بابر اعوان کا رویہ ناقابل برداشت ہے وزارت قانون کے سینئر جوائنٹ سیکرٹری اکبر اچکزئی بھی مستعفی ہوگئے۔ اس سے پہلے اٹارنی جنرل وزیر قانون کے رویے کے خلاف استعفیٰ دے چکے ہیں۔
جب دوبندے لڑتے ہیں تو ان میں سے ضرور ایک حق پر اور ایک باطل پر ہوتا ہے اور جس آدمی کے ساتھ سبھی لڑنا شروع کردیں یا وہ سب کے ساتھ لڑنا شروع کردیں تو سمجھ لیں اس میں کوئی گڑ بڑ ہے بابر اعوان صاحب ظہیرالدین بابر بن چکے ہیں اور شاید انہوں نے پاکستان کو قدیم ہندوستان سمجھ کر اس پر حملہ کردیا ہے ذات کے اعوان ہیں اسی لئے حضرت علیؓ سے ان کو نسبت ہے اس لئے ان میں خیبر شکن کی طاقت بھی موجود مگر خدا جانے کہ ان کے رویے میں خیر شکنی کی بجائے دل شکنی کیوں پیدا ہوگئی ہے وہ قانون کے عالم ہیں اور بڑے اچھے مضمون نگار بھی ہیں گفتگو میں بھی ان کے منطق کا امتزاج ہوتا ہے مگر جب سے پیپلز پارٹی میں وزیر باتدبیر بنے ہیں ان کے تدبر کو ، رویے کو، حوصلے کو گھُن لگ گیا ہے سیکرٹری اچکزئی کا استعفیٰ اور اس سے پہلے اٹارنی جنرل کا استعفیٰ ان کے بہترین رویے کا ثبوت ہے بظاہر یہی لگتا ہے کہ دو بندوں کے استعفیٰ ان کیلئے عبرت ہونے چاہئیں اور اپنی شخصیت پر نظرثانی کریں کیونکہ پوری ذات خدا کی ہوتی ہے اور اپنا احتساب اپنے رویوں کی جانچ پڑتال بڑے انسانوں کا شیوہ ہوتی ہیں یہ نہ ہو کہ ان کے ماتحت ایک ایک کرکے یہ کہتے ہوئے رخصت ہوتے جائیں…؎
ہر ایک بات کہتے چلو تم کہ تو کیا ہے
تمہی کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے
٭…٭…٭…٭
خبر ہے کہ ثانیہ اور شعیب کی مہندی کی تیاریاں شروع ہوگئیں ہیں نکاح بھی ہوگیا ہے مہندی 13 اپریل کو ہوگی ثانیہ کے چچا گانا گائیں گے۔
خدا کا شکر ہے وبال ٹھاکرے کے وبال سے شعیب ثانیہ بال بال بچ گئے اور نکاح ہوگیا ہے تو سمجھ لو دو مضبوط رسّوں میں گانٹھ پڑ گئی ہے۔ اب ہندو انتہا پسند اپنا سامنہ لے کر رہ جائیں گے اور پاکستانی دلہنیا لے جائیں گے حیدر آباد دکن غلط تقسیم کے نتیجے میں بھارت میں شامل ہے ورنہ تو یہ پاکستان میں شامل ہوتا یہ ہندوستان میں اسلامی تہذیب، علم اور فلسفے کا گڑھ تھا نظام دکن نے اس کی ناقابل فراموش آبیاری کی ثانیہ کا خمیر دکن سے اٹھا ہے اور پاک سرزمین کی طرف رواں دواں ہے خبر میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مہندی کی رسم میں ثانیہ کے چچا بھی گانے گائیں گے ہمارے ہاں تو یہ مشہور ہے کہ مہندی تاں سج دی جے نچے منڈے دی ماں، ممکن ہے حیدر آباد دکن میں یہ رسم ہو کہ’’ مہندی تاں سج دی جے گائوے کڑی دا چاچا‘‘۔ ثانیہ شعیب کی شادی کو بھارت نے اتنا پیچیدہ اور مشکل بنا دیاتھا لیکن اس کے باوجود نکاح ہوگیا یہ اس بات کی علامت ہے کہ ذرا سا زور لگائیں تو کشمیر جنت نظیر کی ڈولی بھی پاکستان لائی جاسکتی ہے۔ ہندو طبعاً شرپسند بزدل کمینہ اور مکار ہے اس کے ہاتھوں میں اسلحہ نہیں سازش سجتی ہے جبکہ مسلمان نعرہ تکبیر سے ایٹم بم کا کام لیتا ہے۔ ثانیہ شعیب کی شادی خانہ آبادی پاک سرزمین پر دو ستاروں کا ملن ہے۔ جو اب ہو کے رہے گا ہم ان دونوں ستاروں کو چاند کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ وہ بھارت کی طرح عیاری و مکاری کا شکار نہ ہوگا۔
