سردار عبدالقیوم کہتے ہیں: تنازعہ کشمیر کے حوالے سے مشرف فارمولا پر پیش رفت ہو رہی ہے۔
انٹرا کشمیر ڈائیلاگ ناگزیر ہے‘ مجید نظامی کا وجود کشمیر اور پاکستان کیلئے غنیمت ہے۔ سردار صاحب نے اگرچہ گولی غلط سمت میں چلائی تھی‘ تاہم ان کا یہ بیان صراط مستقیم پرگامزن ہے اور اس پر توجہ دینا چاہیے۔ وہ سچ کہتے ہیں کہ کشمیر کے حوالے سے مشرف فارمولا پر عمل کیا جا رہا ہے‘ جوکہ مسئلہ کشمیر پر قومی موقف کے بالکل برعکس ہے۔ یہ بات بھی صحیح ہے کہ انٹرا کشمیر ڈائیلاگ ضروری ہے کیونکہ جو مدعی ہیں‘ اگر وہ ہی شامل نہ ہوں‘ تو مقدمہ کمزور ہی رہے گا۔ انہوں نے نصف صدی کے مدیر صحافی مجید نظامی کے وجود کو کشمیر اور پاکستان کیلئے غنیمت قرار دیا ہے‘ انکا یہ اعتراف خود کشمیری لیڈرز کےلئے عبرت کا باعث ہے‘ بشرطیکہ وہ یہ محسوس کریں کہ نظامی صاحب نے 50 سالہ ادارت میں نوائے وقت کو جتنا زیادہ کشمیر کیلئے استعمال کیا‘ کسی اور مسئلے کیلئے نہیں کیا بلکہ انہوں نے باور کرایا ہے کہ جب تک مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کےمطابق حل نہیں کیا جاتا‘ پاکستان جہاد کشمیر کی طرف بڑھتا جائیگا۔ حکمران ان سے متفق نہیں جو کہ بین دلیل ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کے بارے میں کتنے متفکر ہیں کیونکہ وہ شہ رگ کی اہمیت سے واقف ہیں۔ اللہ ان کو سلامت رکھے تاکہ وہ اپنی آنکھوں سے مقبوضہ کشمیر کو آزاد دیکھیں۔ نوائے وقت اگرچہ کئی دوسرے قومی مسائل کا نقیب رہا ہے‘ لیکن کشمیر سے متعلق نظامی صاحب کی تشویش ہماری فوج‘ سویلین‘ حکومت اور قوم کیلئے گجر ہے جو جگا کر چھوڑے گی۔ مشرف کے پیروکاروں کو کشمیر پر قومی موقف ہی کو ترجیح دینی چاہیے‘ ایک رند قدح خوار کے نقوش قدم مٹا دیئے جائیں۔
٭....٭....٭....٭
پرویز رشید نے کہا ہے: رحمان ملک‘ بابر اعوان کے نقش قدم پر چل رہے ہیں‘ دعا ہے انجام ان جیسا نہ ہو۔
بابر اعوان کے ساتھ جو کچھ انکے اپنوں اور دوسروں کے ہاتھوں ہوا ہے‘ وہ کسی دشمن کے ساتھ بھی نہ ہو۔ آخر ستارہ گردش میں ہے تو رہے‘ ان کو گردش میں کیوں لا رکھا ہے؟ وہ خواجہ غریب نواز تک گوہر مراد پانے کیلئے دوڑے مگر....
