میموگیٹ سکینڈل کی تحقیقات کرنے والے کمیشن نے حسین حقانی کو پیش ہونے کا ایک اور موقع دیتے ہوئے کارروائی چھبیس اپریل تک ملتوی کردی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں جسٹس قاضی فائزعیسی کی زیرصدارت ہونے والے میموکمیشن کے اجلاس میں حسین حقانی کی جانب سے درخواست دائرکی گئی تھی کہ وہ خرابی صحت کی بنا پرسفرنہیں کرسکتے اس لئے ویڈیو لنک کے ذریعے ان کا بیان ریکارڈ کرلیا جائے ۔درخواست میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ اس سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے تک کمیشن کی کارروائی ملتوی کی جائےتاہم کمیشن نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد حسین حقانی کی درخواست مسترد کردی۔ کمیشن نے اجلاس کی کارروائی چھبیس اپریل کی صبح نو بجے تک ملتوی کرتے ہوئے حسین حقانی کے اثاثوں کی تفصیل بھی طلب کرلی ہے۔ میمو کمیشن نے اس توقع کا اظہار کیا ہے کہ حسین حقانی آئندہ اجلاس میں پیش ہوجائیں گے۔اس سے قبل کمیشن کے سربراہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وزارت خارجہ کے ڈی جی امریکن ڈیسک سہیل خان سے استفسار کیا کہ حسین حقانی کا موبائل گم ہونے پر وزارت خارجہ کو بتایا گیا تھا یا نہیں۔ اطمینان بخش جواب نہ دینے پرجسٹس فائزعیسیٰ برہم ہوگئے اورسہیل خان کی سرزنش کرتے ہوئے انہیں نااہل افسر قراردیا اورکہا وہ کمیشن کے ساتھ گیم کھیلنے کی کوشش کررہے ہیں، ان کے خلاف توہین عدالت کا چارج لگایا جاسکتا ہے ۔میمو کمییشن نے سیکرٹری خارجہ کوفوری طور پر طلب کرتے ہوئے جواب مانگا جس پر جلیل عباس جیلانی کمیشن کے روبرو پیش ہوئے۔وزارت خارجہ کے حکام نے کمیشن کو بتایا کہ حسین حقانی نے اپنے موبائل گم ہونے کی اطلاع سفارتخانے کو دی اور نہ ہی اس بارے میں تحقیقات کی گئیں۔ اس موقع پروزارت خارجہ کے حکام نے حسین حقانی کے زیراستعمال فنڈز کا ریکارڈ بھی میمو کمیشن میں پیش کیا۔ جس کی جانچ پڑتال بند کمرے میں کی گئی۔ اس سے پہلے جسٹس فائز عیسی نے عاصمہ جہانگیر کے بیان پر شدید اظہار برہمی کیا۔ ان کا کہنا تھا عاصمہ جہانگیر نے یہ بیان کیسے دیا کہ میمو کمیشن حسین حقانی کی جان کے درپے ہے وہ حسین حقانی کی وکیل ہیں یا ترجمان؟؟، پاکستان بارکونسل عاصمہ جہانگیر کے بیان کا نوٹس لے۔ جسٹس فائز عیسی نے کہا کہ ایک سفیرکےاپنے ہی ملک میں سکیورٹی تحفظات حکومت کے منہ پر طمانچہ ہیں۔