منگل ‘04 رجب المرجب 1437ھ‘ 12؍اپریل 2016 ء
ٹیکس کلچر کے فروغ کیلئے انعامات کا سلسلہ شروع کیا ہے‘ شہباز شریف
خدا کرے وزیراعلیٰ پنجاب کا یہ منصوبہ کامیاب رہے اور وہ ٹیکس چوروں کو ڈنڈے سے نہیں تو چلو انعامات کی طاقت سے ہی زیر دام لانے میں کامیاب ہوں۔ ٹیکس چوروں کی ہمارے ملک میں کمی نہیں بقول غالب ’’ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں‘‘
اچھے بھلے کروڑ پتی ارب پتی لوگوں کی جان ٹیکس دینے سے جاتی ہے۔ اور وہ بے چارے خود کو کنگلا ثابت کرتے ہیں۔ اکثر کی تو یہ حالت ہوتی ہے کہ ان کو صدقہ خیرات دینے کو جی چاہتا ہے۔ جتنا پیسہ وہ ٹیکس سے بچنے کے ناجائز طریقے اختیار کرنے پر خرچ کرتے ہیں۔ اس سے آدھی رقم بھی وہ ایمانداری سے اپنے ٹیکس کی شکل میں ادا کریں تو ہمارے ملک میں وصولیوں کی بہار آجائے اور قومی خزانے کو بھی فائدہ ہو۔ مگر ٹیکس دینے والے جانتے ہیں کہ جب خزانہ بھی لوٹنے والوں کے ہاتھ میں ہے تو پھر ہم اپنی رقم کیوں ان کو دیں اسطرح وہ ٹیکس چوری کرکے شاید خزانہ لوٹنے والوں کی حوصلہ شکنی کر رہے ہیں۔لیکن اب وزیراعلیٰ پنجاب نے جس طرح ہوٹلوں کے بلز حاصل کرنیوالوں کیلئے انعامات کی برسات کی ہے اس سے تو لگتا ہے اب ہوٹلوں میں ہر گاہک بعد از قیام و طعام بل طلب کرنے لگا ہے تاکہ وہ بھی انعامات حاصل کرنیوالوں کی فہرست میں جگہ پائے۔ اس طرح تو اکثر لوگ انعام کی خاطر اب بل وصول کرنے کے چکر میں ہوٹلوں کا رخ کرینگے۔ اس طرح ہوٹلنگ کا کاروبار چمک اٹھے گا۔
٭…٭…٭…٭
شوہر کی دوسری شادی کی تقریب پر پہلی بیوی کا 2 بچوں سمیتحملہ‘ دولہا اور باراتیوں کی چھترول۔
لیجئے اب حقوق نسواں منظور ہو یا نہ ہو مگر لگتا ہے خواتین نے اپنے حقوق کے تحفظ کیلئے خود ہی میدان میں آنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اب اس شوہر کی حالت ہی دیکھ لیں۔ جو چلا تھا پہلی بیوی سے لڑ کر اپنے سر پر دوسری شادی کا سہرا سجانے مگر پہلی بیوی کی بروقت مداخلت کے باعث اسکی تواضح بمعہ بارات کے جوتیوں کے ساتھ کی گئی۔پہلی بیوی کے حملے کے بعد دلہن والوں کو پتہ چلا کہ موصوف پہلے سے ایک عدد زوجہ کا شوہر نامدار اور 2 عدد بچوں کا باپ بھی ہے تو انہوں نے پہلی بیوی کے ساتھ ملکر پوری بارات کو حقوق نسواں کا بھولا ہوا سبق یاد کرا دیا۔ یہ موقع کی نزاکت تھی یا جان کا خوف کہ دولہا نے دوسری شادی سے توبہ کرتے ہوئے پہلی والی سے معافی مانگی اور وہاں سے نکلنے میں عافیت جانی۔ اب بے چارے باراتی شاید اپنے پلے سے کھانا کھا کر اور کرایہ دیکر واپس گئے ہونگے۔اگر ملک بھر میں خواتین نے اسی طرح اپنے حقوق کے تحفظ کی ٹھان لی اور بزور طاقت اپنے مجازی خدا سے کھانے پکانے‘ بچے سنبھالنے کپڑے برتن دھونے‘ گھر بار کی صفائی کا معاوضہ طلب کرنے لگیں تو کیا ہو گا۔ پھر اور کچھ ہو نہ ہو۔ مجھے میری بیوی سے بچاؤ کا نعرے لگاتے ہوئے مرد حضرت حقوق مرداں بل کیلئے زور دیتے ضرور نظر آئیں۔