میں پا شکستہ جا نہ سکا قافلے تلک
آتی اگرچہ دیر صدائے جرس رہی
رحمان ملک کسی کے پیچھے نہیں چلتے اگر اتنا کرلیتے تو یوں نادان ملک تو نہ معروف ہوتے۔ وہ کسی کے پیچھے نہیں‘ بس ایک ہستی کے آگے آگے چلتے ہیں اور اس چھانٹے کو بھی نازک کمریا پر سہ لیتے ہیں‘ جو کبھی کبھی ان پری وشوں کے خیال میں گم ہو جانے کے باعث آہستہ دوڑنے کے سبب کھانا پڑتا ہے جن کے ناموں میں ”ش“ کا حرف کہیں نہ کہیں ضرور آتا ہے۔ آخر وہ بھی انسان ہیں اور ابھی تک فٹ ہیں کیوں نہ ان گلوں کی تمنا کریں جو اونچے ایوانوں کے گلدستوں میں سجے ہیں۔ پرویز رشید بھی اگرچہ اپنی جماعت کے عقل کل ہیں اسلئے انکے پروگرام بھی چنداں ان پروگراموں سے مختلف نہیں ہوتے جو حزب اقتدار کے ہوتے ہیں۔ تاہم وہ بابر اعوان کے انجام سے اپنی جگہ یوں ڈرسے گئے ہیں کیونکہ جب کوئی کسی شخص سے بار بار پوچھے‘ آپکو بھوک تو نہیں لگی تو دراصل وہ خود کئی دنوں کا بھوکا ہوتا ہے۔ بابر اصل میں ظہیرالدین بابر ہیں‘ وہ کوشش تو کر رہے کہ ہو اخواہانِ ہند پر کہیں سے حملہ آور ہو کر کچھ نہ کچھ فتح کرلیں لیکن شاید ابھی کچھ دیر ہے‘ اتنے اچھے پڑھے لکھے کا انجام دیکھ کر یاد آیا....
دم لیا تھا نہ قیامت نے ہنوز
پھر ترا وقتِ سفر یاد آیا
٭....٭....٭....٭
عمران خان نے الارم کیا ہے: ہمارا سونامی رکا نہیں‘ سول نافرمانی تحریک کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔
برطانیہ کی رخصتی کے پیچھے بھی اکثر و بیشتر سول نافرمانی کی تحریک تھی جس سے تنگ آکر اسے ہندوستان چھوڑنا پڑا۔ مگر خان صاحب پہلے اس تاریخی سول نافرمانی کا مطالعہ عذر کے افسانے منگوا کر کرلیں تاکہ ان کو معلوم ہو کہ سول نافرمانی کی قیادت کرنےوالوں کو توپوں کے دہانے سے باندھا گیا۔ کالا پانی بھیجا گیا‘ لیکن وہ تحریک اور زور پکڑتی گئی کیونکہ قربانی تحریکوں کو مہمیز کرتی ہے۔ ایک قربانی تو اپنے لئے ہی سہی‘ انہوں نے بھی دی ہے اور اسکے بعد ہی وہ سیاست کی منجدھار میں اترے ہیں‘ تو ضرور کچھ کرکے ہی اٹھیں گے یا پیچھے ہٹیں گے۔ بہرصورت وہ مرغ دست آموز بھی نہیں اور آزمودہ بھی نہیں۔ بریندا نیو سیاسی لیڈر ہیں‘ انکا پروگرام بھی عوام کو درپیش کرنٹ مسائل پر مشتمل ہے‘ اس لئے لوگ باگ انکے بارے میں استخارہ کرلیں اور اشارہ مل جائے تو آگے بڑھیں۔ ایک دو جلسوں سے تو لگا تھا کہ جیسے سونامی آگیا ہے‘ لیکن اسکے بعد کچھ نظر نہیں آیا جو قابل توجہ یا پریشان کن ہو۔ وہ عوامی رابطے زندہ رکھیں‘ لوگوں کو قائل کریں اور تاریخی جلسوں کی قطار لگا دیں اور اتنی دیر نہ لگائیں کہ انہیں کہنا پڑے....
