وزیراعظم شاہد خاقان کی بائو فورم کے موقع پر یواین سیکرٹری جنرل سے ملاقات اور مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم رکوانے کا تقاضا
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوئٹریس کے سامنے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کا معاملہ اٹھاتے ہوئے انہیں باور کرایا ہے کہ پاکستان دہشت گردی کیخلاف عدم برداشت کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور اس نے اپنی سرزمین پر دہشت گردی کا صفایا کردیا ہے جبکہ بھارت کنٹرول لائن اور ورکنگ بائونڈری پر سیزفائر کی مسلسل خلاف ورزیاں کررہا ہے۔ گزشتہ روز سان پان (چین) میں بائو فورم کے اجلاس کی سائیڈ لائن میں یواین سیکرٹری جنرل سے ملاقات کرتے ہوئے انہوں نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم‘ دہشت گردی اور روہنگیا مسلمانوں سمیت مختلف موضوعات پر بات کی۔ انہوں نے واضح کیا کہ بھارت کی سرحدی خلاف ورزیوں کے نتائج خطرناک ہوسکتے ہیں۔ پاکستان کو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز کے مظالم پر سخت تشویش ہے۔ انہوں نے یواین سیکرٹری جنرل سے کہا کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی مظالم دنیا کے سامنے لانے میں کردار ادا کریں۔ اس موقع پر یواین سیکرٹری جنرل نے پاکستان کی انسداد دہشت گردی کیلئے کوششوں‘ انسانی بنیاد پر مدد‘ افغان مہاجرین اور اقوام متحدہ کے امن مشن میں اسکے کردار کو سراہا۔ انہوں نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز کی جانب سے چھرّے دار بندوقوں کے استعمال کی مذمت کی اور کہا کہ پاکستان یواین سلامتی کونسل کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات و امنگوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کا حل چاہتا ہے۔
وزیراعظم شاہد خاقان نے بائو فورم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایشیائی صدی کی صبح طلوع ہورہی ہے۔ ہم کھلی تجارت اور شراکتی جدت اپنا کر برداشت اور دوستی کے کلچر کو فروغ دے سکتے ہیں۔ انکے بقول حالیہ تاریخ میں پاک چین تعلقات کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ پاک چین اقتصادی راہداری بیلٹ اینڈ روڈز اقدام کا فلیگ شپ منصوبہ ہے جس کے دوررس ثمرات ہیں۔ سی پیک درحقیقت ایک انقلاب ہے اور سی پیک میں شامل گوادر بندرگاہ عالمی تجارتی مرکز بننے والی ہے۔ آج چوتھا صنعتی انقلاب دستک دے رہا ہے۔ انکے بقول چین کی اصلاحات اور آزادانہ پالیسی سے کسی ملک کو خطرہ نہیں۔ چین کے صدر شی جن پنگ نے اپنے خطاب میں گوادر بندرگاہ‘ صنعتی زونز اور بجلی گھروں سمیت چین پاکستان اقتصادی راہداری کے تحت ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل میں مکمل تعاون کا یقین دلایا اور ساتھ ہی یہ بھی باور کرایا کہ چین پاکستان کے داخلی معاملات میں کسی بھی ملک کی جانب سے مداخلت کی مخالفت کرتا ہے۔ ہم پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کیلئے پرامید ہیں۔ چین کے شہر بائو میں وزیراعظم شاہد خاقان اور چین کے صدر جن پنگ کے مابین وفود کی سطح پر مذاکرات بھی ہوئے‘ اس موقع پر چین کے صدر نے پاکستان کی دہشتگردی کیخلاف کوششوں کی بھرپور حمایت کی۔ وزیراعظم پاکستان نے آسٹریا کے فیڈرل چانسلر سبطین کرز سے بھی بائو فورم کے انعقاد کے موقع پر ملاقات کی۔
