گرمی کی لہر میں یس کا قحط!
دو ہاتھیوں کی لڑائی میں نقصان اکثر چونٹیوں کا ہی ہوتا ہے اور حالیہ گرمی کی گزرنے والی لہر میں بھی کچھ ایسی ہی صورتحال دیکھنے میں آئی جب دو اداروں کی لڑائی میںکراچی کے لوگوں کو بجلی کی کمیابی کے مانوس درد سے گزرنا پڑا ۔آپ یقینا سمجھ گئے ہونگے کہ شہر قائد میں ہیٹ ویو کی لہر کے دوران سوئی سدرن گیس کمپنی اور کے الیکٹرک کے درمیان سر اٹھانے والے تنازع کی بات ہورہی ہے۔
یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہیں کہ دو بڑوں کی لڑائی میں چھوٹے (عوام)ہی پستے ہیں مگر ان بڑ ے ہاتھیوں میں سے کون اپنی ہٹ دھرمی پر اڑا رہا جس سے اتنی پریشانی کا سامنا ہوا اور معاملات گھمبیر ہوتے ہوتے رہ گئے یہ سوال توجہ طلب ہے۔اس بار ایسا ہوا کہ بجلی کمپنی تو بجلی فراہم کرنے کو تیار تھی مگر گیس کمپنی والے پوری مقدار میں گیس دینے کےلیے تیار نہیں تھے کیوں کہ گرمی کی لہر میں گیس کا قحط ہوگیا تھا۔ اس کے بعد کراچی کے لوگوں کا 3،4دنوں میں ہی حال خراب ہوگیا۔ وہ تو اللہ کا شکر ہے کہ شدید گرمی اور حبس زدہ موسم نے عوام کو زیادہ تڑپانا مناسب نہیں سمجھا تاہم یہ بتا دیا کہ آنے والے جون اور جولائی میںبھی ایسی صورتحال کے پھر سے درشن ہوسکتے ہیں تو دوستو تیاری پوری رکھنا!نوبت یہاں تک پہنچی کہ وزیر اعلیٰ سندھ اور کمشنر کراچی اعجاز احمد خان کو صورتحال کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے ایس ایس جی سی کو گیس کی فوری فراہمی کے لیے خط لکھنا پڑا ۔ صورتحال کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے یہاںقارئین کے لیے ان خطوط کا خلاصہ بھی شامل کر لیا جائے تو کو ئی مضائقہ نہیں۔
کمشنر کراچی اعجاز خان کی جانب سے سوئی سدرن گیس کمپنی کو لکھے گئے خط میں واضح طور پر یہ بات کہی گئی کہ کے الیکٹرک کو گیس کم فراہم کی گئی جس وجہ سے ادارے کو مجبوراً لوڈشیڈنگ کرنا پڑی۔ آخر میں کمشنر کراچی کو اپنے خط میں یہ بھی کہنا پڑا کہ صورتحال اتنی پریشان کن ہوچکی ہے کہ گیس کمپنی موجودہ صورتحا ل کا ادراک کرتے ہوئے 166ایم ایم سی ڈی ایف گیس کی فراہمی بحال کر لے تاکہ کے الیکٹرک اپنے گیس سے چلنے والے پاور پلانٹ کو پوری صلاحیت کے ساتھ چلا سکے۔
وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی طرف سے بھی اسی اثنا میں ایک خط لکھا گیا جس میںانھوں نے ایس ایس جی سی کی توجہ اس جانب مبذول کروائی کہ اچانک سے کے الیکٹرک کو گیس کی سپلائی 90ایم ایم سی ڈی ایف کردی گئی ہے اور بجلی فراہم کرنے والے ادارے کے مطابق گیس پاور پلانٹ کو چلانے کے لیے یہ مقدار ناکافی ہے اس کے بجائے کے الیکٹرک کو 190ایم ایم سی ایف ڈی گیس درکار ہے۔ وزیر اعلیٰ نے ایس ایس جی سی سے درخواست کی کہ کراچی کو بجلی کی فراہمی پر معامور ادارے کو 276ایم ایم سی ایف ڈی گیس کی سپلائی ممکن بنائی جائے جس سے بلاتعطل بجلی کی فراہمی یقینی بنائی جاسکے اور لوگوں کو جسمانی اور ذہنی پریشانی سے نجات مل سکے ۔