برطانیہ میں منی لانڈرنگ اینڈٹیررسٹ فنانسنگ ریگولیشن گذشتہ ماہ نافذ ہوا ہے اور اس کے نفاذ نے ایک مرتبہ پھر پاکستان کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ برطانیہ نے پاکستان کو اکیس خطرناک ممالک کی فہرست میں شامل کر لیا ہے۔ پاکستان کا اس فہرست میں شامل ہونا ہماری ناکام خارجہ پالیسی کی نشاندہی کرتا ہے۔ خطرناک ممالک کی فہرست میں پاکستان کی شمولیت چیخ چیخ کر بتا رہی ہے کہ وزارت خارجہ بہتر کام نہیں کر رہی۔ پاکستان نے دہشت گردی سے نکلنے کے لیے ناصرف خود بے پناہ قربانیاں دی ہیں بلکہ دنیا کو دہشت گردی سے بچانے کے لیے کھربوں ڈالرز کا نقصان اور ہزاروں قیمتی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کیا ہے۔ اتنی بڑی قربانیوں کے باوجود اگر آج بھی پاکستان کو خطرناک ممالک کی فہرست میں شامل کیا جاتا ہے تو یہ سفارتی ناکامی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ہماری وزارت خارجہ کیا کر رہی ہے۔ کیا ہم سو رہے ہیں، کیا ہم نہیں جانتے کہ اردگرد کیا ہو رہا ہے، کیا ہمیں خبر نہیں کہ دنیا منی لانڈرنگ دہشت گردوں کی معاونت بارے کن قوانین پر یا کن خطوط پر کام کر رہی ہے۔ یہ فہرست پاکستان کے لیے ایک نئی مصیبت لے کر آئے گی کیونکہ اس فہرست میں منی لانڈرنگ، دہشتگردی کی معاونت جیسے خطرناک مسائل سے دوچار ممالک کو شامل کیا جاتا ہے۔ یہ تباہ کن ہے، واقعتاً تباہ کن ہے، کیا ہم ایف اے ٹی ایف کو نہیں پڑھ رہے تھے، کیا ہم اس حوالے سے دنیا کے ساتھ بات چیت نہیں کر رہے تھے، کیا ہم اپنا مقدمہ دنیا کے سامنے پیش نہیں کر رہے تھے۔ وزیر خارجہ کی توجہ اندرونی سیاست ہے بجائے غیر ملکی سیاست پر ہونی چاہیے وہ اندرونی سیاست میں الجھے رہتے ہیں ان کے اردگرد کیا ہو رہا ہے شاید نہیں کچھ خبر نہیں ہے۔ یہ صورتحال نہایت افسوسناک ہے۔برطانوی حکومت کی رپورٹ کیمطابق پاکستان اور برطانیہ کے درمیان ناجائز رقوم کاتبادلہ جاری ہے۔ بدقسمتی سے جب یہاں منی لانڈرنگ کی بات ہوتی ہے تو جمہوریت کو خطرات لاحق ہو جاتے ہیں، سیاسی قائدین کی عزت پر حرف آتا ہے اور سب مل جل کر ایک ہی نعرہ بلند کرتے ہیں کہ جمہوریت کو خطرہ ہے۔ برطانوی حکومت کے اس فیصلے سے پاکستان کے لیے بین الاقوامی سطح پر پریشانیوں اور مسائل میں اضافہ ہو گا۔ برطانوی حکومت کے مطابق دہشتگردی کی مالی معاونت اور منی لانڈرنگ کے مسائل سے دوچار ملک خطرہ ہیں۔ حیران کن بات ہے کہ پاکستان یوگنڈا جیسے ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔ ہم کس طرف جا رہے ہیں۔ ہم ایف اے ٹی ایف بھگت رہے ہیں وہاں ہر وقت خطرے کی تلوار لٹکی رہتی ہے حالانکہ حقائق کو دیکھا جائے تو پاکستان نے اس حوالے سے بہت زیادہ کام کیا ہے، معاملات میں بہتری آئی ہے جب کہ بھارت ایف اے ٹی ایف کی شرائط پر عمل کرنے میں ناکام نظر آتا ہے۔ گذشتہ دنوں بھارت کے حوالے سے سامنے آنے والے اعداد و شمار حوصلہ افزا نہیں تھے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم اپنا کیس بہتر انداز میں پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ ہم دنیا کو یہ باور کروانے اور یہ احساس دلانے میں بھی ناکام نظر آتے ہیں کہ ہم نا صرف امن پسند ہیں بلکہ امن قائم رکھنے کے لیے اقدامات کرتے ہوئے امن دشمنوں کے خلاف بیرحمانہ کارروائیوں پر یقین رکھتے ہیں۔ اس رپورٹ میں سب سے خطرناک بات یہ بھی ہے کہ اس وقت بھی غیر قانونی اور ناجائز رقوم کا تبادلہ جاری ہے۔ متعلقہ اداروں کو ایسے معاملات میں چہروں کو دیکھنے کے بجائے حقائق، ثبوت و شواہد کی بنیاد پر کارروائی کرنی چاہیے۔ ہم یوگنڈا، زمبابوے جیسے ممالک کی فہرست میں شامل ہو رہے ہیں۔ یہ صورت حال نہایت تشویشناک ہے۔
