کرونا، ہیلتھ ورکرز اور رمضان کریم 

Apr 12, 2021

ڈاکٹر احمد سلیم

 کرونا کے عفریت نے ایک بھیانک خواب کی مانند پلٹ کر وار کیا ہے اور اسکی تیسری لہر میں جو حالات ہیں وہ بیان سے باہر تو ہیں ہی، میڈیا بھی اس بارے میں مکمل صورتحال بیان نہیںکر رہا۔ ہمارا میڈیا ( خاص طور پر الیکٹرانک) ہمیشہ سے غیر متوازن رہا ہے۔ اس وقت بھی میڈیا کی ترجیحات عجیب و غریب قسم کے لا حاصل سیاسی مسائل ہیں۔ کرونا کا سب سے اہم علاج اس بیماری سے بچائو ہے، اور اس سلسلے میں میڈیا کو زیادہ سے زیادہ وقت عوام کی سمجھانے اور تعلیم دینے کے لیے صرف کرنا چاہئے۔ اعداد و شمار اپنی جگہ ہوں گے لیکن تلخ زمینی حقیقت یہی ہے کہ ہسپتالوں میں آکسیجن اور کرونا بیڈز قریب قریب ختم ہو چکے ہیں اور اب کسی قسمت والے کو ہی کرونا وارڈ میں جگہ نصیب ہو رہی ہے۔ جس بڑی تعداد میں کرونا مریض آ رہے ہیں ظاہر ہے کہ سرکاری ہسپتال یہ بوجھ اٹھانے کے لیے ناکافی ہیں۔کچھ پرائیوٹ ہسپتالوں نے اپنے کچھ حصے کرونا کے لیے مختص کیے ہوئے ہیںلیکن ایک تو وہ بھی مکمل طور پر بھر چکے ہیں اور دوسرا وہاں مریض رکھنے کا مطلب ایک سے ڈیڑھ لاکھ روپے روزانہ کا خرچہ ہے جو عام پاکستانی افورڈ نہیں کرتا۔ میرے خیال میں حکومت کو اب اس سلسلے میںکچھ سخت فیصلے کر لینے چاہئیں۔ ایک تو نہایت سختی سے پرائیوٹ ہسپتالوں کے ریٹ کم سے کم سطح پر فکس کر دینے چاہئیں اور اس کے ساتھ ساتھ پرائیوٹ ہسپتالوں کو بھی اس بات کا پابند بنانا ہو گا کہ وہ اپنی روز مرہ کی مصروفیات (الیکٹو سرجری وغیرہ) کم سے کم کر کے اپنے زیادہ سے زیاہ وسائل کرونا کے مریضوں کے لیے مختص کر دیں۔ امید ہے کہ یہ تیسری لہر دو چار ہفتے میں ختم ہو جائے گی۔ ان ہسپتالوں نے سال ہا سال اتنا کمایا ہے، اگر ایک دو ہفتے یہ عوام اور ملک کے لیے مختص کر دیں تو آسمان نہیں گرے گا۔ اگر رضاکارانہ نہیں تو حکومت کو جلد از جلد اس سلسلے میں قانون سازی کر کے انہیں ہر صورت اس بات کا پابند بنا دینا ہو گا۔
ایک اہم مسئلہ فرنٹ لائن ہیلتھ ورکرز کا بھی ہے۔ حکومتی فیصلے کے مطابق اب فرنٹ لائن ہیلتھ ورکرز کی کرونا ویکسین کے لیے رجسٹریشن نہیں ہو رہی۔ حکومت کا خیال ہے کہ انہیں پانچ چھ ہفتے دیے گئے تھے اور جن ہیلتھ ورکرز نے اتنے دنوں میں ویکسین نہیں لگوائی تو اس کا مطلب ہے کہ ان کے لیے ویکسین اتنی اہم نہیں ہے ۔ میرے خیال میں اگر کچھ ڈاکٹرز اور ہیلتھ ورکرز گو مگوں کا شکار تھے یا کسی بھی وجہ سے ویکسین نہیںلگوا سکے تو اس کی کم سے کم یہ سزا نہیں بنتی کہ اب انکو ویکسین لگوانے کا موقع دیے بغیر کرونا کے خلاف محاذ پر لڑنے بھیج دیا جائے۔ اس کے علاوہ ، جلد ہی ایم۔بی۔بی ۔ ایس سمیت نرسنگ وغیرہ کے فائنل امتحانات کے رزلٹ آنے والے ہیں۔ ان نئے ڈاکٹروں ، نرسز وغیرہ نے آنے والے دنوںمیں ہستالوںمیں اپنی خدمات کا آغاز کرنا ہے۔ ظاہر ہے اس سے قبل یہ بطور ہیلتھ ورکر کرونا ویکسین نہیں لگوا سکے۔ ا ن کو ہسپتالوںمیں بھیجنے سے قبل انکی ویکسین کے لیے کسی جامع پروگرام کا آغاز ضروری ہے۔ عمر کے حساب سے تو انکی باری شاید اگلے برس آئے گی۔
