امریکی ہدایت اور خواہش پر اجمیر شریف پر حاضری دورے کا ماحصل بھارتیوں کے کھلکھلاتے چہرے اور خندہ جبینوں پر عیاں ہے!پاکستان کو لاحق سب سے بڑی بیماری ہمارے حکمرانوں کی اپنے بدترین دشمنوں کے قدموں میں رینگ کر دوستی کرنے کا رجحان ہے۔ زراری بھارت جائیں اور چُرائے ہوئے پانی اور ہمیں پیاسا سسکا کر مار ڈالنے والے ڈیموں پر تو حرف شکایت بھی زبان پر نہ آئے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کےمطابق مسئلہ کشمیر کے حل کا تذکرہ بھی نہ ہو بلکہ قراردادوں کو بائی پاس کر کے امریکہ اور بھارت کے ایجنڈوں کی پس پردہ تائید ہو جائے تو یہ کامیابی کس کی ہے؟ من موہن سنگھ کا یکایک من موہ لیا گیا کس گیڈر سنگھی سے؟ وہ جو اکڑے بیٹھے تھے یکایک موم ملائم ہو گئے؟
ڈیموں اور کشمیر کے علی الرغم دوستی اور تجارت کے سارے راستے ہموار اور کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ! سیاچن کے حادثے کے بعد ذہن سازی ہو رہی ہے کہ یہ محاذ ہمیں بہت مہنگا پڑ رہا ہے۔ مالی اور جانی قربانیوں کے حوالے سے لوہا گرم ہے لہٰذا موقع غنیمت جان کر حسب سابق جھک کریکطرفہ فوجیں واپس نکالنے کا راستہ ہموار کرنے کا امکان موجود ہے۔ فیلرز (Feelers) چھوڑے جا رہے ہیں۔
سیاچن مسئلہ کشمیر کا حصہ ہے دوستانہ مراسم کی بات کرتے افہام و تفہیم و مذاکرات کے ذریعے ان مسائل کو حل کرنے میں جلد بازی اور قومی مفادات امریکہ بھارت کی نذر کر دینے کی کوئی گنجائش نہیں۔ امریکہ دل وجان سے یہ چاہے گا کہ فوج کا یہ حصہ سیاچن سے نکال کر ہم امریکہ کی خاطر اسکے پسندیدہ محاذوں پر قبائل میں یا بھلے جنوبی پنجاب ہی میں جھونک دیں۔ یاد رکھئے سیاچن اس وقت وہ واحد محاذ ہے جس پر ایک فوجی کفر کے مقابل جان ہتھیلی پر لئے کھڑا ہوتا ہے۔ وہ اللہ کیلئے خالص ہو تو شہادت کا راستہ ہے ورنہ امریکہ کےلئے جان گنوا کر برسرزمین ڈالر تو مل سکتے ہیں آخرت کی راہیں مسدود ہو جاتی ہیں۔ سیاچن (گیاری) پر امریکہ کی مدد ؟ امر یکی ماہرین قبل ازیں زلزلے میں بھی مدد دینے آئے تھے اور اسکی آڑ میں سروے، تصویر کشی اور جاسوسی فرماتے رہے۔ ان کا شر انکے خیر پر غالب تر ہے۔ سیاچن تو نہایت حساس علاقہ اور امریکی مفادات کے اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے۔ لہذا امر یکہ نیٹو اپنے اتحاد کی مدد کو جو آئینگے تو ہم دودھ کے جلے چھاچھ پھونک پھونک کر ہی پینے کا حق رکھتے ہیں۔ امریکی سفارتخانے کا یہ فرمانا کہ ہم اپنے اتحادی کی ہر مشکل میں مدد کیلئے تیار کھڑے ہیں، ہم بخوبی سمجھتے ہیں۔ انکی محبت بھری دوستی ریمنڈ ڈیوس، عافیہ، سلالہ، ایبٹ آباد کی صورت ہم کیسے فراموش کر سکتے ہیں! مشکلات اور آزمائشوں سے ہم زلزلے میں بخوبی عہدہ برا ہو گئے تھے اپنی مدد آپ اور اللہ سے مدد مانگ کر اور استغفار کی بنیاد پر وہ تمام امریکی امداد سے بالا تر ذرائع آج بھی میسرہیں بحمدللہ! زرداری صاحب، وزیراعظم کی مانند (جنہوں نے حا لیہ دورہ افغانستان میں امداد بانٹی تھی) اجمیر شریف میں عوام کی دکان سے دادا جی کی فاتحہ کی مد میں 10لاکھ ڈالر کی امداد کا نذرانہ فرما آئے ہیں‘ نہ گیلانی صاحب نے حج اکاﺅنٹ (عبدالقادر گیلانی والا) سے وہ رقم دی نہ زرداری صاحب نے اپنی حکومت کے استحکام کی خاطر سوئس اکاﺅنٹ سے یہ نذرانہ دیا ڈاکہ عوام کی پھٹی جیب ہی پر پڑتا ہے!
