کھلواڑ کیوں کھیلا جا رہا ہے؟  H.E.C میں کون لوگ ہیں جو تعلیم دشمنی پر مبنی پالیسیاں بناتے ہیں۔ کوئی ان کو پوچھنے والا ہی نہیں۔ اساتذہ کرام کے ساتھ نت نئے مظالم ڈھائے جاتے ہیں۔ وہ آئے روز سڑکوں پر آتے ہیں۔ تعلیم میں آسامیاں ختم کر دی جاتی ہیں۔ اساتذہ کی پنشن دیگر مراعات جو عمر بھر تدریسی خدمت کے بعد ان کو ملنا ہوتی ہیں انہیں ختم کیا جاتا ہے۔ تعلیم کو بہترین بزنس سمجھ لیا گیا ہے۔ لوگ اپنی فیکٹریاں کارخانے بند کرکے پرائیویٹ اسکولز، کالجز اور یونیورسٹیاں دھڑا دھڑ بنا رہے ہیں۔ بھاری فیسوں کے عوض  بخدا دھڑا دھڑ ڈگریاں بانٹی جا رہی ہیں۔ کبھی ہم نے سوچا ہے کہ تعلیم سے یہ اندھا دھند کھلواڑ ہمیں کس قدر مہنگا پڑے گا۔ سب بے حس ، سب کی آنکھیں اور کان بند ہیں۔ ہر کوئی اپنے اپنے ذاتی مفادات کے پیچھے بھاگ رہا ہے۔ بخدا قیام پاکستان کے وقت ہی اردو کو عملی طور پر نافذ کر دیا جاتا اور ذریعہ تعلیم بھی اردو ہوتی تو آج آدھی سے زیادہ قوم تعلیم یافتہ ہوتی اور اشرافیہ کو انگریزی کی وجہ سے جعلی ڈگریاں لے کر شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ جب پرویز مشرف نے B.Aکی ڈگری لازمی کر دی تھی ۔ خدارا بچوں کی تعلیم کی طرف خصوصی توجہ دیں۔ پرائیویٹ تعلیمی اداروں نے جو لوٹ مار مچا رکھی ہے غریب والدین کو اس مافیا سے نجات دلائیں۔ ایک سکول کی عمارت ہوتی ہے، اگلے سال اسی سکول کی دو تین برانچیں مزید کھڑی ہو جاتی ہیں۔ بخدا  اسکولز کالجز میں علامہ محمد اقبال اور قائداعظم کی پیدائش و وفات کے دن خاموشی سے گزر جاتے ہیں۔ اساتذہ کرام اتنا بھی نہیں کرتے کہ بچوں کو بانیانِ پاکستان کی تعلیمات سے روشناس کرایا جائے۔ تعلیم کا یہ حال ہے ۔ تربیت کون کرے گا؟ حالانکہ اساتذہ اور والدین کا فریضہ ہے کہ بچوں کی تعلیم و تربیت کریں۔ والدین نام نہاد اعلیٰ اداروں میں بچوں کو داخل تو کرا دیتے ہیں جہاں بچوں کو سب کچھ مل جاتا ہے سوائے تعلیم کے؟
گلا تو گھونٹ دیا اہلِ مدرسہ نے ترا
کہاں سے آئے صدا لا الہ الا اللہ

مزیدخبریں