شہزادہ محمد سلطان شہید غیاث الدین بلبن کا محبوب ترین بیٹا تھا۔ وہ تمام عمدہ صفات اور پسندیدہ عادات جو ایک شہزادے میں ہونی چاہئیں وہ خان شہید میں موجود تھیں۔ شہزادہ عقل و خرد اور ہنرپروری میں بلاشبہ اپنے زمانے کا بہترین آدمی تھا۔ اس کی محفل میں ہمیشہ نامی گرامی علماء و فضلا اور بڑے بڑے شاعر شرکت کرتے تھے۔ امیر خسرو اور خواجہ حسن جیسی عظیم ہستیاں اسی شہزادے کی محفل کی رونق تھیں۔ ان دونوں بزرگوں نے خان شہید کی ملازمت میں پورے پانچ سال بسر کئے۔ خان شہید ان دونوں کی سب سے زیادہ عزت اور حوصلہ افزائی کرتا تھا۔ یہ شہزادہ اس قدر مہذب اور سلیقہ مند تھا کہ اگر تمام شب و روز کسی محفل میں بیٹھا تو تب بھی اپنازانو اونچا نہ کرتا تھا۔ خان شہید کی محفل میں ہمیشہ علمی چرچے رہتے تھے۔ وہاں خاقانی‘ نوری‘ مولانا نظامی اور امیر خسرو کا کلام پڑھا جاتا تھا۔ خان شہید اشعار پر مناسب داد دیتا تھا۔ بڑے بڑے اساتذہ اور سخن فہم اس کی سخن فہمی کے قائل تھے۔ امیر خسرو نے ایک بار فرمایا ’’میں نے سخن فہمی‘ نکتہ رسی ‘ پختگی ذوق‘ صحیح اور تمام نئے پرانے شعراء کے اشعار یاد رکھنے میں خان شہید جیسا فاضل شخص کوئی اور نہیں دیکھا۔
جس زمانے میں خان شہید کا قیام ملتان میں تھا اس زمانے میں شیخ عثمان ترمذی جو اپنے دور کے بہت بڑے عالم اور عارف کامل تھے۔ اتفاق سے ملتان تشریف لائے۔ خان شہید نے شیخ عثمان ترمذی کی بہت تعظیم کی اور خاطر تواضع کی۔ ان کی خدمت میں نذر اور ہدیہ پیش کیا اور بڑی عاجزی سے ان سے ملتان میں قیام کی درخواست کی اور کہا ’’ا گر آپ یہاں قیام کرنا پسند فرمائیں گے تو حکومت کے خرچ پر ایک خانقاہ تعمیر کرا دی جائے گی لیکن شیخ عثمان ترمذی نے ملتان کو مستقل رہائش کیلئے پسند نہ فرمایا اور واپس چلے گئے ۔ جن دنوں شیخ عثمان ترمذی ملتان میں تھے اور حضرت بہاء الدین زکریا ملتانی کے صاحبزادے اور جانشین حضرت شیخ صدرالدین عارف کے ساھ خان شہید کی محفل میں تشریف رکھتے تھے اس محفل میں عربی اشعار پڑھے جاتے تھے۔ اتفاق سے کوئی شعر سن کر ان بزرگوں پر وجد کی کیفیت طاری ہو گئی اور ان کے ساتھ ساری محفل کھڑی ہو گئی۔ خان شہید نے بھی اہل محفل کا ساتھ دیا اور دست بستہ کھڑا ہو گیا۔ جب تک ان بزرگوں کو سکون نہ ہوا۔ خان شہید کی حالت بھی اضطرار کی رہی اور اس کی آنکھوں میں آنسو جاری رہے۔ اگر کبھی کوئی شخص خان شہید کی مجلس میں کوئی نصیحت آمیز شعر پڑھتا تو وہ بڑی توجہ کے ساتھ سنتا اور شعر کے مضمون سے متاثر ہو کر زاروقطار روتا۔ خان شہید کی بالغ نظری‘ عقل مندی اور قدر شناسی کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ اس نے دو مرتبہ ملتان کی امارت کے زمانے میں اپنے قاصد پیش قیمت اور اعلیٰ تحائف کے ساتھ شیراز روانہ کئے اور حضرت شیخ مصلح الدین سعدی شیرازی سے درخواست کی کہ ’’آپ یہاں تشریف لا کر ہمیں نوازیں۔ آپ کیلئے ملتان میں ایک خانقاہ تعمیر کروا دی جائے گی اور اس کے مصارف کیلئے چند گاؤں وقف کر دئے جائیں گے‘‘ چونکہ حضرت سعدی ضعیف العمری کی وجہ سے بہت کمزور ہو چکے تھے۔ اس لئے انہوں نے دونوں مرتبہ ملتان آنے پر عذر کیا لیکن ہر بار اپنے ہاتھ سے اپنے اشعار اور غزلیات لکھ کر خان شہید کی خدمت میں بطور تحفہ روانہ کیں اور امیر خسرو کی سفارش فرمائی
ملتان کی امارت کے زمانے میں خان شہید کا یہ معمول تھا کہ وہ ہر سال بہت گراں بہا اور نادر تحائف لے کر اپنے باپ کی خدمت میں حاضر ہوتا اور چند روز دہلی میں قیام کر کے واپس چلا جاتا۔ شہزادہ سلطان محمد کا آخری معرکہ تیمور خان کے ساتھ ہوا جس میں شہزاد کو شکست کا سامنا کرنا پڑا اور انہیں شہید کر دیا گیا۔ یوں ملتان میں ایک خوش فطرت اور صاحب علم شہزادہ سلطان محمد اس دنیا سے رخصت ہوا اور شہادت کے بعد انہیں ’’خان شہید‘‘ کے نام سے یاد رکھا گیا۔ خان شہید کی وفات کی خبر سن کر بلبن پر رنج و غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ غیاث الدین بلبن کی عمر اب 80 سال ہو چکی تھی۔ خان شہید کی دائمی مفارقت سے اس کی حالت بہت خراب ہو گئی تھی۔ اگرچہ بظاہر وہ یہی کہتا تھا کہ میں راضی برضا ہوں اور خداوند تعالیٰ کی مرضی کے پیش نظر مجھے خان شہید کی موت کا کوئی غم نہیں ہے لیکن وہ تنہائی میں راتوں کو اٹھ اٹھ کر اپنے بیٹے کو یاد کرتا تھا اور زاروقطار روتا تھا۔ 685 ہجری کے آخر میں بلبن نے وفات پائی۔ مغل جن لوگوں کو گرفتار کر کے اپنے ساتھ لے گئے ان میں حضرت امیر خسرو بھی شامل تھے۔ انہوں نے اپنی رہائی کا ذکر اپنی تصانیف ’’خضر خانی‘‘ اور ’’دیولدی‘‘ میں کیا ہے۔
قصّہ جونیجو کی وزارتِ عظمیٰ کا
Mar 26, 2024