تحریک پاکستان کے ممتاز کارکن وہ انبالہ کے سادات خاندان میں پیدا ہوئے۔ انکے والد خان بہادر صدیق حسین افغانستان میں برٹش کونسل میں تھے۔ انکے تایا غلام بھیک نیرنگ مشہور عالم، قومی رہنما اور علامہ اقبال کے رفیق تھے۔ قاسم رضوی نے ابتدائی تعلیم مسلم ہائی سکول انبالہ سے حاصل کی۔ 1941ءمیں اسلامیہ کالج لاہور میں داخل ہوئے وہ اس کالج میں داخل ہونے سے پہلے ہی پنجاب مسلم یونیور سٹی فیڈریشن کی جانب سے منعقدہ پاکستان کانفرنس میں شریک ہو چکے تھے۔ قاسم رضوی ایک اچھے مقرر تھے اور کئی مباحثوں میں حصہ بھی لیا۔ انہوں نے تمام تر صلاحیتوں کیساتھ تحریک پاکستان میں حصہ لیا۔ تحریک پاکستان کے سلسلے میں جگہ جگہ تقریریں کیں اور لوگوں کے دلوں میں قومی خدمت کا ولولہ اور جذبہ پیدا کیا۔ 1946 کے انتخابات میں مسلم لیگ کی انتخابی مہم میں بھرپور حصہ لیا۔ اس سلسلے میں یوپی کا سفر بھی کیا۔ انہوں نے حمید نظامی کیساتھ مل کر پنجاب کے طلبہ کو تحریک پاکستان کےلئے منظم کرنے میں سب سے اہم کردار ادا کیا۔1942 میں جالندھر میں آل انڈیا مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے سالانہ اجلاس میں پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کی سالانہ رپورٹ سید قاسم رضوی نے پیش کی تھی۔ اس اجلاس کی صدارت قائداعظم نے فرمائی تھی۔ وہ فیڈریشن کے ممتاز کارکن تھے۔ قیام پاکستان کے بعد وہ سوشل سروس میں آ گئے اور مختلف مقامات پر مختلف عہدوں پر فائز رہے۔6 جون 1975ءکو انہوں نے وفات پائی۔
کسی بھی بامقصد لائحہ عمل کے عوامل کو سمجھنے کیلئے یہ بات غالباً ضروری ہے کہ ان محرکات پر بھی غور کیا جائے جن کے نتیجے کے طور پر وہ مقصد پیدا ہوا۔ وہ عوامل جو نظریہ پاکستان کیمطابق ہمارے لائحہ عمل کو متعین کرنے میں ممد ہو سکتے ہیں ان کا مطالعہ غالباً اس پس منظر میں ضروری ہے جس میں مطالبہ پاکستان کے متعلق نظریات کی تخلیق ہوئی۔ یہ داستان بہت طویل ہو گی کہ تاریخی لحاظ سے وہ کیا محرکات تھے جنہوں نے ایک خطہ ارضی میں ایک بہت پھیلی ہوئی قوم کو جس کا کچھ حصہ کچھ علاقوں میں اکثریت میں تھا مگر جس کا اتنا ہی بڑا ایک حصہ بہت بڑے علاقے میں منتشر تھا۔ اس بات کی طرف متوجہ کیا کہ یہ ا پنی آزادی کے حصول کی تحریک میں اپنے لئے کچھ ایسے نظریات مختص کرے جو نہ صرف قوم کا عارضی بلکہ مستقل سلسلہ جہد متعین کرنیوالے ہوں۔ اس مختصر صحبت میں میں صرف آپ کو چند باتیں یاد دلانا چاہتا ہوں۔
وہ بات جو تواتر سے کہی جاتی ہے غالباً سب سے غیر اہم ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک ہمسایہ قوم کے ساتھ روزانہ زندگی میں بار بار اپنے حقوق کے تحفظ سے مایوس ہو کر مسلمانوں میں ایک سیاسی ایک قسم کا سماجی اور بہت حد تک اقتصادی ردعمل اس بات کا محرک ہوا کہ مسلمان برصغیر میں اپنا ایک علیحدہ وطن مانگیں۔ یہ امر واقعہ ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں میں اپنی مسلسل محرومیت کا احساس اور اپنے مستقبل کی بہتری کےلئے خواہش اسلئے شدت اختیار کر گئی کہ انہیں ہمسایہ قوم سے مسلسل اور متواتر غیر منصفانہ سلوک ملتا تھا اور یہ ردعمل قوم کے فوری اتحاد اور وسیع ہم خیالی کا باعث ہوا لیکن صرف یہی ہنگامی احساس مطالبہ پاکستان کا بنیادی محرک نہیں ہے۔ ویسے بھی اس قسم کی محرومی بذات خود اتنی اہم نہیں ہے کہ ایک قوم کو آزادی کے حصول کے بعد بھی مستقلاً پر مقصد طور پر مجتمع اور زندہ و پائندہ رکھ سکے۔ درحقیقت اس جذبے سے بہت برتر اور گہرے کچھ اور محرکات بھی تھے جنہیں ہم نے نہ صرف لوگوں کے سامنے پیش نہ کیا بلکہ جن کے متعلق رفتہ رفتہ بین الاقوامی سیاست کے تقاضوں میں الجھ کر ایک سردمہری پیدا ہوتی جا رہی ہے۔
بین الاقوامی سیاسی شعور کی تاریخ میں کچھ ایسے پڑھے جا سکنے والے خطوط بھی ہیں۔ جن سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ شعوری طور پر کچھ سیاسی تحریکوں نے عامة الناس کیلئے عالمی طور پر لائحہ ہائے عمل تجویز کرنا چاہئے۔ انیسویں صدی اور اس سے پہلے دو ایسی وسیع سیاسی تحریکیں خاص طور پر سامنے آتی ہیں جن کے خفیہ مقاصد کے پیچھے دولت اور اقتدار کا ہاتھ تھا۔ پہلی صہیونیت کی تحریک ہے جس کے مطابق یہودیوں نے بڑے غور و خوض کے بعد اپنی قوم کےلئے ایک لائحہ عمل تجویز کیا ۔پیرس پروٹوکول میں جسے آجکل خاص طور پر ابلاغ عامہ سے چھپایا جاتا ہے یہ بات طے کی گئی کہ ”یہودی جو بہت بڑے ماضی کے مالک ہیں اور اس سے عظیم تر مستقبل کے مستحق ہیں“ انہیں بین الاقوامی طور پر کیا رویہ اپنانا چاہے کہ انکے نسلی مقاصد حل ہو سکیں۔ اسکے لائحہ عمل کے مطابق دو عالمی منصوبے بروئے کار ہیں۔ اولاً ایک آزاد مملکت کا قیام جو مدینے سے بحیرہ روم تک ہو۔ یہودی اقتدار اور تسلط کا مرکز ہو اور ثانیاً دوسرے باقی تمام ممالک میں وہ حکمت عملی جس کی بنا پر یہودیوں کے اکثریت میں نہ ہونے کے باوجود اور انکی حکومت میں شرکت کی امید نہ ہونے کے باوجود ان ذرائع پر قابض ہوں جو حکومتوں کے فیصلے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
اس قسم کی ایک دوسری تحریک پچھلی صدی کی عیسائیت کی سیاسی تحریک تھی یہ تحریک بھی محض نظریاتی یا مذہبی تحریک نہ تھی۔ عیسائی رہنماﺅں نے جو اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ دنیا میں ایک آزاد سرمایہ کارانہ نظام سے ہی ترقی ہوسکتی ہے اور انکے مفادات محفوظ ہو سکتے ہیں، اس بات پر بالخصوص غور کیا کہ دنیا کے خطوں کو دو طبقوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ اول وہ حصے جو ابتدائی اور بنیادی پیداوار کے متعلق ہوں، خام مال پیدا کریں اور دوم وہ حصے جو خام پیدوار کو استعمال کی چیزوں میں منتقل کریں۔ اس تقسیم کیلئے طے یہ ہوا کہ ایشیا اور افریقہ کا بڑا حصہ محض وہ اجناس پیدا کیا کرے جو برآمد کر کے بعد مغربی ممالک کو پہنچیں، وہاں ان پر مشینی عمل سے اشیا کی تخلیق ہو۔ مغرب کے باشندے اس عمل سے زیادہ منافع کما کر بہتر معیار زندگی قائم رکھیں اور اپنی ضروریات سے فاضل اشیا گئی گنا دام پر واپس مغلوب خطوں کو بھیج دیں۔ اس Free Enterprise Capitalistic System کے قیام کے راستے میں انہیں چند رکاوٹیں نظر آئیں (یاد رہے کہ میں انیسویں صدی سے پہلے اور انیسویں صدی کا ذکر کر رہا ہوں۔ جب اشتراکیت کا بول بالا نہ ہوا تھا، معلوم ہوا کہ اسلام کا نظریہ حیات اس رستے میں حائل تھا ا نکے ہاں جو نظریات جہاد، تقویٰ، پرہیزگاری اور جو سماجی اقتصادی اسلامی سلوک کے احکام تھے وہ مغرب کے اس منصوبے کی راہ میں حائل تھے لہذا انہوں نے اپنی سیاسی، اقتصادی سماجی ثقافتی اور دوسری تنظیموں کے ذریعے وہ حالات پیدا کئے کہ آج جو خطہ اسلام ہے وہ غالب ہونے کی جگہ مغلوب ہے۔ اگر وہ براہ راست طاقت کی وجہ سے مغلوب نہیں ہے تو خیالات سے مغلوب ہے۔ خیالات سے مغلوب نہیں ہے تو اقتصادی طور پر مغلوب ہے۔ مغرب کی مسلسل کوشش ہے کہ یہ علاقہ انسانی جدوجہد میں ان کے برابر نہ آنے پائے۔
ان تحاریک کا مطالعہ اور تجزیہ اس زمانے میں مسلمان مفکرین کو بھی میسر ہوا۔ ان میں شاہ ولی اللہؒ اور جمال الدین افغانیؒ کانام نمایاں ہے۔ مختلف علاقوں کے مسلمان رہنماﺅں کو اس کا اندازہ تھا لیکن بدقسمتی یہ تھی کہ ان رہنماﺅں اور ان سے رہنمائی کا حق رکھنے والوں میں کوئی مضبوط ذریعہ ابلاغ نہ تھا۔ افہام تفہیم کے راستے نہ تھے۔ چھوٹے سے مکتب میں معمولی سے کمرے میں اپنے حلقے میں تو آدمی اس بات کا اظہار کر سکتا تھا لیکن تبلیغی طور پر ”عامة الناس“ میں ایک ایک فرد تک یہ خیالات نہیں پہنچائے جا سکتے تھے کہ ہمیں مسلمان ہونے کی حیثیت سے پہلے اور کسی علاقے کے شہری ہونے کی حیثیت سے دوسرے خطرہ کا مقابلہ کرنا ہے۔ ملت کو خطرہ تھا سیلاب فکر سے اور علاقوں کو خطرہ تھا غیر ملکی تسلط سے۔ مسلمان مفکرین میں رفتہ رفتہ خیال پختہ ہونا شروع ہو ا کہ مسلمانوں کو بھی ایک ملت کی حیثیت سے ایک بین الاقوامی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ جب یہ محسوس ہوا کہ ہندوستان میں بھی آزادی کا دور آنیوالا ہے تو یہاں کے مسلمان مفکرین کو یہ اندیشہ ہوا کہ اگر آزادی ہمیں ایک مشترکہ برصغیر کے ساتھ ملتی ہے تو ہم ان مضمرات کی جو اسلام کے خلاف ہیں اور جو اس خطہ ارضی کے انسانوں کے مفاد کیخلاف ہیں پورے طور پر مدافعت نہیں کر سکیں گے۔ اسکی مدافعت کیلئے ضروری ہے کہ حکومت میں ہماری آواز ہو اور موثر آواز کی صورت میں صرف ایک ہی ہے کہ اپنے اکثریتی خطوں میں ہم حاکم ہوں۔ ہم اپنے ملی پروگرام پر عمل کر سکیں اور اس بین الاقوامی اسلامی وحدت کے ساتھ مل سکیں۔
یہ امر افسوس کا باعث ہے کہ یہ عزم اس زمانے میں پوری طرح منظر عام پر نہ آیا۔ دراصل عامة الناس تک آزادی کی اس بہت مختصر اور بڑی جلدی سے طے شدہ لڑائی میں ایک ایک فرد تک قومی حکمت عملی پہنچ نہ سکی مگر افسوس یہ ہے کہ آزادی حاصل ہو جانے کے بعد بھی یہ معاملہ مفکرین کے زیر توجہ ہی رہا۔ عوام تک نہ پہنچا۔ آزادی سے پہلے عوام کو اپنے ساتھ ملانے کیلئے بہت مختصر وقت میں ”فارمولا نعروں“ کے ذریعے اور جذباتی اتحاد کے نام پر انکی فوری تائید حاصل کر لی گئی۔ (جاری)
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024