یہ حقیقت ہے کہ پاکستان چین اقتصادی راہداری پاکستان اور چین ہی نہیں‘ اس پورے خطے کا مقدر بدلنے اور مستقبل سنوارنے کی ضمانت بن رہا ہے تاہم اس حقیقت کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ سی پیک کی کامیابی کا دارومدار علاقائی امن و استحکام پر ہے جبکہ یہ علاقائی امن و استحکام ہمارے ازلی مکار دشمن بھارت اور دہشت گردی کی جنگ کی بنیاد پر افغانستان میں محفوظ ٹھکانے بنائے بیٹھے دہشت گرد اور انتہاء پسند گروپوں کے رحم و کرم پر ہے۔ بھارت ایک طے شدہ ایجنڈے کے تحت علاقائی امن و سلامتی کے درپے ہے جو اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی بنیاد پر علاقائی تھانیداری کے خواب دیکھ رہا ہے جس کیلئے وہ پاکستان ہی نہیں‘ خطے کے دوسرے ممالک کو بھی اپنا مطیع کرنا چاہتا ہے۔ اسی تناظر میں اس نے علاقائی تعاون کی تنظیم سارک سربراہ کانفرنس میں اپنی تھانیداری قائم کرنے کی سازشیں جاری رکھی ہوئی ہیں اور پاکستان میں اس کا انعقاد مشکوک بنانے کیلئے وہ دوسری بار ا س کانفرنس میں شرکت سے انکار کرچکا ہے۔ پاکستان کی سلامتی کیخلاف اسکی سازشیں تو قیام پاکستان کے وقت سے جاری ہیں کیونکہ وہ پاکستان کی تشکیل کو اپنے اکھنڈ بھارت کے خواب کی ضد سمجھتا ہے اسی لئے اس نے پاکستان کو غیرمستحکم کرنے کا ایجنڈا طے کیا جس کیلئے اس نے سب سے پہلے تقسیم ہند کے ایجنڈا کی نفی کرتے ہوئے آزاد و خودمختار ریاست کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق نہ ہونے دیا تاکہ اسے کشمیر کے راستے سے آنیوالے دریائوں کے پانی سے محروم کرکے بھوکا پیاسا مارا جاسکے۔ اس مقصد کیلئے وادیٔ کشمیر میں اپنی افواج داخل کرکے اسکے غالب حصے پر اپنا تسلط جمالیا۔
بھارت کی ہر حکومت کا پاکستان کے معاملہ میں یہی ایجنڈا رہا ہے جس کے تحت کانگرس آئی کے دور میں پاکستان پر 71ء کی جنگ مسلط کرکے ایک گھنائونی سازش کے تحت اسے سانحۂ سقوط ڈھاکہ سے دوچار کیا گیااور پھر خود کو ایٹمی قوت بنا کربھارت باقیماندہ پاکستان کی سلامتی کے بھی درپے ہوگیا۔ اگر ہماری قومی قیادتوں نے بھارت کی ان مکارانہ سازشوں کا ادراک کرکے پاکستان کو بھی اسکے مقابل ایٹمی قوت سے ہمکنار نہ کیا ہوتا تو بھارت ہمیں صفحۂ ہستی سے مٹانے کا خواب کب کا شرمندۂ تعبیر کرچکا ہوتا۔ اسے ہمارے ایٹمی قوت ہونے کے باعث ہم پر 65ء اور 71ء جیسی جنگ مسلط کرنے کی تو جرأت نہیں ہوسکی مگر وہ پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کی سازشوں میں ہمہ وقت مصروف رہتا ہے جس کیلئے اس نے سب سے پہلے کشمیر کو متنازعہ بنا کر اس پر بھارتی اٹوٹ انگ ہونے کا راگ الاپنا شروع کر دیا حالانکہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل نے اپنی درجن بھر قراردادوں کے ذریعے کشمیریوں کا حق خودارادیت تسلیم کر رکھا ہے اور بھارت کو کشمیر میں استصواب کے اہتمام کی ہدایات بھی دی ہوئی ہیں مگر بھارت نے نہ صرف ان یواین قراردادوں کو درخوراعتناء نہیں سمجھا بلکہ مقبوضہ وادی کو باقاعدہ طور پر اپنی ریاست کا درجہ بھی دے دیا جسے کشمیری عوام نے آج تک تسلیم و قبول نہیں کیا اور وہ جان و مال کی عظیم قربانیاں دیتے اور غاصب بھارتی فورسز کا ظلم و جبر کا ہر ہتھکنڈہ برداشت کرتے ہوئے گزشتہ سات دہائیوں سے بھارتی تسلط سے اپنی آزادی کی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔
