قائد اعظم اور مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے معتمد ساتھی جموں و کشمیر عظیم سپوت کے ایچ خورشید کی برسی گزشتہ دنوں عقیدت و احترام سے پاکستان اورآزاد کشمیر میں منائی گئی۔
کے ایچ خورشید کا نام سامنے آتے ہی جو چیز انہیں سب سے زیادہ نمایاں کرتی ہے وہ یہ کہ کے ایچ خورشید قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم کی سیاسی اقدار کے زبردست علمبردار تھے۔ مرحوم ایک محب وطن بااصول اور زیرک سیاست دان تھے۔ وہ کردار کے صاف عمل میں پختہ اور بے لوث اور بے غرض انسان تھے، وہ مسئلہ کشمیر اور کشمیری عوام کی خدمات کے حوالے سے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے کیونکہ قائد اعظم محمد علی جناح نے کے ایچ خورشید کو اپنا سیکرٹری بنایا اور یہ ان کے لئے بہت بڑا اعزاز تھا۔ اس اعلیٰ اعزاز نے ہی مسٹر کے ایچ خورشید مرحوم کو بلند مقام دیا وہ نہ صرف تحریک پاکستان میں بہت فعال تھے بلکہ وہ کشمیر کی آزادی کی تحریک سے بھی شروع سے وابستہ تھے وہ زندگی بھر کشمیر کی آزادی کے لئے کردار ادا کرتے رہے۔
کے ایچ خورشید قیام پاکستان سے کچھ عرصہ پہلے آل انڈیا مسلم لیگ کے ایک اہم وفد کے ہمراہ لندن تشریف لے گئے اور آزادی ہند کے متعلق منعقد ہونے والے مذاکرات میں نہایت گرم جوشی سے حصہ لیا۔ یہ مذاکرات تاریخی اہمیت کے حامل تھے۔ اس وفد کے سربراہ شہید ملت خان لیاقت علی خاں اول وزیر اعظم پاکستان تھے اور سیکرٹری کے ایچ خورشید تھے ۔جب قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم پاکستان کے پہلے گورنر جنرل مقرر ہوئے تو ان کے پہلے پرائیویٹ سیکرٹری کے ایچ خورشید تھے۔
30 ستمبر 1947ء کو قریباً چار برس بعد حضرت قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم نے خورشید مرحوم کو از راہ شفقت چھٹی دیتے ہوئے کہا کہ وہ کشمیر جا کر اپنے والدین سے مل آئیں۔ جب وہ کشمیر گئے تو وہاں انہیں گرفتار کر لیا گیا جہاں سے انہیں نومبر1949ء میں پاکستان میں گلگت کے گرفتار شدہ گورنر بریگیڈیئر گھنسار سنگھ کے تبادلے میں رہائی ملی اور یہ عظیم مجاہد پاکستان تشریف لے آئے۔
بعد ازاں انہوں نے مرزا عزیز بیگ سے مگر گارڈین کے نام سے لاہور سے ایک انگریزی اخبار جاری کیا اس دوران وہ ہفت روزہ چٹان کے بانی جناب شورش کاشمیری مرحوم نوائے وقت کے بانی جناب حمید نظامی مرحوم اور شہرت یافتہ شاعر جناب فیض احمد فیض مرحوم کے ہمراہ سی پی این ای میں رہے۔ 1953ء میں مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح نے کے ایچ خورشید مرحوم کو اعلیٰ تعلیم کے لئے لندن بھجوایا جہاں انہوں نے لنگنز ان سے بار ایٹ لا کی ڈگری حاصل کی۔ وطن واپس آ کر تحریک پاکستان کے جرات مند کارکن جناب سردار عبدالرب نشتر مرحوم ایم ایچ اصفہانی اور خواجہ نور دین سے ملکر انہوں نے تحریک ملی کے نام سے ایک فعال تنظیم قائم کی۔ کے ایچ خورشید مرحوم اس تنظیم کے پہلے سیکرٹری جنرل مقرر ہوئے۔ 1958ء میں حکومت آزاد کشمیر کے پبلسٹی ایڈوائزر مقرر ہوئے ۔
جون 1958ء میں قائد کشمیر چودھری غلام عباس مرحوم کے ساتھی کشمیر لبریشن موومنٹ کے سلسلے میں گرفتار کر لئے گئے اور اکتوبر 1958ء میں رہا کر دیئے گئے۔ اپریل 1959ء میں انہیں چودھری غلام عباس مرحوم کی کوششوں سے آزاد کشمیر کا صدر منتخب کر لیا گیا۔ اپنی عہد صدارت میں انہوں نے نہ صرف حکومت آزاد کشمیر کے تنظیمی اور انتظامی ڈھانچے کو ٹھوس بنیادوں پر استوار کیا بلکہ آزاد کشمیر میں پہلی بار عام انتخابات منعقد کرائے۔
وہ 1962ء میں باقاعدہ صدر منتخب ہوئے۔ اس موقع پر انہوں نے جموں و کشمیر لبریشن لیگ کے نام سے ایک سیاسی جماعت قائم کر لی اور اس کے پہلے بانی صدر منتخب ہوئے۔ 1964ء میں وہ صدر کے عہدہ سے معزول کر کے گرفتار کر لئے گئے ،رہائی پانے کے بعد کے ایچ خورشید نے فیلڈ مارشل صدر محمد ایوب خاں مرحوم کے دور میں وضع کردہ بنیادی جمہوریت کے سیاسی نظام کے خلاف منظم تحریک چلائی اور اپوزیشن سیاسی جماعتوں کے ہمراہ شانہ بشانہ جمہوری اقدار کے فروغ کے لئے کام کیا۔ وہ اس جمہوری تحریک میں فعال سیاسی رہنما تھے۔
1965ء میں صدر پاکستان فیلڈ مارشل محمد ایوب خان ، مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے مابین معرکہ خیز صدارتی انتخاب منعقد ہوئے تو کے ایچ خورشید مرحوم کو محترمہ فاطمہ جناح کا چیف پولنگ ایجنٹ مقرر کیا گیا۔ کے ایچ خورشید مرحوم نے ساری زندگی تحریک آزادی کشمیر کے لئے وقف کر رکھی تھی۔ انہوں نے 1962ء میں صدارت کے عروج پر جموں و کشمیر لبریشن لیگ کی بنیاد رکھی اور آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر کو تسلیم کرانے کے جاذب اور دلکش نعرہ کی بنیاد پر اپنی جداگانہ سیاست کی ابتداء کی لیکن اسکے لئے وہ کشمیری عوام سے حمایت نہ حاصل کر سکے کیونکہ اس دلکش نعرے میں خود مختار کشمیر کی بو نظر آتی تھی جبکہ لوگ قائد اعظم کے ساتھی سے لوگ ایسی توقع نہ کرتے تھے۔
کے ایچ خورشید بالغ نظر قومی سوچ کے حامل سیاست دان ایک بلند پایہ پارلیمنٹرین بے داغ کردار کے سیاسی کارکن اور ذوق سخن رکھنے والے صحافی، ممتاز وکیل ،قائد اعظم کے پرائیویٹ سیکرٹری اور با اعتماد ساتھی سے محروم ہو گئے وہ مارچ 1988ء کو ٹریفک کے ایک المناک حادثہ میں داعی اجل کو لبیک کہہ گئے لیکن اپنے بے داغ کردار ذہانت حسن خطابت اور شخصی حسن و جمال کی ان مٹ حسین یادیں چھوڑ گئے اور اپنے لاکھوں دوستوں عقیدت مندوں کو سوگوار کر گئے۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024