امریکی ایجنڈے ایک طرف پاکستان کی خود مختاری سلامتی پر تیشہ چلانے کےلئے بروئے کار لائے جا رہے ہیں۔ دوسری طرف ہمارے معاشرتی نظام کو فساد کا شکار کرنے اور مضبوط خاندانی نظام کو کھوکھلا کرنے میں ہمہ تن مصروف ہے۔ تعلیمی نظام کے ذریعے بے جہتی میڈیا پر اخلاق باختگی کی تشہیر و ترویج کیا کم تھی کہ اب آوارگی بل پیش کر کے گھر کے سکون کو تہہ و بالا کرنے کا سامان کیا جا رہا ہے۔ گھریلو تشدد بل، کے بظاہر معصوم پردے میں خواتین اور بچوں کے تحفظ کی آڑ میں مادر پدر آزادی اور شتر بے مہار بے ہدف اخلاق باختہ نسلیں پروان چڑھانے کا سامان ہے۔ والدین یہ پوچھنے کا حق نہ رکھیں جوان بیٹے اور بیٹی سے کہ تم نے رات کہاں گزاری؟ موبائل اور ایس ایم ایس پیکجز ریوڑیوں کی طرح بانٹنے، ترغیبات دینے کہ بات کرو ساری رات بلاروک ٹوک اور داغ تو اچھے ہوتے ہیں، کے بعد اگلا فطری قدم یہی ہے کہ باقی روک ٹوک ختم کر دی جائے۔ خود انکے ہاں دامن ہی نہیں کہ داغدار ہو.... سو یہاں بھی اشتہار بازی کے ذریعے جین شرٹ کے ہاتھوں پہلے دامن کا دامن چھوڑ دیا پھر داغ کی قباحت مٹائی گئی۔ اگلا قدم ، گھریلو تشدد کی آڑ میں یہ اخلاق باختگی کا بل ہے جو منظور کروانے کی بے قراری کا یہ عالم ہے کہ بڑی اعلیٰ تعلیم یافتہ بیبیاں، بلا استحقاق پارلیمنٹ کے کمیٹی روم میں جا گھسیں۔ رزق روٹی امریکہ سے انہی کارکردگیوں سے نتھی ہے۔ یہ مٹھی بھر عیش وطرب میں ڈوبا خوشحال مغربی ایجنڈوں کی تکمیل پر مامور طبقہ ہے جو حقوق نسواں کی آڑ میں عورت سے اسکی عزت، وقار، تقدس تکریم چھین کر مغربی عورت کی طرح آزادی کی نیلم پری کے سہانے خواب دکھا دکھا کر سب کچھ لوٹ لینے کے درپے ہے۔شتر بے مہار آزادی، ذمہ داریوں سے فرار عیش کوشی کی دلدادہ عورت مغرب کی طرح ”مرد بے کار و زن تہی آغوش کی منزل کی طرف کھیلنے کو بے تاب ہے۔ یہ بل اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ مغربی مرد کی ہوسناکی اور آزادی کے نام پر استحصال کی ستائی عورت امریکہ اور یورپ میں جتنی تیزی سے اسلام کی طرف لپک رہی ہے اتنا ہی امریکہ یورپ وحشت زدہ ہوکر ہمارے ہاں عورت اور گھر تباہ کرنے کے درپے ہے اور یہ خواتین اسکی آلہ کار ہیں۔ رہی بات گھریلو تشد کی تو مولوی، یا اسلام اس کا ذمہ دار ہرگز نہیں۔ گھریلو تشدد ہمارے ہاں صرف دو دائروں میں پایا جاتا ہے۔ عورت کو ستی کرنےوالی یا ہندو معاشرت کے اسیر اسلام سے بے بہرہ مرد جو ایک طرف بسنت ہولی دیوالی منائینگے تو ہندو معاشرت کا مردانہ استبداد بھی لگے ہاتھوں آزما لیں گے یہ ایک مکمل پیکیج ہے۔
