ایک شخص اپنی تین چار سال کی بے جان بیٹی کے جسد خاکی کو بازئوں میں سمیٹے اس کا منہ چوم رہا ہے، اس سے باتیں کر رہا ہے جیسے وہ ابھی اٹھ کھڑی ہوگی اور اس کے سینے سے جا لگے گی، اس کا منہ چومے گی، یہ شخص اپنے حواس کھو چکا ہے اور یہ ماننے کو تیار نہیں کہ اس کی بیٹی شیطانی قوتوں کی بھیانک دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکی ہے ۔ایک اور جگہ معصوم بچوں کی لاشیں زمین پر پڑی دکھائی دیتی ہیں۔ ایک دوسالہ بچے کی نعش چار پائی پر پڑی ہے، ایک تین سالہ بچے کی لاش تختہ پر رکھ کر غسل دیا جا رہا ہے ۔ ان میں سے کسی کا سینہ چھلنی ہے تو کسی کے سر کا آدھا حصہ اُڑ چکا ہے، ایک دوسری جگہ میلے کچیلے کپڑوں میں ملبوس ایک شخص زمین پر بیٹھا اپنے چار پانچ سالہ بیٹے کو گود میں لیے اُس کی خون آلود پیشانی چوم رہا ہے۔ اِس معصوم فرشتے کا سارا جسم چھلنی اور آنکھیں بند ہیں کیونکہ روح جسم کا ساتھ چھوڑ چکی ہے۔ اولاد کی محبت کا عالم تو یہ ہے کہ اپنے لخت جگر کی وفات پر آقائے دو جہاں حضرت محمد مصطفیؐکی آنکھوں سے بھی آنسو جاری ہوگئے تھے تو پھر یہ شخص کیا چیز ہے مگر اپنے معصوم بیٹے کے بہیمانہ قتل نے اُس کے اعصاب کو یوں توڑ پھوڑ دیا ہے کہ وہ رونے اور بلکنے کے قابل بھی نہیں رہا، بس اپنے بچے کے مردہ جسم کو گود میں لیے اس جواری کی طرح خاک پر بیٹھا ہے جو تمام سرمایہ جوئے میں ہارگیا اور اب اس کے پاس زندہ رہنے کی کوئی امید باقی نہیں۔ یہ مناظر شام ، فلسطین ، برما، افغانستان اور مقبوضہ کشمیر کے ہیں جو شیطانی قوتوں کے نت نئے ہتھیاروں کی تجربہ گاہ اور عالم اسلام کی غیرت و حمیت کی جنازگاہ بنے ہوئے ہیں ،شہید ہونے والے معصوم فرشتے دنیا کے وہ "سب سے بڑے دہشت گرد" ہیں جو عسکری قوت کا دبدبہ جمانے اور مسلمانوں کی نسل کشی میں مصروف ممالک کی شیطانیت کی نذر ہوگئے۔ ایسے سانحات روزمرّہ کا معمول ہیں، صرف پچھلے ہی چند دنوں کے دوران شام، فلسطین، افغانستان اور مقبوضہ کشمیر میں سات سو سے زائد مسلمان شہید کردئیے گئے تمام مسلمان ممالک کے حکمرانوں پر جن کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی،آفرین ہے ہمارے اُن چینلز پر جو بھارتی اداکاروں کے مرنے پر تو کئی کئی دن تک سوگ اور اداکارائوں کی سالگرہ پر خوشیاں مناتا رہتا ہے، ملالہ جیسی متنازعہ شخصیت کی آمد و رفت کے پل پل کو تو کوریج دیتا ہے لیکن شیطانی دہشت گردوں کے ہاتھوں معصوم مسلمانوں کی ہلاکت کی خبر تک دینا گوارا نہیں کرتااور افسوس ہے اُن این جی اوز پر جو ایک چڑیا کے مرنے پر چیخ و پکار کرتی ہیں، ہندئووں کے سنگ ناچتی گاتی ہیں لیکن فرشتوں کے قتل و غارت پر خاموشی سے تماشہ دیکھتی ہیں ۔ مسلم امہ نے آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس یعنی او آئی سی کے نام سے ایک تنظیم بھی بنارکھی ہے۔ دنیا کی کُل آبادی کا ایک چوتھائی حصہ او آئی سی کے اراکین ممالک میں رہتا ہے اور دنیا بھر میں توانائی کے وسائل کا 70% او آئی سی کے پاس ہے ، سعودی عرب، ایران اور مشرقِ وسطیٰ کی کئی ریاستوں سمیت او آئی سی میں شامل کئی ممالک تیل جیسی دولت سے مالامال ہیں جو کسی بھی ہتھیار سے زیادہ طاقتور ہتھیار ہے، 70ء کی دہائی میں کچھ مسلمان ممالک نے تیل کی پیداوار میں کمی کرکے یورپ کو ناکوں چنے چبوا دئیے تھے لیکن او آئی سی نے ہمیشہ خود کو ایک نام نہاد اور نااہل تنظیم ثابت کیا ہے اور آج تک مسلمانوں کے کسی بھی مسئلے پر کوئی آواز نہیں اٹھائی۔ 