پاکستان اور بھارت کے مابین مذاکرات میں اہم پیش رفت، بھارتی حکام نے نریندرا مودی کے خصوصی دورہ مقبوضہ کشمیر اور مسائل بات چیت سے حل کرنے کا امکان ظاہر کر دیا ہے۔ بھارت سے چینی اور کپاس کی تجارت دونوں ملکوں کا متفقہ فیصلہ تھا البتہ پاکستان کی وزارت نے طریقہ کار سے ہٹ کر کام کرتے ہوئے معاملے کو الجھا دیا۔ دونوں ممالک کے مابین ہونے والے مذاکرات میں پاکستان نے مسئلہ کشمیر پر اصولی موقف اور ہر سطح پر امن دشمنوں کے خلاف کام کرنے کے اپنے دیرینہ عزم کو دہرا دیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان بیک ڈور بات چیت کے عمل کا آغاز 2018 میں ہوا تھا۔ تناؤ کو کم کرنے اور معمول پر لانے کے لیے دونوں طرف سے حکومتوں نے مناسب سطح پر اہم لوگوں نے رابطے شروع کیے۔ بات چیت کے اس عمل میں رکاوٹ اس وقت آئی جب اگست 2019 میں بھارت نے یکطرفہ طور پر آرٹیکل 370 کو منسوخ کردیا۔ بھارت کے اس عمل سے دونوں ملکوں کے مابین ہونے والی بات چیت کا عمل رکا اور پھر تناؤ کی صورتحال پیدا ہوئی۔ آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد کشمیر میں پیدا ہونے والی نامناسب صورت حال کے بعد پاکستان کے لیے کسی بھی صورت بات چیت کو جاری رکھنا ممکن نہیں تھا کیونکہ پاکستان نے ہمیشہ کشمیریوں کی آزادی کے موقف کی ناصرف حمایت کی ہے بلکہ اس مسئلے کو ہمیشہ بین الاقوامی سطح پر اجاگر بھی کیا ہے پاکستان کی خارجہ پالیسی میں کشمیر کو ہمیشہ بنیادی حیثیت حاصل رہی ہے۔ سات دہائیوں سے زیادہ وقت گذر چکا ہے پاکستان نے کبھی مسئلہ کشمیر کو پس پشت ڈال کر کوئی کام نہیں کیا اس مرتبہ بھی پاکستان اپنے عزم کو دہرایا۔ ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود پاکستان نے ہمیشہ خطے میں بالخصوص ہندوستان کے ساتھ امن کی امید کا اظہار کیا ہے۔ 2019 دونوں ممالک کے لئے ایک مشکل سال تھا لیکن اس کے باوجود فریقین یعنی پاکستان اور بھارت نے یہ محسوس ضرور کیا کہ برے حالات میں بھی اصولوں پر قائم رہتے ہوئے بات چیت کی کھڑکی کھلی رکھنے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے۔ اسی کوشش کو جاری رکھتے ہوئے دونوں ممالک نے 2020 کے موسم بہار میں دوبارہ بات چیت شروع کی۔ دونوں ممالک نے ملاقاتیں اور بات چیت شروع کی تو اس عمل کی کچھ اہم ممالک نے بھی حوصلہ افزائی کی۔ اہم ممالک کی حوصلہ افزائی اور بات چیت کے آغاز سے تناؤ میں کمی واقع ہوئی۔ یاد رہے کہ اس بات چیت میں بھی مقبوضہ کشمیر کی صورتحال اور علاقے میں بڑھتے ہوئے جبر کو ایجنڈے میں سرفہرست ہی رکھا گیا۔ اس اہم ترین اور بنیادی مسئلے پر بھارت نے پاکستانی دلائل سنے اور تعمیری جواب بھی دیا۔ پاکستان نے بھارت کی طرف سے کشمیر میں آبادیاتی تبدیلیاں لانے کے منصوبے کا معاملہ بھی واضح انداز میں اٹھایا۔ اس مسئلے پر بھی بھارتی حکام نے سنجیدہ گفتگو کی۔ مقبوضہ کشمیر میں آزاد سیاسی ماحول کے قیام اور دوبارہ آزادانہ سیاسی سرگرمیوں کو شروع کرنے کے حوالے سے بات چیت کی گئی ہے۔ اس بات چیت میں بھارتی حکام نے اس خیال کا اظہار کیا کہ اگر دونوں ممالک کے مابین تعلقات معمول پر آ گئے تو وزیر اعظم نریندرا مودی کشمیر کا دورہ کر کے کچھ ایسے اقدامات کا اعلان کر سکتے ہیں جن سے بنیادی مسائل اور تنازعات حل کرنے لئے بہتر ماحول بن سکتا ہے۔ بات چیت میں پاکستان نے غیر ریاستی اور ہر سطح پر امن دشمنوں کے خلاف زیرو ٹالرینس کی پالیسی پر عمل کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ان مذاکرات اور بیک ڈور ملاقاتوں کا براہ راست نتیجہ ایل او سی پر 2003 میں فائر بندی معاہدے کی بحالی کی شکل میں 2021 کے شروع میں سامنے آیا۔ بعدازاں ، ہندوستان نے ویکسین ڈپلومیسی شروع کی اور COVID-19 ویکسین پاکستان بھیجنے پر اتفاق کیا۔ ان حوصلہ افزا ملاقاتوں کے بعد ہی وزیراعظم عمران خان نے دورہ سری لنکا کے لئے ہندوستان کی فضائی حدود بھی استعمال کی یعنی ائیر سپیس بھی کھول دی گئی اس کے بعد یوم پاکستان کے موقع پر بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی کی طرف سے وزیراعظم عمران خان کو خط مبارکباد کا خط بھی بیک ڈور مذاکرات کا نتیجہ ہے۔ بھارت سے چینی اور روئی کی درآمد کے معاملے کو متعلقہ وزارت نے غلط انداز میں ہینڈل کیا اس پالیسی کے کچھ اغراض و مقاصد اور طریقہ کار تھا لیکن اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے وزارت نے مطلوبہ طریقہ کار پر عمل نہیں کیا۔ چونکہ یہ فیصلہ دونوں ممالک نے مذاکرات میں کیا تھا پاکستان کی متعلقہ وزارت کے غلط طریقہ کار کی وجہ سے یہ معاملہ الجھاؤ کا شکار ہوا یہی وجہ ہے کہ بھارت اس حوالے سے کوئی ردعمل سامنے نہیں دیا۔ امن مذاکرات کا دوبارہ آغاز کے لیے بھارت کو مقبوضہ جموں کشمیر میں سازگار ماحول پیدا کرنا ہو گا۔ پاکستان کشمیر بارے اپنی اصولی پوزیشن سے پیچھے نہیں ہٹے گا اور اصولی موقف اپناتے ہوئے پاکستان کشمیریوں کے لئے زندگی کو آسان بنانے اور انہیں مسائل سے نکالنے کے لیے کوششیں جاری رکھے گا۔
پاکستان کو جن مشکل حالات کا سامنا ہے اور خطے میں طاقت کے بدلتے ہوئے توازن، دنیا میں مختلف اہم معاملات میں ہونے والی پیشرفت میں وزارت خارجہ اگر متحرک نہیں رہے گی تو پاکستان کا ناقابلِ تلافی نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔ ہم کسی نقصان کے متحمل نہیں ہو سکتے، پاکستان ایک طویل جنگ کے بعد امن کی ظرف بڑھا ہے، دنیا سے رابطے بحال ہوئے تھے اب دوبارہ اس حوالے دنیا کے اہم ممالک کوئی فیصلہ کرتے ہیں تو پاکستان کو ہر جگہ اپنا موقف دلائل کے ساتھ پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ برطانوی حکومت کی اس رپورٹ سے یہ سوچیں کہ دنیا بھر میں پاکستان کس حوالے سے زیر بحث ہو گا۔ مسئلہ کشمیر ہو یا بھارت سے بات چیت، یا پھر بھارت سے تجارتی معاملات ہر جگہ ہونے والی غلطیوں سے مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ملک کو اندرونی طور پر مسائل کا سامنا ہے لیکن ان مسائل پر بات کرتے ہوئے حکومت کو بین الاقوامی مسائل کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ وزیراعظم عمران خان کو یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ تمام وزارتیں صرف اور صرف اپنی وزارت سے متعلق بیانات جاری کریں، اپنا وقت اپنے کاموں میں صرف کریں سیاسی معاملات پر حکومتی موقف کے لیے صرف اور صرف وزیر اطلاعات سامنے آئیں باقی تمام وزراء اپنا اپنا کام کریں۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024