دوسری طرف جدید جاہلیت کے اسیر جو شراب کے نشے میں دھت ہو کر بیویوں کو دھنک ڈالتے ہیں۔ ان سب کا تریاق اللہ سے ڈرنے والے مومن و مسلم بن جانے میں ہے جسکے پیچھے نبوی تعلیم و تربیت، تہذیب و تاکید موجود ہے۔ محسن نسواں نبی، محمد کہ حضرت انسؓ آپ کی گھر کے دائرے میں نری محبت شفقت کمال مہربانی کے گواہ ہیں۔ آپ نے کبھی ڈانٹا ڈپٹا نہیں کبھی مارا نہیں، یہ تک نہ کہا کہ یہ کام کیوں کیا اور یہ کیوں نہ کیا! آپ کی آخری وصیتوں میں سے ایک عورت کےساتھ حسن سلوک کی وصیت ہے۔ نیز یہ کہ ”اے میرے اللہ! میں دو قسم کے لوگوں کے حق میں محترم قرار دیتا ہوں۔ یعنی یتیم اور بیوی کے حق میں“ (نسائی) عورت کے باب میں اسلام ایک شاندار اور لائق تقلید اسوہ رکھتا ہے۔ ہمیں اس بل کی ضرورت نہیں یہاں اگر کسی بدقماش کی پٹائی وہ بھی گئی تو گھر کی چار دیواری میں سگے شوہر کے ہاتھوں ہو گی۔ مغرب کی عورت تو اس معاملے میں محرومی (!) کی اس انتہا کو ہے کہ دن رات رنگ برنگے بوائے فرینڈز کے ہاتھوں پٹ پٹ کر نیلی ہوئی رہتی ہے اور لائق صد عبرت ہے وہ رپورٹ جو ہیرالڈ ، مارچ 2006ءصفحہ 84-87 میں دیکھی جا سکتی ہے‘ اس میں عبرت ناک کہانیاں سبینہ قاضی نے انٹرویو اور سروے کی بنیاد پر درج کی ہیں 2012 ءمیں ایسی کہانیاں مزید ترقی کے زینے طے کر چکی ہیں۔ یہ اسی مادر پدر آزاد مغربی تہذیب پر پلی بڑھی سول سوسائٹی این جی او برانڈ لڑکی کی ہے جو (Ties that Bind) کے عنوان کے تحت رپورٹ ہوئی یہ اپنے پارٹنرز اور بوائے فرینڈز کے ہاتھوں پٹتی ہیں اور دوستی قائم رکھنے پر بھی خود کو مجبور پاتی ہیں کہ کہیں بدنام نہ ہو جائیں ۔ اس غیر گھریلو تشدد (جو بل پاس ہونے سے مزید بڑھ جائےگا) کا شکار17 سالہ آمنہ ہے جو آٹھ ماہ کی دوستی کو پکا کرنے کیلئے انگوٹھی ملنے، محبت پکی، (منگنی نہیں) ہونے کا ثبوت لینے کیلئے ڈنر پر گئی۔ سول پارٹنر کےساتھ ڈنٹر پر بحث ہو گئی۔ بات بڑھتے بڑھتے آمنہ کو گربیان سے پکڑ کر سر شیشے کی میز پر دے مارا اور وہ بے ہوش ہو گئی‘ جو زندگی کا بہترین دن ہونے کو تھا وہ چہرے (اور روح) پر کبھی نہ جانےوالے داغ دھبے چھوڑ گیا۔ (مگر داغ تو اچھے ہوتے ہیں!) دوست میاں مزے سے گھومتے پھر رہے ہیں اور آمنہ پڑھائی چھوڑ بیٹھی، زندگی سے دلچسپی ختم ہو گئی لہٰذاان کےلئے تو غیر گھریلو تشدد بل پاس کرنا اہم تر ہو گا۔(یہ تو صرف دیگ کا ایک دانہ ہے) پاکستانی عورت ان سے دست بستہ یہی کہہ سکتی ہے۔ بخشو بی بلی! ہمیں باپ بھائی شوہر کے معزز و مکرم حصار میں سکنت سے زندگی گزارنے دو اپنے ایجنڈے ہم پر مسلط نہ کرو۔
ہو فکر اگر خام تو آزادی¿ افکار
انسان کو حیوان بنانے کا طریقہ!
