سید روح الامین
فرنگ کی محکومی کے زمانے میں تعلیم اور زندگی کے دوسرے کاروبار میں انگریزی کے استعمال کا جواز ایک حد تک موجود تھا لیکن آزاد مملکت پاکستان کی تشکیل کے بعد انگریزی پر اس قدر انحصار کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ ہم ابھی تک تحصیل علم اور سرکاری کام اور روزمرہ کے مشاغل میں ایک ایسی زبان سے کام لے رہے ہیں جو ہماری تہذیب و ثقافت، ہماری روایات اور ہمارے دین سے کوئی علاقہ نہیں رکھتی۔ انگریزی زبان کا جس وسیع پیمانے پر استعمال ہم کر رہے ہیں۔ یہ استعمال ہمارے طالب علموں کے ذہن میں خود بخود خیال راسخ کرتا ہے کہ روشنی صرف مغرب سے طلوع ہو سکتی ہے اور ہماری اپنی قوم کا دماغ صرف اندھیرے کا سرچشمہ ہے۔ اگر تعلیم محض معلومات کو طلبہ کے ذہنوں تک پہنچا دینے کا نام نہیں ہے بلکہ ان کے ذہنوں کو جلا بخشنے انہیں سوچنے کا صحیح اسلوب سکھانے ان میں ذوق نظر اور تنقیدی نگاہ پیدا کرنے اور انہیں فکری اجتہاد کے قابل بنانے کا نا م ہے تو یہ مقاصد ہم اس وقت تک حاصل نہیں کر سکتے جب تک ایک بدیسی زبان کو ذریعہ تعلیم بنائے رکھتے ہیں۔ اگر ہم محض مغرب کی نقالی اور خیرات فوری پر اکتفا نہیں کرنا چاہتے اور خود اپنے دماغ سے سوچتے اور فکری اجتہادات کرنے کی قابلیت پیدا کرنا چاہتے ہیں تو اس کےلئے پہلی ضرورت ہے کہ ہم اپنا ذریعہ تعلیم بدلیں اور اپنی قومی و ثقافتی زبان میں سوچنے اور لکھنے پڑھنے کی عادت ڈالیں جو ہمیں اپنے تاریخی، معاشرتی، ثقافتی اور دینی پس منظر اور سرمائے سے اس طرح دور نہیں لے جاتی جس طرح انگریزی لے جاتی ہے۔ قومی وحدت کی تعمیر کےلئے افراد قوم کا ہم خیال وہم احساس ہونا ضروری ہے اور اس کے لئے ہم زبان ہونا بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ یک زبانی قوم کی وحدت وسالمیت کے استحکام کا باعث ہوتی ہے۔ کسی مشترک زبان کا نہ ہونا قوم کی وحدت کےلئے ضعف کا باعث ہوتا ہے۔ خوش قسمتی سے ہم ایک مشترک زبان کے حامل ہیں۔ جو سارے ملک میں عام طور پر سمجھی اور اکثر بولی جاتی ہے۔ اس مشترک زبان کو تری دینا بھی ہمارے نظام تعلیم کے مقاصد میں شامل ہونا چاہئے جس کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ اسے محض ابتدائی درجوں میں نہیں بلکہ ہر سطح پر ذریعہ تعلیم بنا دیا جائے اردو اگر ادنیٰ سے اعلیٰ ہر سطح پر ذریعہ تعلیم بن جائے تو ظاہر ہے کہ ہمارے طالب علموں کی اردو کی استعدادد میں بہت اضافہ ہو جائے گا۔ وہ زیادہ سہولت سے اردو لکھ پڑھ اور بول سکیں گے اردو میں سوچ سکیں گے۔ ان میں تخلیقی صلاحیت بیدار ہو گی اور وہ تقلیدی ذہن اور تقلیدی مزاج سے نجات پا جائیں گے جو انگریزی کے ذریعہ تعلیم ہونے کی وجہ سے ان میں پیدا ہو گیا ہے۔ اردو میں استعداد بڑھ جانے سے یہ فائدہ بھی ہو گا کہ وہ اس وسیع دینی ذخیرے سے بآسانی استفادہ کر سکیں گے جو اردو میں موجود ہے ا ور عربی کے سوا دنیا کی کسی اور زبان میں موجود نہیں۔ اس طرح اسلامی افکار و اقدار کو سمجھتے اور انہیں جذب کرنے میں بھی انہیں سہولت ہو جائے گی۔ جدید علوم و فنون اور صناعتوں سے واقفیت حاصل کرنے اور بین الاقوامی روابط قائم رکھنے کیلئے ہمیں انگریزی کی ضرورت یقیناً ہے اور ہمیں اس غرض کےلئے اپنے طالب علموں کو ثانوی زبان کے طور پر انگریزی ضرور سکھانی چاہئے لیکن اسے ذریعہ تعلیم کے طور پر جلد از جلد ترک کر دینا چاہئے جو لوگ اپنی غلامانہ ذہنیت کی وجہ سے انگریزی کو بطور ذریعہ تعلیم برقرار رکھنے کے حق میں ہیں وہ ہمیشہ یہی مغالطہ پیدا کرتے ہیں کہ انگریزی کو چھوڑ کر ہم ترقی یافتہ دنیا اور اس کے علوم و فنون سے کٹ جائیں گے اور ترقی نہیں کر سکیں گے۔ ان کی یہ بات اس صورت درست ہو گی اگر ہم انگریزی کو یکسر دیس نکالا دے دیں اور ثانوی زبان کے طور پر طالب علموں کو نہ پڑھائیں لیکن اگر قانونی زبان کے طور پر انگریزی پڑھائی جاتی رہے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم ترقی یافتہ دنیا اور اس کے علوم و فنون اور صناعتوں اور تکنیکوں تک رسائی حاصل نہ کر سکیں۔ انگریزی پڑھنا اور انگریزی کے ذریعے سے پڑھنا دو بالکل الگ الگ باتیں ہیں۔ انہیں خلط ملط نہیں کرنا چاہئے۔
فرنگ کی محکومی کے زمانے میں تعلیم اور زندگی کے دوسرے کاروبار میں انگریزی کے استعمال کا جواز ایک حد تک موجود تھا لیکن آزاد مملکت پاکستان کی تشکیل کے بعد انگریزی پر اس قدر انحصار کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ ہم ابھی تک تحصیل علم اور سرکاری کام اور روزمرہ کے مشاغل میں ایک ایسی زبان سے کام لے رہے ہیں جو ہماری تہذیب و ثقافت، ہماری روایات اور ہمارے دین سے کوئی علاقہ نہیں رکھتی۔ انگریزی زبان کا جس وسیع پیمانے پر استعمال ہم کر رہے ہیں۔ یہ استعمال ہمارے طالب علموں کے ذہن میں خود بخود خیال راسخ کرتا ہے کہ روشنی صرف مغرب سے طلوع ہو سکتی ہے اور ہماری اپنی قوم کا دماغ صرف اندھیرے کا سرچشمہ ہے۔ اگر تعلیم محض معلومات کو طلبہ کے ذہنوں تک پہنچا دینے کا نام نہیں ہے بلکہ ان کے ذہنوں کو جلا بخشنے انہیں سوچنے کا صحیح اسلوب سکھانے ان میں ذوق نظر اور تنقیدی نگاہ پیدا کرنے اور انہیں فکری اجتہاد کے قابل بنانے کا نا م ہے تو یہ مقاصد ہم اس وقت تک حاصل نہیں کر سکتے جب تک ایک بدیسی زبان کو ذریعہ تعلیم بنائے رکھتے ہیں۔ اگر ہم محض مغرب کی نقالی اور خیرات فوری پر اکتفا نہیں کرنا چاہتے اور خود اپنے دماغ سے سوچتے اور فکری اجتہادات کرنے کی قابلیت پیدا کرنا چاہتے ہیں تو اس کےلئے پہلی ضرورت ہے کہ ہم اپنا ذریعہ تعلیم بدلیں اور اپنی قومی و ثقافتی زبان میں سوچنے اور لکھنے پڑھنے کی عادت ڈالیں جو ہمیں اپنے تاریخی، معاشرتی، ثقافتی اور دینی پس منظر اور سرمائے سے اس طرح دور نہیں لے جاتی جس طرح انگریزی لے جاتی ہے۔ قومی وحدت کی تعمیر کےلئے افراد قوم کا ہم خیال وہم احساس ہونا ضروری ہے اور اس کے لئے ہم زبان ہونا بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ یک زبانی قوم کی وحدت وسالمیت کے استحکام کا باعث ہوتی ہے۔ کسی مشترک زبان کا نہ ہونا قوم کی وحدت کےلئے ضعف کا باعث ہوتا ہے۔ خوش قسمتی سے ہم ایک مشترک زبان کے حامل ہیں۔ جو سارے ملک میں عام طور پر سمجھی اور اکثر بولی جاتی ہے۔ اس مشترک زبان کو تری دینا بھی ہمارے نظام تعلیم کے مقاصد میں شامل ہونا چاہئے جس کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ اسے محض ابتدائی درجوں میں نہیں بلکہ ہر سطح پر ذریعہ تعلیم بنا دیا جائے اردو اگر ادنیٰ سے اعلیٰ ہر سطح پر ذریعہ تعلیم بن جائے تو ظاہر ہے کہ ہمارے طالب علموں کی اردو کی استعدادد میں بہت اضافہ ہو جائے گا۔ وہ زیادہ سہولت سے اردو لکھ پڑھ اور بول سکیں گے اردو میں سوچ سکیں گے۔ ان میں تخلیقی صلاحیت بیدار ہو گی اور وہ تقلیدی ذہن اور تقلیدی مزاج سے نجات پا جائیں گے جو انگریزی کے ذریعہ تعلیم ہونے کی وجہ سے ان میں پیدا ہو گیا ہے۔ اردو میں استعداد بڑھ جانے سے یہ فائدہ بھی ہو گا کہ وہ اس وسیع دینی ذخیرے سے بآسانی استفادہ کر سکیں گے جو اردو میں موجود ہے ا ور عربی کے سوا دنیا کی کسی اور زبان میں موجود نہیں۔ اس طرح اسلامی افکار و اقدار کو سمجھتے اور انہیں جذب کرنے میں بھی انہیں سہولت ہو جائے گی۔ جدید علوم و فنون اور صناعتوں سے واقفیت حاصل کرنے اور بین الاقوامی روابط قائم رکھنے کیلئے ہمیں انگریزی کی ضرورت یقیناً ہے اور ہمیں اس غرض کےلئے اپنے طالب علموں کو ثانوی زبان کے طور پر انگریزی ضرور سکھانی چاہئے لیکن اسے ذریعہ تعلیم کے طور پر جلد از جلد ترک کر دینا چاہئے جو لوگ اپنی غلامانہ ذہنیت کی وجہ سے انگریزی کو بطور ذریعہ تعلیم برقرار رکھنے کے حق میں ہیں وہ ہمیشہ یہی مغالطہ پیدا کرتے ہیں کہ انگریزی کو چھوڑ کر ہم ترقی یافتہ دنیا اور اس کے علوم و فنون سے کٹ جائیں گے اور ترقی نہیں کر سکیں گے۔ ان کی یہ بات اس صورت درست ہو گی اگر ہم انگریزی کو یکسر دیس نکالا دے دیں اور ثانوی زبان کے طور پر طالب علموں کو نہ پڑھائیں لیکن اگر قانونی زبان کے طور پر انگریزی پڑھائی جاتی رہے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم ترقی یافتہ دنیا اور اس کے علوم و فنون اور صناعتوں اور تکنیکوں تک رسائی حاصل نہ کر سکیں۔ انگریزی پڑھنا اور انگریزی کے ذریعے سے پڑھنا دو بالکل الگ الگ باتیں ہیں۔ انہیں خلط ملط نہیں کرنا چاہئے۔