٭…٭…٭…٭
ڈاکٹر طارق شہاب نے کہا ہے ریما کے ساتھ شادی نہیں ہوئی تعلقات کو سکینڈل نہیں بنانا چاہئے۔
ڈاکٹر صاحب کو شاید یہ پتہ نہیں کہ تعلقات کیلئے شادی ضروری نہیں ہوتی اورسکینڈل اس کو کہتے ہیں اس لئے وہ ڈریں ناکہ جو ڈر گیا وہ مر گیا وہ ایک مذہبی گھرانے کے چشم و چراغ ہیں اگر وہ ایک ایکٹریس کو اپنا لیں اور اسے مسلمانوں کے طور طریق پر رواں دواں کر دیں تو ان کی طرف سے تبلیغ دین کا فریضہ بھی ادا ہو جائے گا اور ریما جیسی حسینہ بھی ہاتھ لگ جائے گی۔ اس میں کوئی قباحت نہیں ہے بہر حال اب ان کی تردید آچکی ہے بعض اوقات تردید بھی تائید ہو جاتی ہے جوڑے آسمانوں پر بنتے ہیں اگر ریما ان کی قسمت میں ہے یا وہ ریما کی قسمت میں ہیں تو یہ ملن ہو کے رہے گا وہ ابھی جوان ہیںامریکہ میں مانے ہوئے پاکستانی ڈاکٹر ہیں وہ یہ رویہ تو اختیار نہ کریں نا…؎
دنیا میں ہوں ’’ریما‘‘ کا طلبگار نہیں ہوں
بازار سے گزرا ہوں خریدار نہیں ہوں
جب ایک مسلمان مرد اور ایک مسلمان عورت کے تعلق کی کہانی چلتی ہے اور شادی پر منتج ہوتی ہے تو یہ کوئی سکینڈل نہیں ہوتا اس لئے وہ اپنی تردید پر نظرثانی بھی کرسکتے ہیں ریما کا شباب بھی اب آخری ہچکی لے رہا ہے وہ بھی چاہیں تو اقرار کرلیں بہرحال ہم ان دونوں کے معاملے میں دخل در معقولات نہیں کرتے چونکہ بات پریس میں چل چکی تھی ہم نے بھی چلا دی اور چلتی کا نام گاڑی ہے مگر انہوں نے بریک لگا دی ہے تو ہم مان لیں گے کہ گاڑی رگ گئی ہے۔
٭…٭…٭…٭
سوئس اٹارنی جنرل نے کہا ہے زرداری کو عالمی قانون کے تحت استثنیٰ حاصل ہے۔
صدرآ صف علی زرداری کچھ عرصے سے خاموش خاموش سے ہیں مگر حالات ان کے حق میں بول رہے ہیں۔ سوئس اٹارنی جنرل کا یہ کہنا کہ عالمی قانون کے تحت ان کو استثنیٰ حاصل ہے ایک بھاری بھرکم قانونی بات ہے جس کے اثرات ظاہر ہے یہاں بھی مرتب ہونے چاہئیں اور اس میں حکمت یہ بھی ہے کہ اب جبکہ 18ویں ترمیم منظور ہو چکی ہے 1973ء کا آئین بحال ہو چکا ہے اختیارات کا توازن برقرار ہوگیا ہے صدر نے خود کو وفاق کی علامت بنا لیا ہے تو پھر انہیں چھیڑنا جمہوریت کو چھیڑنے کے مترادف ہے اعلیٰ عدلیہ نے جو 8 ہزار لوگوں کی فہرست دی ہے ان کا پیسہ واپس لانے پر زور دے یہی کافی ہے اس دولت سے پاکستان کے کتنے ہی مسئلے حل ہو جائیں گے ہمیں امید ہے کہ صدر صاحب اب عوامی مسائل کے حل کی طرف متوجہ ہونگے اور وزیراعظم کو مشورے پر مشورہ دینگے کہ وہ لوگوں کو بلیک آئوٹ سے نکالیں مہنگائی کا مداوا کریں اوربھارت سے پانی کے حصول کیلئے عالمی سطح پر آواز بلند کریں۔