ڈیموں اور کشمیر کے علی الرغم دوستی اور تجارت کے سارے راستے ہموار اور کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ! سیاچن کے حادثے کے بعد ذہن سازی ہو رہی ہے کہ یہ محاذ ہمیں بہت مہنگا پڑ رہا ہے۔ مالی اور جانی قربانیوں کے حوالے سے لوہا گرم ہے لہٰذا موقع غنیمت جان کر حسب سابق جھک کریکطرفہ فوجیں واپس نکالنے کا راستہ ہموار کرنے کا امکان موجود ہے۔ فیلرز (Feelers) چھوڑے جا رہے ہیں۔
سیاچن مسئلہ کشمیر کا حصہ ہے دوستانہ مراسم کی بات کرتے افہام و تفہیم و مذاکرات کے ذریعے ان مسائل کو حل کرنے میں جلد بازی اور قومی مفادات امریکہ بھارت کی نذر کر دینے کی کوئی گنجائش نہیں۔ امریکہ دل وجان سے یہ چاہے گا کہ فوج کا یہ حصہ سیاچن سے نکال کر ہم امریکہ کی خاطر اسکے پسندیدہ محاذوں پر قبائل میں یا بھلے جنوبی پنجاب ہی میں جھونک دیں۔ یاد رکھئے سیاچن اس وقت وہ واحد محاذ ہے جس پر ایک فوجی کفر کے مقابل جان ہتھیلی پر لئے کھڑا ہوتا ہے۔ وہ اللہ کیلئے خالص ہو تو شہادت کا راستہ ہے ورنہ امریکہ کےلئے جان گنوا کر برسرزمین ڈالر تو مل سکتے ہیں آخرت کی راہیں مسدود ہو جاتی ہیں۔ سیاچن (گیاری) پر امریکہ کی مدد ؟ امر یکی ماہرین قبل ازیں زلزلے میں بھی مدد دینے آئے تھے اور اسکی آڑ میں سروے، تصویر کشی اور جاسوسی فرماتے رہے۔ ان کا شر انکے خیر پر غالب تر ہے۔ سیاچن تو نہایت حساس علاقہ اور امریکی مفادات کے اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے۔ لہذا امر یکہ نیٹو اپنے اتحاد کی مدد کو جو آئینگے تو ہم دودھ کے جلے چھاچھ پھونک پھونک کر ہی پینے کا حق رکھتے ہیں۔ امریکی سفارتخانے کا یہ فرمانا کہ ہم اپنے اتحادی کی ہر مشکل میں مدد کیلئے تیار کھڑے ہیں، ہم بخوبی سمجھتے ہیں۔ انکی محبت بھری دوستی ریمنڈ ڈیوس، عافیہ، سلالہ، ایبٹ آباد کی صورت ہم کیسے فراموش کر سکتے ہیں! مشکلات اور آزمائشوں سے ہم زلزلے میں بخوبی عہدہ برا ہو گئے تھے اپنی مدد آپ اور اللہ سے مدد مانگ کر اور استغفار کی بنیاد پر وہ تمام امریکی امداد سے بالا تر ذرائع آج بھی میسرہیں بحمدللہ! زرداری صاحب، وزیراعظم کی مانند (جنہوں نے حا لیہ دورہ افغانستان میں امداد بانٹی تھی) اجمیر شریف میں عوام کی دکان سے دادا جی کی فاتحہ کی مد میں 10لاکھ ڈالر کی امداد کا نذرانہ فرما آئے ہیں‘ نہ گیلانی صاحب نے حج اکاﺅنٹ (عبدالقادر گیلانی والا) سے وہ رقم دی نہ زرداری صاحب نے اپنی حکومت کے استحکام کی خاطر سوئس اکاﺅنٹ سے یہ نذرانہ دیا ڈاکہ عوام کی پھٹی جیب ہی پر پڑتا ہے!
