سپہ سالارجنرل قمر جاوید باجوہ کی زیر صدارت 240 ویں کور کمانڈرز کانفرنس8اپریل کو جی ایچ کیو راولپنڈی میں ہوئی ۔آرمی چیف نے کانفرنس میں حق خود ارادیت کیلئے جاری جدوجہد میں اپنے کشمیری بھائیوں کیساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کیا اور دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ کشمیریوں کے حقوق کیلئے ہر سطح پر آواز بلند کی جاتی رہے گی ۔علاوہ ازیں پاک سپہ سالار نے تین ہفتے قبل بھی واضح الفاظ میں کہا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے اچھے تعلقات درحقیقت پورے خطے میں ترقی اور خوشحالی کا راستہ کھول سکتے ہیں کیوں کہ یہ تعلقات مشرقی اور مغربی ایشیاء کو منسلک کرتے ہوئے جنوب اور وسط ایشیاء کی صلاحیتیں بروئے کار لانے کی کنجی ہیں۔ پاک سالاراعلیٰ نے اس حوالے سے مزید کہا کہ پاکستان یقینا باوقار اور پرامن طریقے سے مذاکرات کے ذریعے سبھی ہمسایہ ملکوں کے ساتھ تمام دیرینہ تنازعات حل کرنے کے لئے تیار ہے مگریہ امر پیش نظر رہنا چاہیے کہ تنازعہ کشمیر کے منصفانہ حل کے بغیر اس ضمن میں ٹھوس اور حقیقی پیش رفت مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ اس ضمن میں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی، جنرل ندیم رضا بھی کہہ چکے ہیں کہ دنیا کو بھارتی غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کا نوٹس لینا چاہئیاسی صورتحال کا جائزہ لیتے سفارتی اور عسکری ماہرین نے 17اور18مارچ کو نیشنل سکیورٹی ڈائیلاگ کے انعقاد کو اہم قرار دیتے ہوئے توقع ظاہر کی تھی کہ آنے والے دنوں میں اس بابت مثبت اور نتیجہ خیز پیش رفت ہو سکتی ہے ۔پاک افواج کے سربراہ نے کہا کہ قومی سلامتی مکالمہ وقت کی اہم ضرورت ہے اور اب وقت آچکا ہے کہ خطے کے باہمی روابط کو پرامن بقائے باہمی اور وسائل کی مصنفانہ تقسیم کے ذریعے جنوبی ایشیاء میں ہم آہنگی پیدا کی جائے تاکہ ایک دوسرے سے لڑنے کی بجائے بھوک، ناخواندگی اور امراض کی روک تھام کے لئے اقدامات کئے جائیں۔ غیر جانبدار ماہرین نے کہا ہے کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ بھارتی حکمران ہٹ دھرمی پر مبنی اپنی منفی روش کو ترک کرکے اعتدال کی راہ اپنائیں ۔
کیوں کہ یہ امر غالبا کسی سے پو شیدہ نہیں کہ پاکستان کی تمام تر حکومتیں اس امر کی حامی رہی ہیں کہ سبھی تنازعات کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق حل کرنے کی کوشش کی جائے مگر دہلی کے منفی رویے کے سبب تاحال اس جانب کوئی نتیجہ خیز پیش رفت نہیں ہو سکی۔اس بابت یہ بات بھی خاصی اہم ہے کہ وزیر اعظم نے بھی تین ہفتے قبل کہا تھا کہ مسئلہ کشمیر کے حل سے علاقائی روابط کو فروغ مل سکتا ہے جس کے نتیجے میں خطے میںنہ صرف اقتصادی خوشحالی کا حصول ممکن ہے بلکہ اس کے خوشگوار اثرات پوری دنیا کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔ غیر جانبدار مبصرین کے بقول اس میں کوئی دورائے نہیں کہ ہماری ترقی، خوشحالی اور امن و استحکام کا دارومدار پاک بھارت سازگار تعلقات پر ہے اور سازگار تعلقات دوطرفہ تنازعات طے کر کے ہی استوار کئے جا سکتے ہیں جن میں کشمیر کا تنازعہ سرفہرست ہے۔ اگر پڑوسی ہونے کے ناطے پاکستان اور بھارت کے مابین پُرامن بقائے باہمی کے اصول کے تحت خوشگوار تعلقات قائم ہوتے ہیں اور دونوں ممالک ایک دوسرے کی اقتصادی، معاشی ترقی میں معاون بنتے ہیں تو اس سے پورے خطے میں اقتصادی استحکام پیدا ہو گا اور خوشحالی کا دور دورہ ممکن ہو گا۔ اس طرح جنوبی ایشیا بھی دنیا کے جدید ترقی یافتہ معاشروں کی اولین صف میں شامل ہوسکتا ہے۔
