جب سے دنیا بنی ہے اس کے وسائل کو اپنے اختیار میں لینے کی جدوجہد جاری ہے۔ اسلام کے مطابق تو حاکم اعلیٰ اﷲ تعالیٰ کی ذات ہے۔ اس کے احکام کے ہوتے ہوئے کسی کی کیا مجال کہ وہ اپنے آپ کو اس کا حاکم مطلق قرار دے لیکن یہ اسلامی نظام حیات کا فلسفہ ہے۔ انسان اپنی زندگی میں لاتعداد نشیب و فراز کا مشاہدہ کرتا ہے۔ ہم نے اپنی زندگی میں دنیا کے مختلف ممالک میں لاتعداد حکومتوں کا اقتدار دیکھا کہیں پر بادشاہت اور کہیں پر آمریت ہے۔ کہیں کہیں جمہوریت بھی نظر آتی ہے لیکن دنیا کے چند ممالک کو چھوڑ کر اکثریت میں اقتدار کی کشمکش جاری رہتی ہے اور دنیا کی بڑی طاقتیں اس لئے اپنے مفادات اٹھاتی ہیں جس کا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ غریب اقوام غربت کی چکی میں پستے رہتے ہیں اور بڑی طاقتیں ان کے وسائل سے اپنی عوام کو فائدہ پہنچا رہی ہیں ۔غریب اور درمیانی اقوام ان کے قرضوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ان اقوام میں ایک پاکستان بھی ہے۔
پاکستان کا وجود ایک نظریہ کا مرہون منت ہے۔ قائداعظم اور ان کے رفقاء نے مسلم قوم کو اس نظریے سے روشناس کرایا۔ قوم کو یہ باور کرایا گیا کہ مسلمان ہندوؤں کے زیر اثر کبھی بھی ترقی نہیں کر سکیں گے کیونکہ ہندو اکثریت کے بل بوتے پر تمام برصغیر پر قابض ہو جائیں گے۔ ہندوستان میں رہنے والوں نے اسی نظریے کو دو قومی نظریے کا نام دیا اور اسی پر ہندوستان کی تقسیم ہو گئی ۔ قوم نے قائداعظم اور ان کے رفقا کار کے افکار کو اپنی زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔ اﷲ تعالیٰ کے فضل و کرم سے پاکستان معرض وجود میں آگیا۔ ہندوستان میں رہنے والے لوگ اس دو قومی نظریے کے تحت اپنی جان و مال کی پروا کئے بغیر پاکستان میں آ گئے لیکن شومئی قسمت سے یہ دو قومی نظریہ کتابوں میں محفوظ ہو گیا۔ پاکستان بنانے والے تمام افراد آہستہ آہستہ اس دارفانی سے کوچ کر گئے۔ اب ایک خاندان بھی ایسا نظر نہیں آتا جس نے اس دو قومی نظریے کے تحت پاکستان بنانے میں اپنا کردار ادا کیا ہو لیکن عوام کی اکثریت جو مشرقی پنجاب سے ہجرت کر کے پاکستان آئے انہیں اپنے گھر میں اپنے باپ دادا کی قربانیاں یاد آتی ہیں لیکن ان کے پاس ایسے وسائل نہیں ہیں جن سے پاکستان کے اقتدار میں آیا جا سکے۔
ایم این اے یا ایم پی اے بننے کیلئے کروڑوں کی رقم درکار ہے۔ اقتدار میں آنے کیلئے آئینی اور غیر آئینی قوتوں کی آنکھ مچولی جاری ہے۔ قرارداد مقاصد سے لیکر آج تک کسی بھی آئینی حکومت نے اپنی مدت پوری نہیں کی ہے۔ پاکستان پر حکومت کرنے والے فوجی سربراہ ہوں یا کسی پارٹی کے سیاسی رہنما انہوں نے عوام کو سبز باغ دکھانے کا ڈھنگ سیکھا ہوا ہے۔ یہ عوام کیونکہ بہت غریب ہے یہ ان کے فریب میں آجاتی ہے اور ان کو اپنا رہنما تسلیم کر لیتی ہے لیکن یہ پریکٹس زیادہ دیر جاری نہیں رہتی۔ فریب اور دھوکہ دہی کی عمر زیادہ نہیں ہوتی یہ کھل جاتی ہے اور پھر یہی غریب قوم نئے مسیحا کے پیچھے لگ جاتی ہے لیکن کمال یہ ہے کہ اس ملک میں ایک ایسا طبقہ بھی موجود ہے جو بظاہر نظر نہیں آتا لیکن پاکستان کی حکمرانی میں اس کا بہت بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔ وہ طبقہ جس سیاسی پارٹی یا شخصیت پر ہاتھ رکھ دیتا ہے اقتدار کا ہما اس کے سر پہ بیٹھ جاتا ہے اور غریب عوام کو یہ دھوکہ دے دیا جاتا ہے کہ یہ نیا حکمران ان کے مسائل حل کردے گا۔ ان کے روزگار کی ضمانت دی جاتی ہے ۔ ملک کی ترقی کا راگ الاپا جاتا ہے۔ اقوام عالم میں گری ہوئی پاکستان کی ساکھ کو بحال کرنے کی نوید سنائی جاتی ہے۔ غریب اور بے بس عوام ان کے دکھائے گئے سنہری خواب کی تعبیر کیلئے بیتاب ہو کر ان کے پیچھے لگ جاتے ہیں۔ ہمارے ہمسایہ ممالک کی اکثریت ترقی پر گامزن ہے۔ ان میں چین تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ اس کی ترقی امریکہ بھارت اور اس سے حسد کرنے والے دوسرے ممالک سے ہضم نہیں ہو رہی۔ بھارت میں ایک مستحکم جمہوری حکومت قائم ہے انہیں یہ کریڈٹ حاصل ہے کہ انہوں نے آج تک کسی فوجی حکومت کا منہ نہیں دیکھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کی امریکہ اور دوسرے جمہوری ممالک سے گاڑھی چھن رہی ہے۔ وہ پاکستان کو بدنام کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ حتیٰ کہ اس نے اسلامی ممالک میں اپنا اثر و رسوخ حاصل کر لیا ہے کہ سعودی عرب اور عرب مارات میں مندروں کے افتتاح کئے جا رہے ہیں۔ پاکستان کے ہمسایہ افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان میں کھلم کھلا دہشت گردی کر رہا ہے۔ افغانستان اور ایران کو چاہ بہار کی بندرگاہ کے ذریعے اپنے قابو میں کیاہوا ہے۔
ہمیں آج تک یہ نہیں معلوم کہ ہمارا دو قومی نظریہ کہاں گیا۔ جمہوری قوتیں خصوصاًبڑی طاقتیں عموماً پاکستان کی اس صورتحال سے فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ پاکستان کے عوام کو یہ بھی اندازہ نہیں کہ اب ان پر کون حکومت کرے گا۔ غیر آئینی حاکموں کے آنے کی نوید سنائی جا رہی ہے۔ ملک گومگوں کی حالت میں ہے۔ پاکستان کے عوام میں ایسے ایسے تعلیم یافتہ لوگ موجود ہیں جو نہ صرف اپنے ملک کیلئے سرمایہ افتخار ہیں بلکہ اقوام عالم میں ان کے علم کا چرچا موجود ہے۔ ان لوگوں کو چاہئے کہ وہ آگے بڑھیں وہ تحریر و تقریر کے ذریعہ پاکستان کے عوام کوا مخمصے سے نکالیں۔ جمہوریت یہاں قومے کی حالت میں ہے۔ پاکستان کے قابل لوگوں کایہ فرض ہے اس کو اقوام عالم میں عموماً اور اسلامی دنیا میں خصوصاً سربراہ کی حیثیت دینے کیلئے آگے بڑھیں۔ اگر اس طبقے نے اپنا کردار ادا نہ کیا تو پاکستان کو معکوس ترقی سے کوئی نہیں روک سکے گا۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال خود آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38