جب دوبندے لڑتے ہیں تو ان میں سے ضرور ایک حق پر اور ایک باطل پر ہوتا ہے اور جس آدمی کے ساتھ سبھی لڑنا شروع کردیں یا وہ سب کے ساتھ لڑنا شروع کردیں تو سمجھ لیں اس میں کوئی گڑ بڑ ہے بابر اعوان صاحب ظہیرالدین بابر بن چکے ہیں اور شاید انہوں نے پاکستان کو قدیم ہندوستان سمجھ کر اس پر حملہ کردیا ہے ذات کے اعوان ہیں اسی لئے حضرت علیؓ سے ان کو نسبت ہے اس لئے ان میں خیبر شکن کی طاقت بھی موجود مگر خدا جانے کہ ان کے رویے میں خیر شکنی کی بجائے دل شکنی کیوں پیدا ہوگئی ہے وہ قانون کے عالم ہیں اور بڑے اچھے مضمون نگار بھی ہیں گفتگو میں بھی ان کے منطق کا امتزاج ہوتا ہے مگر جب سے پیپلز پارٹی میں وزیر باتدبیر بنے ہیں ان کے تدبر کو ، رویے کو، حوصلے کو گھُن لگ گیا ہے سیکرٹری اچکزئی کا استعفیٰ اور اس سے پہلے اٹارنی جنرل کا استعفیٰ ان کے بہترین رویے کا ثبوت ہے بظاہر یہی لگتا ہے کہ دو بندوں کے استعفیٰ ان کیلئے عبرت ہونے چاہئیں اور اپنی شخصیت پر نظرثانی کریں کیونکہ پوری ذات خدا کی ہوتی ہے اور اپنا احتساب اپنے رویوں کی جانچ پڑتال بڑے انسانوں کا شیوہ ہوتی ہیں یہ نہ ہو کہ ان کے ماتحت ایک ایک کرکے یہ کہتے ہوئے رخصت ہوتے جائیں…؎
ہر ایک بات کہتے چلو تم کہ تو کیا ہے
تمہی کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے
٭…٭…٭…٭
خبر ہے کہ ثانیہ اور شعیب کی مہندی کی تیاریاں شروع ہوگئیں ہیں نکاح بھی ہوگیا ہے مہندی 13 اپریل کو ہوگی ثانیہ کے چچا گانا گائیں گے۔
خدا کا شکر ہے وبال ٹھاکرے کے وبال سے شعیب ثانیہ بال بال بچ گئے اور نکاح ہوگیا ہے تو سمجھ لو دو مضبوط رسّوں میں گانٹھ پڑ گئی ہے۔ اب ہندو انتہا پسند اپنا سامنہ لے کر رہ جائیں گے اور پاکستانی دلہنیا لے جائیں گے حیدر آباد دکن غلط تقسیم کے نتیجے میں بھارت میں شامل ہے ورنہ تو یہ پاکستان میں شامل ہوتا یہ ہندوستان میں اسلامی تہذیب، علم اور فلسفے کا گڑھ تھا نظام دکن نے اس کی ناقابل فراموش آبیاری کی ثانیہ کا خمیر دکن سے اٹھا ہے اور پاک سرزمین کی طرف رواں دواں ہے خبر میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مہندی کی رسم میں ثانیہ کے چچا بھی گانے گائیں گے ہمارے ہاں تو یہ مشہور ہے کہ مہندی تاں سج دی جے نچے منڈے دی ماں، ممکن ہے حیدر آباد دکن میں یہ رسم ہو کہ’’ مہندی تاں سج دی جے گائوے کڑی دا چاچا‘‘۔ ثانیہ شعیب کی شادی کو بھارت نے اتنا پیچیدہ اور مشکل بنا دیاتھا لیکن اس کے باوجود نکاح ہوگیا یہ اس بات کی علامت ہے کہ ذرا سا زور لگائیں تو کشمیر جنت نظیر کی ڈولی بھی پاکستان لائی جاسکتی ہے۔ ہندو طبعاً شرپسند بزدل کمینہ اور مکار ہے اس کے ہاتھوں میں اسلحہ نہیں سازش سجتی ہے جبکہ مسلمان نعرہ تکبیر سے ایٹم بم کا کام لیتا ہے۔ ثانیہ شعیب کی شادی خانہ آبادی پاک سرزمین پر دو ستاروں کا ملن ہے۔ جو اب ہو کے رہے گا ہم ان دونوں ستاروں کو چاند کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ وہ بھارت کی طرح عیاری و مکاری کا شکار نہ ہوگا۔