انسان دوست حلقوں نے اس ضمن میں کہا ہے کہ اگر قیام پاکستان کے بعد مثبت جذبے کے تحت بھارت نے پاکستان کی آزاد اور خود مختار حیثیت کو تسلیم کرکے اس کی جانب دوستی اور علاقائی تعاون کا ہاتھ بڑھایا ہوتا تو آج پاکستان اور بھارت بلاشبہ مستحکم اقتصادی معیشت والے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہو چکے ہوتے مگر بھارت نے اپنے توسیع پسندانہ عزائم اور اکھنڈ بھارت والے ہندوتوا کے ایجنڈے کے تحت پاکستان کے ساتھ شروع دن سے ہی دشمنی کی بنیاد رکھ دی تھی جس کے تحت پاکستان کی سلامتی کو کمزور کرنا بھارت نے اپنی پالیسی کا بنیادی جزوبنا لیا۔ بھارت کے اسی منفی رویے کے نتیجے میں ہی پاکستان کے ساتھ اس کے تنازعات شروع ہوئے جن میں کشمیر کا تنازعہ پاکستان کی سلامتی کو کمزور کرنے کی نیت سے بھارت نے خود کھڑا کیا جو آج قدیم ترین تنازع کی شکل اختیار کر چکا ہے اور اس مسئلہ کے حل کے لئے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد تو کجا، بھارت شملہ معاہدہ کے تحت پاکستان کے ساتھ کبھی دوطرفہ مذاکرات کی راہ پر بھی نہیں آیا۔ اس کے برعکس بھارت نے اپنے غیر قانونی قبضہ میں لی گئی وادی جموں و کشمیر کی بابت اٹوٹ انگ کا راگ الاپ کر یہ مسئلہ مزید پیچیدہ بنایا اور پھر پانچ اگست 2019ء کو اپنے زیر تسلط جموں اور لداخ کو باقاعدہ بھارت میں ضم کر کے علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کو سنگین خطرات لاحق کئے۔
اسی پس منظر میں یہ بات بھی خاص اہمیت رکھتی ہے کہ پاکستان کی جانب سے واضح کیا گیا کہ دور حاضر میں جنگیں محض میدان جنگ میں نہیں لڑی جاتیں بلکہ اب یہ دائرہ ہمہ جہتی شکل اختیار کر چکا ہے کیوں کہ ایک جانب اقتصادی،معاشی،معاشرتی اور ماحولیاتی تحفظ بھی اس کی اہم جزویات میں شامل ہو چکے ہیں تو دوسری طرف سائبر سکیورٹی ،آرٹی فیشل اینٹی جنس، کورونا جیسی مہلک وبائیں اورتیزی سے پگھلتے گلشئیر خطر ے کی گھنٹی بجا رہے ہیں۔علاوہ ازیں موسمی تبدیلیاں اور ٹڈی دل جیسی آفات ہر شے کو نگلنے کے درپے ہے اور دنیا تیزی سے ان دیکھے خطرات کی جانب بڑھ رہی ہے ۔بھارت کی داخلی سیاست کے ایک طالب علم ہونے کی حیثیت سے راقم کی رائے ہے کہ اس ضمن میں غالبا ً دانستہ یا غیر شعوری طور پربدانتظامی کا عنصر بھی کسی حد تک کارفرما رہا۔مگر پھر بھی یہ توقع رکھنا بیجا نہ ہوگا کہ پاکستانی حکومت اور عوام نے جس طور افغان امن عمل کو آگے بڑھانے میں اپنا پھرپور کردار ادا کیا اس کے پیش نظر عالمی برداری بھی تعمیری روش اپنائے گی تاکہ نہ صرف جنوبی ایشیائی خطہ بلکہ پوری دنیا امن کا گہوارہ بن سکے۔امید کی جانی چاہیے کہ قومی سلامتی مکالمے کو مزید آگے بڑھایا جائے گا تاکہ اچھے دنوں کے قیام کا خواب اپنی تعبیر حاصل کر سکے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024