امریکی ایجنڈے ایک طرف پاکستان کی خود مختاری سلامتی پر تیشہ چلانے کےلئے بروئے کار لائے جا رہے ہیں۔ دوسری طرف ہمارے معاشرتی نظام کو فساد کا شکار کرنے اور مضبوط خاندانی نظام کو کھوکھلا کرنے میں ہمہ تن مصروف ہے۔ تعلیمی نظام کے ذریعے بے جہتی میڈیا پر اخلاق باختگی کی تشہیر و ترویج کیا کم تھی کہ اب آوارگی بل پیش کر کے گھر کے سکون کو تہہ و بالا کرنے کا سامان کیا جا رہا ہے۔ گھریلو تشدد بل، کے بظاہر معصوم پردے میں خواتین اور بچوں کے تحفظ کی آڑ میں مادر پدر آزادی اور شتر بے مہار بے ہدف اخلاق باختہ نسلیں پروان چڑھانے کا سامان ہے۔ والدین یہ پوچھنے کا حق نہ رکھیں جوان بیٹے اور بیٹی سے کہ تم نے رات کہاں گزاری؟ موبائل اور ایس ایم ایس پیکجز ریوڑیوں کی طرح بانٹنے، ترغیبات دینے کہ بات کرو ساری رات بلاروک ٹوک اور داغ تو اچھے ہوتے ہیں، کے بعد اگلا فطری قدم یہی ہے کہ باقی روک ٹوک ختم کر دی جائے۔ خود انکے ہاں دامن ہی نہیں کہ داغدار ہو.... سو یہاں بھی اشتہار بازی کے ذریعے جین شرٹ کے ہاتھوں پہلے دامن کا دامن چھوڑ دیا پھر داغ کی قباحت مٹائی گئی۔ اگلا قدم ، گھریلو تشدد کی آڑ میں یہ اخلاق باختگی کا بل ہے جو منظور کروانے کی بے قراری کا یہ عالم ہے کہ بڑی اعلیٰ تعلیم یافتہ بیبیاں، بلا استحقاق پارلیمنٹ کے کمیٹی روم میں جا گھسیں۔ رزق روٹی امریکہ سے انہی کارکردگیوں سے نتھی ہے۔ یہ مٹھی بھر عیش وطرب میں ڈوبا خوشحال مغربی ایجنڈوں کی تکمیل پر مامور طبقہ ہے جو حقوق نسواں کی آڑ میں عورت سے اسکی عزت، وقار، تقدس تکریم چھین کر مغربی عورت کی طرح آزادی کی نیلم پری کے سہانے خواب دکھا دکھا کر سب کچھ لوٹ لینے کے درپے ہے۔شتر بے مہار آزادی، ذمہ داریوں سے فرار عیش کوشی کی دلدادہ عورت مغرب کی طرح ”مرد بے کار و زن تہی آغوش کی منزل کی طرف کھیلنے کو بے تاب ہے۔ یہ بل اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ مغربی مرد کی ہوسناکی اور آزادی کے نام پر استحصال کی ستائی عورت امریکہ اور یورپ میں جتنی تیزی سے اسلام کی طرف لپک رہی ہے اتنا ہی امریکہ یورپ وحشت زدہ ہوکر ہمارے ہاں عورت اور گھر تباہ کرنے کے درپے ہے اور یہ خواتین اسکی آلہ کار ہیں۔ رہی بات گھریلو تشد کی تو مولوی، یا اسلام اس کا ذمہ دار ہرگز نہیں۔ گھریلو تشدد ہمارے ہاں صرف دو دائروں میں پایا جاتا ہے۔ عورت کو ستی کرنےوالی یا ہندو معاشرت کے اسیر اسلام سے بے بہرہ مرد جو ایک طرف بسنت ہولی دیوالی منائینگے تو ہندو معاشرت کا مردانہ استبداد بھی لگے ہاتھوں آزما لیں گے یہ ایک مکمل پیکیج ہے۔
