اب بھارت سے دوستی بڑھانے کے بجائے ملکی سلامتی کیلئے فکرمند ہونا چاہیے
بھارت نے ’’را‘‘ کے حاضر سروس افسر کلبھوشن یادیو کی گرفتاری کے بعد کنٹرول لائن پر کشیدگی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے گزشتہ روز بلااشتعال فائرنگ اور گولہ باری کی تاہم پاک فوج نے مؤثر جوابی کارروائی کرتے ہوئے بھارتی گنیں خاموش کرادیں۔ اس سلسلہ میں آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری بیان کے مطابق بھارتی فوج نے کنٹرول لائن پر نیزہ پیر سیکٹر میں بلااشتعال فائرنگ اور گولہ باری کی‘ فائرنگ کا سلسلہ گزشتہ شب ساڑھے گیارہ بجے شروع ہوا اور صبح پونے پانچ بجے تک جاری رہا‘ اس میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تاہم پاکستان نے بھارتی اشتعال انگیزیوں پر سخت احتجاج کیا ہے اور ڈی جی ملٹری اپریشنز نے اپنے بھارتی ہم منصب سے ہاٹ لائن پر رابطہ کرکے باور کرایا کہ بھارت کی طرف سے لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کی خلاف ورزی کسی صورت برداشت نہیں کی جائیگی۔ انہوں نے بھارتی ڈی جی ایم او پر زور دیا کہ بھارتی افواج کنٹرول لائن پر آئندہ ایسی حرکتوں سے باز رہیں۔
اگرچہ گزشتہ سال دسمبر میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور بی جے پی سرکار نے دنیا کو دکھانے کیلئے پاکستان کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا اور اس کیلئے یکایک تین چار مراحل طے کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ بھارت مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر پاکستان کے ساتھ کشمیر ایشو سمیت تمام مسائل کا حل چاہتا ہے تاہم بی جے پی سرکار کی اصل نیت پاکستان کو مسلسل دبائو میں رکھنے اور اسکی سالمیت کمزور کرنے کا ہر اقدام اٹھانے کی ہے جس کی بنیاد نریندر مودی نے وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھاتے ہی رکھ دی تھی جنہوں نے اپنی حلف برداری کے موقع پر خیرسگالی کے نام پر مدعو کئے گئے وزیراعظم پاکستان کو دہشت گردی کے خاتمہ کے حوالے سے رعونت کے ساتھ مطالبات کی فہرست تھما کر پاکستان واپس بھجوا دیا اور اسکے بعد کنٹرول لائن پر فائرنگ کا سلسلہ شروع کرکے سرحدی کشیدگی کو بڑھایا گیا اور پاکستان بھارت تعلقات پر سردمہری کی چادر ڈال دی گئی۔ کنٹرول لائن پر بھارتی فوجوں کی یکطرفہ فائرنگ کا سلسلہ تسلسل کے ساتھ ڈیڑھ سال تک برقرار رہا جبکہ پاکستان کی جانب سے بھارتی بلااشتعال فائرنگ اور گولہ باری کے ہر واقعہ پر احتجاج ریکارڈ کرایا جاتا رہا اور اصل حقائق دنیا کے سامنے پیش کئے جاتے رہے۔ اسی طرح اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین نے بھی پاکستان کے احتجاج پر دو بار کنٹرول لائن کا دورہ کرکے وہاں کے حقائق و شواہد کا جائزہ لیا اور یکطرفہ فائرنگ کے ذریعے سرحدی کشیدگی پھیلانے پر بھارت کو موردالزام ٹھہرایا جبکہ مقبوضہ کشمیر کے انسانی حقوق کمیشن نے ایک سال قبل اپنی سروے رپورٹ میں اعدادوشمار کے ساتھ بتایا کہ بھارت کی جانب سے چھ ماہ کے عرصے میں کنٹرول لائن کی 142 بار خلاف ورزی کی گئی ہے اور بھارتی فوجوں کی یکطرفہ گولہ باری اور فائرنگ سے پاکستان کے سکیورٹی اہلکاروں اور عام شہریوں سمیت درجنوں افراد شہید ہوئے ہیں جبکہ سرحدی آبادیوں کے لوگ خوفزدہ ہو کر نقل مکانی کررہے ہیں جن کی تعداد ہزاروں تک پہنچ چکی ہے۔