آہی جاتا وہ راہ پر غالب
کاش کوئی دن اور بھی جئے ہوتے
٭....٭....٭....٭
قومی توانائی کانفرنس میں اعلان کیا گیا کہ صوبوں میں مساوی لوڈشیڈنگ ہو گی۔ ہفتے میں دو چھٹیاں ہونگی‘ قربایناں سب کو دینا ہونگی۔ یوں لگتا ہے کہ بکرا عید کا سماں ہے‘ لوگ بکروں کی جگہ قطاروں میں کھڑے ہیں اور قصائی حکمران چھریاں تیز کرکے تیار کھڑے ہیں۔ ملک کی تنزلی اور اپنی ترقی کیلئے باری باری انسانی بکروں کو ذبح کرتے جا رہے ہیں۔ ابھی مزید قربانیاں مانگ رہے ہیں کیونکہ 2013ءمیں کچھ عرصہ باقی ہے‘ بکروں میں اتنی جرا¿ت نہیں کہ منظر الٹ دیں اور ہمیشہ کیلئے یہ ملک عوام کشی سے نجات پا جائے۔ توانائی کانفرنس تھی تو توانائی پیدا کرنے کا کوئی منصوبہ طے کرنا چاہیے تھا اور ہمت مردانہ سے کام لیتے ہوئے کالاباغ ڈیم کی تعمیر کا اعلان کیا جاتا‘ صوبے اپنے طور پر مقامی وسائل سے تیل کے بغیر بجلی پیدا کرنے کی منصوبہ بندی کرتے مگر ہوا کیا کہ دو دن کیلئے قوم کو عضو معطل بنادیا گیا۔ یہ ہے بجلی پیدا کرنے کا وزیراعظم فارمولا۔ چونکہ پاکستان نے بہت زیادہ ترقی کرلی ہے‘ اسی لئے اب قوم دو چھٹیاں کرلے اور بھوکی مرے۔ بجلی کا بحران کیوں پیدا ہوا‘ اس پر سے غلاف نہیں اٹھایا گیا اگر قارئین کو شوق ہو تو شوکت ترین جیسے دیانتدار محب وطن پاکستانی سے تفصیلاتِ بربادی معلوم کرلیں کیونکہ وہ دستیاب ہیں‘ باہر بھی نہیں جا سکتے کہ دیانتدار وزیر ہونے اور گھپلوں سے روکنے کی سزا کے طور پر انکا نام ای سی ایل ان دو کرپٹ افراد کےساتھ ہی شامل کر دیا گیا جنہوں نے اس ملک میں کمائی کیلئے لوڈشیڈنگ تخلیق کی۔ ایک راجہ پرویز اشرف ہیں‘ دوسرے شاہد رفیع جیسے عظیم بیوروکریٹ۔
انٹرا کشمیر ڈائیلاگ ناگزیر ہے‘ مجید نظامی کا وجود کشمیر اور پاکستان کیلئے غنیمت ہے۔ سردار صاحب نے اگرچہ گولی غلط سمت میں چلائی تھی‘ تاہم ان کا یہ بیان صراط مستقیم پرگامزن ہے اور اس پر توجہ دینا چاہیے۔ وہ سچ کہتے ہیں کہ کشمیر کے حوالے سے مشرف فارمولا پر عمل کیا جا رہا ہے‘ جوکہ مسئلہ کشمیر پر قومی موقف کے بالکل برعکس ہے۔ یہ بات بھی صحیح ہے کہ انٹرا کشمیر ڈائیلاگ ضروری ہے کیونکہ جو مدعی ہیں‘ اگر وہ ہی شامل نہ ہوں‘ تو مقدمہ کمزور ہی رہے گا۔ انہوں نے نصف صدی کے مدیر صحافی مجید نظامی کے وجود کو کشمیر اور پاکستان کیلئے غنیمت قرار دیا ہے‘ انکا یہ اعتراف خود کشمیری لیڈرز کےلئے عبرت کا باعث ہے‘ بشرطیکہ وہ یہ محسوس کریں کہ نظامی صاحب نے 50 سالہ ادارت میں نوائے وقت کو جتنا زیادہ کشمیر کیلئے استعمال کیا‘ کسی اور مسئلے کیلئے نہیں کیا بلکہ انہوں نے باور کرایا ہے کہ جب تک مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کےمطابق حل نہیں کیا جاتا‘ پاکستان جہاد کشمیر کی طرف بڑھتا جائیگا۔ حکمران ان سے متفق نہیں جو کہ بین دلیل ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کے بارے میں کتنے متفکر ہیں کیونکہ وہ شہ رگ کی اہمیت سے واقف ہیں۔ اللہ ان کو سلامت رکھے تاکہ وہ اپنی آنکھوں سے مقبوضہ کشمیر کو آزاد دیکھیں۔ نوائے وقت اگرچہ کئی دوسرے قومی مسائل کا نقیب رہا ہے‘ لیکن کشمیر سے متعلق نظامی صاحب کی تشویش ہماری فوج‘ سویلین‘ حکومت اور قوم کیلئے گجر ہے جو جگا کر چھوڑے گی۔ مشرف کے پیروکاروں کو کشمیر پر قومی موقف ہی کو ترجیح دینی چاہیے‘ ایک رند قدح خوار کے نقوش قدم مٹا دیئے جائیں۔
٭....٭....٭....٭
پرویز رشید نے کہا ہے: رحمان ملک‘ بابر اعوان کے نقش قدم پر چل رہے ہیں‘ دعا ہے انجام ان جیسا نہ ہو۔
بابر اعوان کے ساتھ جو کچھ انکے اپنوں اور دوسروں کے ہاتھوں ہوا ہے‘ وہ کسی دشمن کے ساتھ بھی نہ ہو۔ آخر ستارہ گردش میں ہے تو رہے‘ ان کو گردش میں کیوں لا رکھا ہے؟ وہ خواجہ غریب نواز تک گوہر مراد پانے کیلئے دوڑے مگر....
میں پا شکستہ جا نہ سکا قافلے تلک
آتی اگرچہ دیر صدائے جرس رہی
رحمان ملک کسی کے پیچھے نہیں چلتے اگر اتنا کرلیتے تو یوں نادان ملک تو نہ معروف ہوتے۔ وہ کسی کے پیچھے نہیں‘ بس ایک ہستی کے آگے آگے چلتے ہیں اور اس چھانٹے کو بھی نازک کمریا پر سہ لیتے ہیں‘ جو کبھی کبھی ان پری وشوں کے خیال میں گم ہو جانے کے باعث آہستہ دوڑنے کے سبب کھانا پڑتا ہے جن کے ناموں میں ”ش“ کا حرف کہیں نہ کہیں ضرور آتا ہے۔ آخر وہ بھی انسان ہیں اور ابھی تک فٹ ہیں کیوں نہ ان گلوں کی تمنا کریں جو اونچے ایوانوں کے گلدستوں میں سجے ہیں۔ پرویز رشید بھی اگرچہ اپنی جماعت کے عقل کل ہیں اسلئے انکے پروگرام بھی چنداں ان پروگراموں سے مختلف نہیں ہوتے جو حزب اقتدار کے ہوتے ہیں۔ تاہم وہ بابر اعوان کے انجام سے اپنی جگہ یوں ڈرسے گئے ہیں کیونکہ جب کوئی کسی شخص سے بار بار پوچھے‘ آپکو بھوک تو نہیں لگی تو دراصل وہ خود کئی دنوں کا بھوکا ہوتا ہے۔ بابر اصل میں ظہیرالدین بابر ہیں‘ وہ کوشش تو کر رہے کہ ہو اخواہانِ ہند پر کہیں سے حملہ آور ہو کر کچھ نہ کچھ فتح کرلیں لیکن شاید ابھی کچھ دیر ہے‘ اتنے اچھے پڑھے لکھے کا انجام دیکھ کر یاد آیا....