وزیراعلیٰ سندھ کے پی ایس او نے تھانے سے اپنا بیٹا چھڑا لیا۔
یہ ہوتا ہے اختیارات کا برمحل اور بھرپور استعمال۔ ورنہ کیا فائدہ ایسے سرکاری افسر کا جو وزیراعلیٰ کا پی ایس او ہو اور اسکا بیٹا کچھ دیر تھانے میں رہے۔ اب تھانے کے ایس ایچ او کو اسی جرمِ بے گناہی میں معطل بھی کر دیا گیا ہے۔ اس سرکاری ملازم کی جرات کیسے ہوئی کہ اس نے کالے شیشے والی گاڑی کو روکا اور کالے شیشے کے جرم میں اعلیٰ سرکاری ملازم کے بیٹے کو تھانے کی سیر کرا ڈالی۔اور پھر یہ کونسا ایسا خطرناک جرم ہے جس پر اس نے فوری ایکشن لیا۔ صوبہ سندھ میں جو کچھ ہو رہا ہے اسکے باوجود اگر وزیراعلیٰ ایکشن نہیں لیتے۔ قانون حرکت میں نہیں آسکتا۔ تو صرف کالے شیشوں پر ہی نزلہ کیوں گرے۔ کیا باقی سندھ میں ہر طرح امن و چین کا راج ہے۔ یہ کردار ہے ہماری سرکاری اشرافیہ کا کہ وہ اپنے گھر والوں کی بڑی سے بڑی غلطی ہو یا چھوٹی سے چھوٹی قابل مواخذہ نہیں سمجھتے۔ اس پر ایکشن لینے کا تو تصور ہی محال ہے۔ تو پھر کسی اور کیخلاف ہم کس منہ سے ایکشن لینے کا کہہ سکتے ہیں۔ قانون اگر سب کیلئے یکساں ہے جسکا ہمارے حکمران دعویٰ کرتے ہیں تو پھر معطل ایس ایچ او کو بحال کرنا ہو گا اور کالے شیشے کے ملزم کو خواہ کوئی بھی ہو حوالات کی ہوا کھانا ہی پڑیگی۔ ورنہ ایک معمولی سرکاری افسر کے ہاتھوں قانون کی اسی طرح تذلیل ہوتی رہے گی۔
٭…٭…٭…٭
جماعت اسلامی کے کرپشن کیخلاف لاہور کراچی سمیت کئی شہروں میں مظاہرے۔
عرصہ دراز سے جماعت اسلامی کوشش کر رہی ہے کہ وہ خود کو عوام کی امنگوں کی ترجمان ثابت کرے۔ مگر حالات اور واقعات بتاتے ہیں کہ بے وقوف عوام نے کبھی اسے اپنی ترجمانی کرنے کا حق نہیں دیا۔اسکے باوجود جماعت نے ہمت نہیں ہاری وقت کے ساتھ ہر ماحول میں خود کو ڈھالنے کی کوشش جاری رکھی۔ اب آجکل کرپشن کیخلاف شور برپا ہے۔ پانامہ لیکس نے بہت سے پاجاموں کو ڈھیلا کر دیا ہے۔ تو جماعت بھی کرپشن کیخلاف میدان میں کود پڑی ہے۔ اب لاہور کراچی اور دیگر شہروں میں ریلیاں نکالی جا رہی ہیں۔
حیرت کی بات صرف یہ ہے کہ سراج الحق صاحب کو خیبر پی کے میں جہاں وہ عمران خان کے ساتھ شریک حکومت ہیں۔ کرپشن نظر نہیں آتی شاید وہاں جو کچھ ہو رہا ہے اسے سراج الحق کرپشن نہیں مانتے۔ الزامات تو عمران خان پر بھی ہیں۔خود خیبر پی کے حکومت میں بھی سارے گنگا نہائے ہوئے نہیں ہیں۔ آفتاب شیرپاؤ پارٹی کے جن وزراء کو کرپشن کے الزامات لگا کر برطرف کیا انہیں دوبارہ پاک و صاف قرار دیکر قبول کر لیا گیا اب وہ پھر حکومت میں شامل ہیں جس میں جماعت اسلامی بھی شامل ہے۔ سوال یہ نہیں کہ سراج الحق یا ان کی جماعت خود کو احتساب کیلئے پیش کرے۔ سوال یہ ہے کہ جماعت اسلامی جن جماعتوں کے ساتھ شریک اقتدار ہے کیا وہ کرپشن سے پاک ہیں۔ اگر نہیں تو کیا وہ ان کیخلاف اعلان جنگ کریگی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