درحقیقت سرحدی کشیدگی برقرار رکھنے کی بھارتی پالیسی میں کبھی ردوبدل نہیں ہوا اور اس کا کشیدگی برقرار رکھنے کا مقصد پاکستان کو دبائو میں رکھنے کا ہے تاکہ وہ دفاعی حکمت عملی تیار کرنے میں مصروف رہے اور عالمی فورموں پر کشمیریوں کے حق خودارادیت کیلئے مؤثر انداز میں آواز نہ اٹھاسکے۔ اسی تناظر میں جہاں بھارت نے سرحدی کشیدگی کے راستے کھولے‘ وہیں کشمیر پر اٹوٹ انگ والی ہٹ دھرمی کو بھی فروغ دیا اور ساتھ ہی ساتھ پاکستان پر دراندازی کے الزامات تھوپنے کی پالیسی کو بھی آگے بڑھایا جاتا رہا جبکہ بی جے پی سرکار نے پاکستان سے ملحقہ آزاد کشمیر اور شمالی علاقہ جات پر بھی اپنا حق جتانا شروع کر دیا۔ بی جے پی سرکار کے بدنیتی کی بنیاد پر اختیار کئے گئے اس موقف کا مقصد مقبوضہ کشمیر پر اپنے تسلط کو عالمی برادری کی جانب سے تسلیم کرانے اور کشمیری عوام کی حق خودارادیت کی جدوجہد کو کمزور کرنے کا تھا مگر کشمیری عوام نے پہلے ہی کی طرح جبرو ترغیبات کا کوئی بھارتی ہتھکنڈہ قبول نہ کیا اور انہوں نے اقوام عالم کے سامنے اپنے حق خودارادیت کیلئے آواز اٹھانے کا سلسلہ برقرار رکھا جس کی بنیاد پر گزشتہ سال لندن اور پیرس میں کشمیری عوام کی جانب سے کئے گئے ملین مارچ میں وہاں کے پارلیمنٹیرین حضرات کے علاوہ کئی سیاسی شخصیات نے بھی شرکت کی۔
بھارت کی پیدا کردہ سرد مہری کی اسی فضا میں نئی دہلی میں پاکستان بھارت قومی سلامتی کے مشیروں کے مابین ملاقات کی نوبت نہ آسکی جبکہ بھارتی خارجہ سیکرٹری نے بھی اپنے ہم منصب سیکرٹری خارجہ پاکستان سے طے شدہ میٹنگ کیلئے اسلام آباد آنے سے انکار کر دیا۔ سخت کشیدگی کی اس فضاء میں جبکہ بھارت کے اندر ہندو انتہاء پسندی کو فروغ دے کر وہاں موجود مسلمان اقلیتوں کا جینا بھی دوبھر کیا جا رہا تھا اور مسلمان اور عیسائی اقلیتوں کو جبراً ہندو بنانے کا سلسلہ بھی جاری تھا جس پر عالمی قیادتوں کو بھارتی جنونیت سے علاقائی اور عالمی سلامتی کیلئے نظر آنیوالے خطرات پر تشویش لاحق ہوئی چنانچہ بھارت پر پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر تمام تنازعات طے کرنے کیلئے عالمی دبائو بڑھنا شروع ہو گیا اور امریکہ‘ چین کے صدور‘ یواین سیکرٹری جنرل اور یورپی پارلیمنٹ کے سربراہ نے پاکستان اور بھارت کے مابین ثالثی کی پیشکش بھی کردی تو بی جے پی سرکار نے خود پر سے عالمی دبائو ختم کرانے کی حکمت عملی کے تحت پاکستان کے ساتھ سازگار تعلقات کا ڈرامہ رچانا شروع کر دیا جس کی ابتداء نریندر مودی نے خود پیرس میں عالمی ماحولیاتی کانفرنس کے موقع پر میاں نوازشریف سے رازونیاز والی ’’خوشگوار‘‘ ملاقات کے ذریعے کی اور اسکے فالواپ میں قومی سلامتی کے مشیروں کی بنکاک میں ’’اچانک‘‘ ملاقات ہو گئی جبکہ پاکستان کیخلاف زہر اگلنے والی بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے ہارٹ آف ایشیاء کانفرنس میں شرکت کے بہانے اسلام آباد آکر مصنوعی مسکراہٹوں کے پھول بکھیرے اور مودی تو خیرسگالی کی اداکاری میں اتنے مشاق ہو گئے کہ ماسکو کے دورے سے واپس لوٹتے ہوئے انہوں نے کابل سے سیدھے لاہور آکر پڑائو ڈالا‘ وزیراعظم نواشریف کی اقامت گاہ جاتی عمرا تک بغل میں چھری‘ منہ میں رام رام کی عملی تصویر بنے رہے‘ مگر اس خیرسگالی کے چند ہی روز بعد پٹھانکوٹ میں دہشت گردی ہوئی تو مودی سرکار کی اصلیت بھی یکایک جوبن پر آگئی جس میں پاکستان کیلئے سوائے دشمنی‘ کشیدگی اور سردمہری کے اور کوئی پیغام نہیں تھا۔ پاکستان پر الزامات کی بھی پھر سے بوچھا ڑشروع ہو گئی اور اسے جنگ جیسی تکلیف سے دوچار کرنے کی بڑھکیں لگانے کے ساتھ ساتھ اسکی تیاریاں بھی شروع کردی گئیں۔ مگر ہمارے حکمران‘ جن کی آنکھیں پاکستان سے خیرسگالی کے تعلقات والے مودی سرکار کے چکمے نے خیرہ کردی تھیں‘ بھارت پر ریشہ خطمی پالیسی ہی اختیار کئے بیٹھے رہے۔ پٹھانکوٹ حملے کے حوالے سے بھارت کے ہر تقاضے پر بسروچشم لبیک کہا اور متذکرہ حملے میں پاکستان کے ملوث ہونے کے بھارتی الزام کوعملاً تسلیم کرلیا۔ اسکے برعکس بھارت نے پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کی سازشی پالیسی برقرار رکھی اور وہ ہماری سرزمین پر دہشت گردی اور اپنا جاسوسی نیٹ ورک پھیلانے میں مصروف رہا‘ حتیٰ کہ نوبت بھارتی بحریہ کے حاضر سروس افسر کلبھوشن کی گرفتاری تک آپہنچی۔ اسکی گرفتاری سے بھارتی سازشی منصوبے کی کڑیاں ملتے ملتے اب تک بھارتی عزائم کی کئی داستانیں سامنے لاچکی ہیں جن میں پاکستان کی سالمیت کمزور کرنے کے بھارتی خبث باطن سے بھی پردہ اٹھا ہے۔ مگر خوش فہمی کا شکار ہمارے حکمرانوں کو اب بھی بھارتی سازشوں کا اسی کی زبان میں جواب دینے اور ان کا توڑ کرنے کی توفیق نہیں ہوسکی۔ چنانچہ کلبھوشن کی گرفتاری سے دفاعی پوزیشن پر آیا بھارت پھر ہماری سالمیت کیخلاف جارحانہ رویہ اختیار کرنے کی راہ پر کاربند ہو گیا ہے۔ گزشتہ شب کنٹرول لائن پر کی گئی بھارتی فوجوں کی یکطرفہ فائرنگ اور گولہ باری اس کا بین ثبوت ہے جبکہ فائرنگ اور گولہ باری کا یہ سلسلہ علی الصبح تک برقرار رکھا گیا جس کے بعد افواج پاکستان نے جوابی کارروائی کرکے بھارتی گنیں خاموش کرائیں۔ اسی طرح بھارتی فوجوں نے مقبوضہ کشمیر میں بھی اپنے ظلم و جبر کا سلسلہ بڑھانا شروع کر دیا ہے‘ جہاں گزشتہ روز چھاپے کے دوران ایک ساٹھ سالہ شخص جاں بحق اور متعدد طلبہ زخمی ہوئے‘ جس کیخلاف کشمیری عوام سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں اور آج مقبوضہ وادی میں مکمل ہڑتال بھی کررہے ہیں۔ اسی طرح بھارتی فوجوں نے بھارتی پنجاب کے شہر جالندھر میں بھی ایک کشمیری باشندے مقصود کو قتل کردیا ہے جس کی نعش قریبی کھیتوں سے ملی ہے۔
بھارت کی پیدا کردہ یہ نئی کشیدگی پاکستان کی سلامتی کیخلاف اسکی زہریلی سازشوں کو عملی جامہ پہنانے کی خبر ہی دے رہی ہے اس لئے اس فضا میں بھی بی جے پی سرکار کو خیرسگالی کے پیغامات دینا اور دفتر خارجہ کو محض رسمی احتجاج تک محدود رکھنا بھارت کو پاکستان کی سالمیت کیخلاف اپنی سازشیں پایۂ تکمیل کو پہنچانے کا موقع فراہم کرنے کے مترادف ہوگا چنانچہ وقت کا یہی تقاضا ہے کہ بھارت کے ہاتھوں ملک کی سلامتی کو لاحق ہونیوالے خطرات کا مؤثر توڑ کیا جائے اور اسے اسی کے لہجے میں دوٹوک جواب دیا جائے۔ ہم بھارتی سازشوں کے باوجود اسکے ساتھ دوستی پروان چڑھانے کی پالیسی کے اب کسی صورت متحمل نہیں ہو سکتے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024