دوسری طرف جدید جاہلیت کے اسیر جو شراب کے نشے میں دھت ہو کر بیویوں کو دھنک ڈالتے ہیں۔ ان سب کا تریاق اللہ سے ڈرنے والے مومن و مسلم بن جانے میں ہے جسکے پیچھے نبوی تعلیم و تربیت، تہذیب و تاکید موجود ہے۔ محسن نسواں نبی، محمد کہ حضرت انسؓ آپ کی گھر کے دائرے میں نری محبت شفقت کمال مہربانی کے گواہ ہیں۔ آپ نے کبھی ڈانٹا ڈپٹا نہیں کبھی مارا نہیں، یہ تک نہ کہا کہ یہ کام کیوں کیا اور یہ کیوں نہ کیا! آپ کی آخری وصیتوں میں سے ایک عورت کےساتھ حسن سلوک کی وصیت ہے۔ نیز یہ کہ ”اے میرے اللہ! میں دو قسم کے لوگوں کے حق میں محترم قرار دیتا ہوں۔ یعنی یتیم اور بیوی کے حق میں“ (نسائی) عورت کے باب میں اسلام ایک شاندار اور لائق تقلید اسوہ رکھتا ہے۔ ہمیں اس بل کی ضرورت نہیں یہاں اگر کسی بدقماش کی پٹائی وہ بھی گئی تو گھر کی چار دیواری میں سگے شوہر کے ہاتھوں ہو گی۔ مغرب کی عورت تو اس معاملے میں محرومی (!) کی اس انتہا کو ہے کہ دن رات رنگ برنگے بوائے فرینڈز کے ہاتھوں پٹ پٹ کر نیلی ہوئی رہتی ہے اور لائق صد عبرت ہے وہ رپورٹ جو ہیرالڈ ، مارچ 2006ءصفحہ 84-87 میں دیکھی جا سکتی ہے‘ اس میں عبرت ناک کہانیاں سبینہ قاضی نے انٹرویو اور سروے کی بنیاد پر درج کی ہیں 2012 ءمیں ایسی کہانیاں مزید ترقی کے زینے طے کر چکی ہیں۔ یہ اسی مادر پدر آزاد مغربی تہذیب پر پلی بڑھی سول سوسائٹی این جی او برانڈ لڑکی کی ہے جو (Ties that Bind) کے عنوان کے تحت رپورٹ ہوئی یہ اپنے پارٹنرز اور بوائے فرینڈز کے ہاتھوں پٹتی ہیں اور دوستی قائم رکھنے پر بھی خود کو مجبور پاتی ہیں کہ کہیں بدنام نہ ہو جائیں ۔ اس غیر گھریلو تشدد (جو بل پاس ہونے سے مزید بڑھ جائےگا) کا شکار17 سالہ آمنہ ہے جو آٹھ ماہ کی دوستی کو پکا کرنے کیلئے انگوٹھی ملنے، محبت پکی، (منگنی نہیں) ہونے کا ثبوت لینے کیلئے ڈنر پر گئی۔ سول پارٹنر کےساتھ ڈنٹر پر بحث ہو گئی۔ بات بڑھتے بڑھتے آمنہ کو گربیان سے پکڑ کر سر شیشے کی میز پر دے مارا اور وہ بے ہوش ہو گئی‘ جو زندگی کا بہترین دن ہونے کو تھا وہ چہرے (اور روح) پر کبھی نہ جانےوالے داغ دھبے چھوڑ گیا۔ (مگر داغ تو اچھے ہوتے ہیں!) دوست میاں مزے سے گھومتے پھر رہے ہیں اور آمنہ پڑھائی چھوڑ بیٹھی، زندگی سے دلچسپی ختم ہو گئی لہٰذاان کےلئے تو غیر گھریلو تشدد بل پاس کرنا اہم تر ہو گا۔(یہ تو صرف دیگ کا ایک دانہ ہے) پاکستانی عورت ان سے دست بستہ یہی کہہ سکتی ہے۔ بخشو بی بلی! ہمیں باپ بھائی شوہر کے معزز و مکرم حصار میں سکنت سے زندگی گزارنے دو اپنے ایجنڈے ہم پر مسلط نہ کرو۔
ہو فکر اگر خام تو آزادی¿ افکار
انسان کو حیوان بنانے کا طریقہ!