دم لیا تھا نہ قیامت نے ہنوز
پھر ترا وقتِ سفر یاد آیا
٭....٭....٭....٭
عمران خان نے الارم کیا ہے: ہمارا سونامی رکا نہیں‘ سول نافرمانی تحریک کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔
برطانیہ کی رخصتی کے پیچھے بھی اکثر و بیشتر سول نافرمانی کی تحریک تھی جس سے تنگ آکر اسے ہندوستان چھوڑنا پڑا۔ مگر خان صاحب پہلے اس تاریخی سول نافرمانی کا مطالعہ عذر کے افسانے منگوا کر کرلیں تاکہ ان کو معلوم ہو کہ سول نافرمانی کی قیادت کرنےوالوں کو توپوں کے دہانے سے باندھا گیا۔ کالا پانی بھیجا گیا‘ لیکن وہ تحریک اور زور پکڑتی گئی کیونکہ قربانی تحریکوں کو مہمیز کرتی ہے۔ ایک قربانی تو اپنے لئے ہی سہی‘ انہوں نے بھی دی ہے اور اسکے بعد ہی وہ سیاست کی منجدھار میں اترے ہیں‘ تو ضرور کچھ کرکے ہی اٹھیں گے یا پیچھے ہٹیں گے۔ بہرصورت وہ مرغ دست آموز بھی نہیں اور آزمودہ بھی نہیں۔ بریندا نیو سیاسی لیڈر ہیں‘ انکا پروگرام بھی عوام کو درپیش کرنٹ مسائل پر مشتمل ہے‘ اس لئے لوگ باگ انکے بارے میں استخارہ کرلیں اور اشارہ مل جائے تو آگے بڑھیں۔ ایک دو جلسوں سے تو لگا تھا کہ جیسے سونامی آگیا ہے‘ لیکن اسکے بعد کچھ نظر نہیں آیا جو قابل توجہ یا پریشان کن ہو۔ وہ عوامی رابطے زندہ رکھیں‘ لوگوں کو قائل کریں اور تاریخی جلسوں کی قطار لگا دیں اور اتنی دیر نہ لگائیں کہ انہیں کہنا پڑے....
آہی جاتا وہ راہ پر غالب
کاش کوئی دن اور بھی جئے ہوتے
٭....٭....٭....٭
قومی توانائی کانفرنس میں اعلان کیا گیا کہ صوبوں میں مساوی لوڈشیڈنگ ہو گی۔ ہفتے میں دو چھٹیاں ہونگی‘ قربایناں سب کو دینا ہونگی۔ یوں لگتا ہے کہ بکرا عید کا سماں ہے‘ لوگ بکروں کی جگہ قطاروں میں کھڑے ہیں اور قصائی حکمران چھریاں تیز کرکے تیار کھڑے ہیں۔ ملک کی تنزلی اور اپنی ترقی کیلئے باری باری انسانی بکروں کو ذبح کرتے جا رہے ہیں۔ ابھی مزید قربانیاں مانگ رہے ہیں کیونکہ 2013ءمیں کچھ عرصہ باقی ہے‘ بکروں میں اتنی جرا¿ت نہیں کہ منظر الٹ دیں اور ہمیشہ کیلئے یہ ملک عوام کشی سے نجات پا جائے۔ توانائی کانفرنس تھی تو توانائی پیدا کرنے کا کوئی منصوبہ طے کرنا چاہیے تھا اور ہمت مردانہ سے کام لیتے ہوئے کالاباغ ڈیم کی تعمیر کا اعلان کیا جاتا‘ صوبے اپنے طور پر مقامی وسائل سے تیل کے بغیر بجلی پیدا کرنے کی منصوبہ بندی کرتے مگر ہوا کیا کہ دو دن کیلئے قوم کو عضو معطل بنادیا گیا۔ یہ ہے بجلی پیدا کرنے کا وزیراعظم فارمولا۔ چونکہ پاکستان نے بہت زیادہ ترقی کرلی ہے‘ اسی لئے اب قوم دو چھٹیاں کرلے اور بھوکی مرے۔ بجلی کا بحران کیوں پیدا ہوا‘ اس پر سے غلاف نہیں اٹھایا گیا اگر قارئین کو شوق ہو تو شوکت ترین جیسے دیانتدار محب وطن پاکستانی سے تفصیلاتِ بربادی معلوم کرلیں کیونکہ وہ دستیاب ہیں‘ باہر بھی نہیں جا سکتے کہ دیانتدار وزیر ہونے اور گھپلوں سے روکنے کی سزا کے طور پر انکا نام ای سی ایل ان دو کرپٹ افراد کےساتھ ہی شامل کر دیا گیا جنہوں نے اس ملک میں کمائی کیلئے لوڈشیڈنگ تخلیق کی۔ ایک راجہ پرویز اشرف ہیں‘ دوسرے شاہد رفیع جیسے عظیم بیوروکریٹ۔