بھارت کی موجودہ مودی سرکار نے تو کشمیریوں پر مظالم اور پاکستان کے ساتھ سرحدی کشیدگی بڑھانے کی تمام حدیں عبور کرلی ہیں اور اسکے اقتدار کا کوئی دن ایسا نہیں گزرا جب کشمیریوں کی آواز بزور دبانے کیلئے ان کا عرصۂ حیات تنگ نہ کیا گیا ہو اور کنٹرول لائن پر سیزفائر کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بلااشتعال اور یکطرفہ فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ برقرار نہ رکھا گیاہو۔ چنانچہ مودی کے دور میں مقبوضہ کشمیر میں بھی اب تک سینکڑوں نہتے اور بے گناہ کشمیریوں بالخصوص نوجوانوں کی شہادتیں ہوچکی ہیں اور کنٹرول لائن پر بھی سینکڑوں سکیورٹی اہلکاروں ہی نہیں‘ سویلینز کو بھی انکے خون میں نہلایا جا چکا ہے۔ بھارت اسکے ساتھ ساتھ پاکستان پر مقبوضہ کشمیر میں دراندازی کا الزام لگا کر ہر دہشت گردی کا ملبہ بھی اس پر ڈالنے کی روش اختیار کرچکا ہے جبکہ اسکی ایجنسی ’’را‘‘ دہشت گردوں کے ذریعے پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کی سازشوں میں بھی مصروف ہے۔ اس تناظر میں اس خطے میں دہشت گردی کو فروغ دینے والا بھی بھارت ہے جسے پاکستان مخالف اپنے ایجنڈے کے تحت فروغ دینے کیلئے اب امریکی سرپرستی حاصل ہوچکی ہے اس لئے اس خطے کو دہشت گردی سے محفوظ کرنا اور امن و استحکام سے ہمکنار کرنا مقصود ہے تو اس کیلئے عالمی قیادتوں اور انسانی حقوق کے عالمی اداروں کو بھارت کے جنونی اور توسیع پسندانہ عزائم کے آگے ہر صورت بند باندھنا ہوگا۔
یہ امر واقع ہے کہ مقبوضہ کشمیر اور کنٹرول لائن پر بھارتی جارحانہ اقدامات برقرار رہے تو پاکستان اور بھارت کے مابین ایٹمی جنگ ہو کر رہے گی جس کی تباہ کاریاں صرف ایک علاقے تک محدود نہیں رہیں گی بلکہ اس پورے کرۂ ارض کی تباہی کی نوبت لائیں گی۔ ان تباہ کاریوں سے مسئلہ کشمیر یواین قراردادوں کی روشنی میں حل کرکے ہی بچا جا سکتا ہے اور وزیراعظم شاہد خاقان نے بائو فورم کے موقع پر یواین سیکرٹری جنرل سے ملاقات کرکے اسی تناظر میں ان سے یواین قراردادوں کی روشنی میں مسئلہ کشمیر حل کرانے کی ضرورت پر زور دیا ہے جس کی یواین سیکرٹری جنرل نے تائید کی ہے تو انہیں اس کیلئے عملی کردار بھی ادا کرنا چاہیے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان اور چین کی بے مثال دوستی اس خطے اور اقوام عالم میں پرامن بقائے باہمی کے اصول کے تحت انسانی برادری کی امن و آشتی کے ماحول میں نشوونما اور ترقی کی متمنی ہے جس کیلئے سی پیک کے ذریعے عملی کردار بھی ادا کیا گیا ہے تاہم بھارت کے ہاتھوں پھیلائی دہشت گردی اور اسکے توسیع پسندانہ جنونی عزائم کی بدولت اس خطے کا امن و سکون تاراج ہوتا رہے گا تو اس خطے کے عوام تک سی پیک کے ثمرات بھی نہیں پہنچ پائیں گے۔ اگر یہاں امن و سکون قائم نہ ہونے دینے والے فساد کی جڑ بھارت ہی ہے تو اسکے ہاتھ روکنا اقوام متحدہ اور دوسری عالمی قیادتوں کی ذمہ داری ہے۔ اس حوالے سے بائو فورم پر عملی پیش رفت ہوتی نظر آئی ہے جس کیلئے چین کے صدر شی جن پنگ نے مکمل تعاون کا یقین دلایا ہے۔ توقع کی جانی چاہیے کہ یواین سیکرٹری جنرل وزیراعظم پاکستان کی معروضات اور انکے پیش کردہ پاکستان کے موقف کی بنیاد پر مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے یواین قراردادوں کو روبہ عمل لانے میں اپنا مؤثر کردار ضرور ادا کرینگے۔ علاقائی اور عالمی امن کی اسی صورت ضمانت فراہم کی جاسکتی ہے جب بھارت کشمیر پر اٹوٹ انگ والی ہٹ دھرمی ترک کرکے کشمیریوں کو حق خودارادیت دینے پر آمادہ ہو جائیگا۔