80ء کی دہائی میں اسرائیل نے اعراقی ایٹمی تنصیبات فضائی حملہ کرکے تباہ و برباد کردیںمبادا کہیں کوئی مسلمان ملک ایٹمی قوت نہ بن جائے، اس معاملے پر او آئی سی بالکل خاموش رہی، 80ء کی دہائی میں سوویت یونین افغانستان پر چڑھ دوڑا مگر او آئی سی نے کسی ردّ عمل کا مظاہرہ نہیں کیا۔ او آئی سی کے اراکین دو مسلمان ممالک اعراق اور ایران میں تقریباً آٹھ سال تک جنگ چھڑی رہی جس میں لاکھوں لوگ جاں بحق ہوگئے لیکن او آئی سی نے جنگ شروع ہونے سے قبل ہی روکنا تو ایک طرف شروع ہونے کے بعد بھی مصالحت کے لیے کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ 90ء کی دہائی میں اتحادی فوجوں نے پہلے عراق پر حملہ کیا جس میں ہزاروں عراقی ہلاک، زخمی و معذور ہوئے اور بعد میں عراق پر بلاوجہ اقتصادی پابندیاں عائد کردی گئیں۔ خوراک و ادویات نہ ملنے کی وجہ سے معصوم بچوں سمیت لاکھوں مسلمان عراقی شہری موت کے منہ میں چلے گئے لیکن او آئی سی کی زبان گنگ رہی۔ 2001ء میں اتحادی فوجیں افغانستان پر چڑھ دوڑیں اورظلم و بربریت کی نئی داستانیں رقم کیں، 2003ء میں اقوامِ متحدہ کی تمام اقدار کو پامال کرتے ہوئے اتحادی فوجیں ایک مرتبہ پھر عراق پر حملہ آور ہوئیں۔ اب تک شام، فلسطین، افغانستان ،عراق میں کئی لاکھ مسلمان موت کے منہ میں جاچکے ہیں لیکن او آئی سی کی جانب سے مذمت تودور کی بات او آئی سی کے اراکین پڑوسی ممالک نے ایک غیر مسلم ملک کی بھرپور معاونت کی اور لاکھوں مسلمانوں کا خونِ ناحق بہانے میں بھرپور طریقے سے شریک ہوئے۔ شام، عراق، برما ،افغانستان اور مقبوضہ کشمیر میں بے گناہ مسلمانوں کی ہلاکتوں پر او آئی سی کی طرح دنیا کے تمام ممالک، پاکستانی میڈیا اور شرم و حیا اور دنیا و آخرت سے عاری این جی اوز بھی بالکل خاموش ہیں ۔ مسلمان ممالک کے حکمران دنیا بھر میں مسلمانوں کے سفاکانہ قتل و غارت پر اس لیے خاموش ہیں کہ دنیا کی "سپر پاور" امریکہ اُن سے ناراض نہ ہوجائے حالانکہ کائنات کی سپر پاور اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہولناک طوفانوں کے ذریعے کئی مرتبہ انسانوں کی بنائی اس سپر پاور کو اُس کی اوقات یاد دلا ئی ہے لیکن اس دنیاوی سپر پاور کو سجدے کرنے والوں کی روش نہیں بدلی۔ ہوسکتا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان سب کے دلوں پر مہر لگاکر تباہی و بربادی ان کا مقدر لکھ دی ہو۔ آج، ہفتہ یا پھر سالوں بعد مسلمانوں کا خونِ ناحق بہنے کا تماشا دیکھنے والے مسلمان ممالک میں تندوروں سے اچانک پانی کے سوتے پھوٹ پڑیں، آسمان سے پتھروں کی برسات ہوجائے ، سمندر بپھر کر خشکی کو ڈھانپ لے ، ہولناک زلزلے زمین کا سینہ شق کردیں اور لوگ اُس میں غرق ہوجائیں ، پہاڑ ریت کا ذرہ بن جائیں اور سورج سوا نیزے پر آجائے تو کسی کو بھی حیرت نہیں ہونی چاہیے کیونکہ جب دراز کی گئی رسّی کھینچی جائے گی، مظلوموں کی آہ اور مسلمانوں کے قتلِ ناحق پر جب اللہ تبارک غضبناک ہونگے تو پھر یہی سب کچھ ہوگا۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024