کروناکی تیسری لہر کی شکل میں ہماری قوم کا کڑا امتحان رمضان کریم کی رحمتوں کے ساتھ ا ٓ رہا ہے۔ بظاہر ہماری قوم یہ عقیدہ رکھتی ہے کہ رمضان ’’ شریف‘‘ کے با برکت مہینے میں شیاطین قید کر دیئے جاتے ہیں ۔ اس حساب سے ہونا یہ چاہئیے کہ لوگ صرف سچ بولیں ، بازاروں میں اشیاء نہ صرف خالص اور مقدار میں پوری ملیںبلکہ سستی بھی ہوں، کیونکہ شیاطین کے قید ہو جانے کے بعد اب مسلمانوں کے دل لالچ سے آزاد ہو جانے چاہئیں۔جو ادویات مل رہی ہیں وہ بھی مناسب ریٹس پر ملیں۔ جس وقت میں یہ الفاظ تحریر کر رہا ہوں، کرونا کے سیریس مریضوں کو لگنے والا ایک ٹیکہ (Tocilizumab) جس کی مالیت ستائیس ہزار روپے ہے وہ مارکیٹ میں ایک بار پھر دو لاکھ روپے تک میں بلیک ہو رہا ہے۔ یہ سب کرنے والے منافع خور، بلکہ حرام خور جانور ( میں انہیں انسان نہیںکہہ سکتا) ہمیں اپنے گھروں اور مساجد میں افطاریوں کا انتظام کرتے بھی نظر آئیں گے۔ شاید ان لوگوں کے خیال میں اس منافقت سے انکی حرام کی کمائی جائز ہو جاتی ہے۔ ویسے بھی ہمارے وطن عزیز کی روایت ہے کہ رمضان کی برکات کو سمیٹنے کے لیے کاروباری حضرات اپنا اپنا ’’ٹوکا‘‘ تیز کیے اس کوشش میں رہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح پورے سال کا نفع، جائز یا ناجائز طریقے سے ایک ہی ماہ میں اکٹھا کر لیں۔ حالانکہ کہ جن کو ہم کفار کہتے ہیں ان کا کوئی معاشرتی یا مذہبی تہوار یا قدرتی آفت آجائے وہاں پر چیزیں خود بخود سستی ہو جاتی ہیں ۔ رمضان کریم سے قبل ہی مہنگائی کا طوفان آچکا ہے۔ دکاندار حضرات اشیاء خوردنوش سمیت ہر چیز کی من مانی قیمت وصول کر رہے ہیں ۔اللہ تعالیٰ ابلیس کو تو اس ماہ میں قید کر لیتا ہے لیکن ہمارے اندر موجود نفس کا شیطان ہمارے کنٹرول میںہے، اور ہمارا اصل امتحان یہ ہے کہ ہم اپنے اندر موجود شیطان یعنی اپنی طمع اور اپنے نفس کو قید کر سکتے ہیں یا نہیں۔حقوق اللہ یعنی روزے، نماز، عمرے کا ثواب اپنی جگہ لیکن اس سے زیادہ اہم حقوق العباد ہیں ۔ جھوٹ، چوری ، ذخیرہ اندوزی ، ریاکاری ، ملاوٹ اور وبا کے دوران ناجائز منافع خوری بھی اسلام کی تعلیمات کے خلاف اور بندوں کے حقوق کا قتل ہیں۔ جہاں عبادات کے بارے میں سوال ہونا ہے وہاں اس سب کے بارے میں بھی سوال ہو گا۔ میرا نہیں خیال کہ اللہ تعالیٰ جو اپنی اشرف ترین مخلوق سے ستر مائوں سے زیادہ محبت کرتا ہے وہ رمضان کے ماہ میں اور وبا کے دوران اپنی مخلوق کو مہنگائی،  گرانفروشی اور ادویات بلیک کرنے والے کاروباری حضرات کو انکی نماز یا  روزے کے بدلے معاف کرے گا۔  روزہ رکھ کر بھوکا رہنے کا کوئی فائدہ نہیں اگر انسان جھوٹ ، فریب، اور دیگر ’’معاشرتی گناہوں‘‘ سے اپنے اندر کے شیطان اور نفس کی بھوک مٹاتا رہے ۔ اصل روزہ دار تو وہ ہے جو اپنے اندر کے شیطان اور نفس کی خوراک بند کر کے اسے بھوکا پیاسا مار دے۔
٭…٭…٭

مزیدخبریں