ان خطوط سے واضح ہے کہ گزشتہ دنوں پڑنے والی سخت گرمی میں گیس کمپنی کے غیر لچکدار رویہ کی وجہ لوگوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑا اور کے الیکٹرک کو ان علاقوں میں بھی لوڈ شیڈنگ کرنا پڑی جو اس وقت تک لوڈ شیڈنگ سے مستثنیٰ تھے۔ اُس وقت400میگا واٹ بجلی کی کمی تھی مگر یہ صورتحال برقراررہتی تو مزید 500میگا واٹ کی کمی سے کراچی کے شہریوں کے لیے جینا محال ہوجاتا ۔کے الیکٹرک کی 500میگا واٹ بجلی کی پیدواری صلاحیت گیس کی فراہمی پر انحصار کرتی ہے اور عین گرمیوں کے وقت پر اس سپلائی کو معطل کرنا کسی طرح کا جواز نہیں رکھتا تھا۔اس سے قبل مئی 2017میں بھی ایسی ہی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا تھا جب GSAکی عدم موجودگی کی بنا پر کے الیکٹرک کی جانب سے عد م ادائیگی کو جواز بنایا گیا تھا۔ کے ا لیکٹرک کا دعویٰ ہے کہ وہ باقاعدگی سے کے گیس کمپنی کو بلوںکی ادائیگی کرتا ہے تو لیکن پھر بھی سوئی سدرن گیس کمپنی ECCکے فیصلے کی روشنی میں GSAپر دستخط کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ جس کے تحت کے الیکٹرک کو276ایم ایم سی ڈی ایف گیس پاور پلانٹ کے لیے مہیا کی جائے گی۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گیس کمپنی کے لیے ایسے کون سے صارفین تھے جو کراچی کو بجلی فراہم کرنے والے ادارے سے زیادہ اہم ٹھہرائے جارہے ہیں اور انھیں گیس دینے کے لیے عام شہریوں پر برق گرائی گئی۔ بجلی کی سپلائی نہ ہونے سے تقریباً 2کروڑ لوگوں کے متاثر ہونے کا خدشہ رہتا ہے۔اس کے علاوہ واٹر اینڈ سیوریج بورڈبھی شہر کو مناسب انداز میں پانی سپلائی کرنے سے قاصررہا۔ ان حالات میں شہر میں لاءاینڈ آرڈر کی صورتحال خراب ہونے کے قوی امکانات تھے لیکن اعلیٰ حکام کی برقت مداخلت نے حالات کو خراب ہونے سے بچالیا ورنہ کے الیکٹرک کو گیس سپلائی میں کمی نے تو کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔
وزیراعلیٰ کے خط میں بھی یہ بات کہی گئی تھی کہ دونوں فریقین ایسے فیصلے پر متفق ہوں جو ECCکے فیصلے سے مطابقت رکھتا ہو۔چوں کہ سب سے بڑی بجلی کمپنی کو گیس سپلائی میں کمی کرنے سے کراچی کے لوگ بلا واسطہ متاثر ہونگے جبکہ سندھ اور پاکستان کی اکانومی کو بھی نقصان پہنچے گا۔ شنید ہے کہ ایک کمیٹی بنائی جائے گی جس میںوفاقی اور صوبائی حکومتوں کے نمائندوں سمیت سوئی سدرن گیس کمپنی اور کے الیکٹرک کے نمائندے بھی شریک ہوں گے تاکہ دونوں کمپنیوں کی جانب سے ادائیگیوں کے دعوے کے مسئلے کو احسن طریقے سے حل کیا جاسکے۔ آئندہ رمضان کا مہینہ بھی اپنے رحمتوں کے ساتھ ہم پر سایہ فگن ہونے کو تیار ہے۔ اس لیے د ونوں اداروں کے حکام اپنے معاملات پر نظرثانی کریں اور کسی ایسے فیصلے پر متفق ہوجائیں جس سے کم از کم بیچارے کراچی کے عوام رلنے سے بچ جائیں کیوں کہ ابھی گرمی کی پوری پکچر باقی ہے دوست !