٭…٭…٭…٭
ڈاکٹر طارق شہاب نے کہا ہے ریما کے ساتھ شادی نہیں ہوئی تعلقات کو سکینڈل نہیں بنانا چاہئے۔
ڈاکٹر صاحب کو شاید یہ پتہ نہیں کہ تعلقات کیلئے شادی ضروری نہیں ہوتی اورسکینڈل اس کو کہتے ہیں اس لئے وہ ڈریں ناکہ جو ڈر گیا وہ مر گیا وہ ایک مذہبی گھرانے کے چشم و چراغ ہیں اگر وہ ایک ایکٹریس کو اپنا لیں اور اسے مسلمانوں کے طور طریق پر رواں دواں کر دیں تو ان کی طرف سے تبلیغ دین کا فریضہ بھی ادا ہو جائے گا اور ریما جیسی حسینہ بھی ہاتھ لگ جائے گی۔ اس میں کوئی قباحت نہیں ہے بہر حال اب ان کی تردید آچکی ہے بعض اوقات تردید بھی تائید ہو جاتی ہے جوڑے آسمانوں پر بنتے ہیں اگر ریما ان کی قسمت میں ہے یا وہ ریما کی قسمت میں ہیں تو یہ ملن ہو کے رہے گا وہ ابھی جوان ہیںامریکہ میں مانے ہوئے پاکستانی ڈاکٹر ہیں وہ یہ رویہ تو اختیار نہ کریں نا…؎
دنیا میں ہوں ’’ریما‘‘ کا طلبگار نہیں ہوں
بازار سے گزرا ہوں خریدار نہیں ہوں
جب ایک مسلمان مرد اور ایک مسلمان عورت کے تعلق کی کہانی چلتی ہے اور شادی پر منتج ہوتی ہے تو یہ کوئی سکینڈل نہیں ہوتا اس لئے وہ اپنی تردید پر نظرثانی بھی کرسکتے ہیں ریما کا شباب بھی اب آخری ہچکی لے رہا ہے وہ بھی چاہیں تو اقرار کرلیں بہرحال ہم ان دونوں کے معاملے میں دخل در معقولات نہیں کرتے چونکہ بات پریس میں چل چکی تھی ہم نے بھی چلا دی اور چلتی کا نام گاڑی ہے مگر انہوں نے بریک لگا دی ہے تو ہم مان لیں گے کہ گاڑی رگ گئی ہے۔
٭…٭…٭…٭
سوئس اٹارنی جنرل نے کہا ہے زرداری کو عالمی قانون کے تحت استثنیٰ حاصل ہے۔
صدرآ صف علی زرداری کچھ عرصے سے خاموش خاموش سے ہیں مگر حالات ان کے حق میں بول رہے ہیں۔ سوئس اٹارنی جنرل کا یہ کہنا کہ عالمی قانون کے تحت ان کو استثنیٰ حاصل ہے ایک بھاری بھرکم قانونی بات ہے جس کے اثرات ظاہر ہے یہاں بھی مرتب ہونے چاہئیں اور اس میں حکمت یہ بھی ہے کہ اب جبکہ 18ویں ترمیم منظور ہو چکی ہے 1973ء کا آئین بحال ہو چکا ہے اختیارات کا توازن برقرار ہوگیا ہے صدر نے خود کو وفاق کی علامت بنا لیا ہے تو پھر انہیں چھیڑنا جمہوریت کو چھیڑنے کے مترادف ہے اعلیٰ عدلیہ نے جو 8 ہزار لوگوں کی فہرست دی ہے ان کا پیسہ واپس لانے پر زور دے یہی کافی ہے اس دولت سے پاکستان کے کتنے ہی مسئلے حل ہو جائیں گے ہمیں امید ہے کہ صدر صاحب اب عوامی مسائل کے حل کی طرف متوجہ ہونگے اور وزیراعظم کو مشورے پر مشورہ دینگے کہ وہ لوگوں کو بلیک آئوٹ سے نکالیں مہنگائی کا مداوا کریں اوربھارت سے پانی کے حصول کیلئے عالمی سطح پر آواز بلند کریں۔