بانی پاکستان کے یوم وفات پر خصوصی خراج تحسین
ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم
اللہ تعالیٰ نے برعظیم پاک و ہند پر احسانِ عظیم فرمایا کہ ۲۵دسمبر ۱۸۷۶ء بروز پیر بمطابق ۸ ذی الحج ۱۲۹۳ھ، کو جناح پونجا کے گھر میںمحمد علی جناحؒ کی صور ت میں ایک نجات دہندہ نے جنم لیا۔ محمد علی جناح سے قائداعظم تک کا سفر اُن کی سخت جدوجہد کا ثمر ہے ۔ اُنھوںنے برعظیم پاک وہند کے مسلمانوں کی قسمت بدلنے کے لیے خود کو قوم کے سپرد کر دیا ،گردو پیش کے حالات کا انہوں نے لڑکپن ہی سے سنجیدہ اثر لیا۔
۱۸۸۷ء میں اُنھیں سندھ مدرسۃ السلام کراچی سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا۔ پھر ماموں قاسم موسیٰ کے پاس بمبئی میں انجمنِ اسلام ہائی سکول بمبئی میں داخل ہوئے لیکن والدہ کی خواہش پر صرف چھ ماہ بعد وہ کراچی لوٹ آئے اور سندھ مدرسۃ السلام میں دوبارہ داخل ہوگئے۔ آپ کراچی کے کرسچن مشنری سوسائٹی ہائی سکول میں داخل رہے ۔ ۵جنوری ۱۸۹۱ء کوآپ نے میٹرک کا امتحان پاس کیا ہی تھا کہ جنوری ۱۸۹۲ء میں اُن کی شادی ایمی( امر) بائی سے کر دی گئی ۔
محمد علی جناح کے والد نے اپنے دوست سر لی کرافٹ کے مشورے پر اُنھیں اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان بھجوا دیا۔جہاں لنکن اِنز میں محمد علی جناحؒ نے داخلے کا فیصلہ کیا۔ اس دوران اُن کی اہلیہ کا ہندوستان میں انتقال ہوگیا۔ ابھی اس غم سے سنبھل نہ پائے تھے کہ والدہ ماجدہ کا سایہ سر سے اُٹھ گیا۔اب دیارِ غیر میں اُنھیں تسلی دینے والا بھی کوئی نہیں تھا۔۱۸۹۵ء میں بیرسٹری کے بعد قائداعظم محمد علی جناحؒ برعظیم پاک وہند واپس تشریف لے آئے۔ بمبئی کی ایک سیٹھ نے دو ہزار روپے ماہانہ کی ملازمت پیش کی تو محمد علی جناح ؒ کو بحیثیت وکیل اس سے کہیں زیادہ آمدن کی توقع تھی،اس لئے ملازمت سے معذرت کر لی۔
۱۸۹۶ء میں جب بمبئی پہنچے تو اندازہ ہوا کہ عدالتوں پر انگریزاور پارسی وکیل چھائے ہوئے ہیں۔ ۳سال تک عزم و استقلال کے ساتھ آپ مشکلات سے لڑتے رہے۔ ایک دن اچانک اُن کی ملاقات۱۸۹۹ء میںقائم مقام ایڈووکیٹ جنرل جان میک فرسن سے ہوئی ، اُنھوںنے قائداعظم کو اپنے ساتھ وکالت کرنے کی دعوت دی۔ محمد علی جناح نے ایڈووکیٹ جنرل میک فرسن کی لائبریری سے بھرپور استفادہ کیا۔ محمد علی جناح نے چھ ماہ (مئی تا نومبر۱۹۰۰ء )پریذیڈنسی مجسٹریٹ کے طور پر کام کیا۔ سرچارلس اولیونٹ اُن کی قابلیت سے بہت متاثر ہوا، مگریہ ملازمت بھی محمد علی جناح کے مزاج کے مطابق نہ تھی۔اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے اُن کی خواہش پوری ہوئی اور اُن کی وکالت کے چرچے ہونے لگے۔۱۹۰۲ء میں جب محمد علی جناح کے والد جناح پونجا بمبئی میں انتقال کر گئے ،ان تمام مصائب کے باوجود محمد علی جناح نے ہمت نہ ہاری ۔ سیاسیت مین دلچسپی لینے پر محمد علی جناح نے ۱۹۰۴ء میں پہلی بارکانگرس کے اجلاس منعقدہ کلکتہ میں شرکت کی اورستمبر ۱۹۰۵ء میں انڈین نیشنل کانگرس میںباقاعدہ شمولیت اختیارکر لی ۔اور پھر مسٹرگوپال کرشنا گوکھلے کے ساتھ انگلستان کا دورہ کیا۔ لندن میں دادا بھائی نورو جی سے محمد علی جناح کی ملاقات ہوئی تھی۔ اُنھوںنے بمبئی آتے ہی اُنھیں اپنا سیکرٹری مقرر کر دیا۔ جس کے بعددسمبر ۱۹۰۹ء میں سپریم امپریل لجسلیٹو کونسل کے لیے آپ بمبئی کے حلقۂ انتخاب سے مسلمانوں کی مخصوص نشست پر بلامقابلہ کامیاب ہوگئے ۔
محمد علی جناح اور موہن داس کرم چند گاندھی کی پہلی ملاقات بمبئی میں ہوئی ۔ ۱۱؍اکتوبر۱۹۱۶ء میں میثاقِ لکھنؤمیں آپ کا مؤثر کردار رہا۔ ہندوستان کے وائسرائے بھی اُن کی فہم و فراست کے قائل ہوگئے۔ محمد علی جناح کی شہرت روز بروز بڑھ رہی تھی۔بمبئی کے ایک جلسہ میں اُن کی ملاقات ۱۷سالہ خاتون رتن بائی سے ہوئی۔ اُس وقت محمد علی جناح ۴۱سال کے تھے۔ رتن بائی کا تعلق پارسی خاندان سے تھا۔ اُن کے والد سر پٹی ڈنشا یہ بات تسلیم کرنے کو تیار نہ تھے کہ اُن کی۱۷سالہ دختر ایک عمر رسیدہ مسلمان سے شادی کرے۔ اس ضمن میں معاملہ عدالت میں جا پہنچا آخر کار جب وہ۱۸سال کی ہوئیںتو قائداعظم سے ۲۰مارچ ۱۹۱۸ء کو ان کی شادی انجام پائی۔مریم جناح ۲۰فروری۱۹۰۰ء کوپیدا ہوئیں اور ۲۹برس کی عمر میں اچانک ۲۰فروری۱۹۲۹ء کواُن کا انتقال ہوگیا۔ ان کے بطن سے محمد علی جناح کی ایک دختر دیناجناح ، ۱۵؍اگست ۱۹۱۹ء کو پیدا ہوئیں۔ جس کی شادی کے بعد باقی تمام زندگی قائد اعظم نے اپنی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ گزار دی۔
قائداعظمؒ کا بچپن بے مثال ، جوانی باکمال اور عمر کا آخری حصہ لازوال ثابت ہوا۔ انہوں نے دبلے پتلے ، نحیف و نزارجسم کے ساتھ ولولۂ تازہ سے مسلمانوں کو متحد کیااور بے سروسامانی کے باوجود مسلمانوں کی ڈگمگاتی کشتی کو منزلِ مقصود تک پہنچایا۔ المختصر یہ کاروانِ آزادی اللہ کی فتح و نصرت سے پاکستان 14/اگست ۱۹۴۷ء کو معرض وجود میںآگیا۔ پاکستان بنتے ہی قائداعظمؒ کوگمبھیر مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ نوزائیدہ مملکت کے مسائل ،پاکستان کی بقا ء و سلامتی ، معیارِ معیشت ، سماجی انصاف جیسے مسائل نے قائداعظمؒ کی صحت پر بہت منفی اثر ڈالا۔حتیٰ کہ ملک میں30/اگست ۱۹۴۸ء کو ناگزیر حالات میں ہنگامی صورت حال کا اعلان کرنا پڑا ۔قائداعظم محمد علی جناحؒ کو آرام کے لیے زیارت (کوئٹہ) لے جایا گیا جہاں یکم ستمبر ۱۹۴۸ء کو اُن کی صحت بگڑنا شروع ہوگئی۔ 9ستمبر ۱۹۴۸ء اُن کی حالات تشویش ناک ہوگئی۔گہری سوچ اور پریشانیوں نے قائداعظمؒ کی نقاہت میں اضافہ کر دیا تھا۔زیارت سے آپ کو ۱۱ستمبر۱۹۴۸ء کو کراچی واپس لایا گیا۔ سوا چار بجے سہ پہر ماڑی پورہوائی اڈے پہنچ کر گورنر جنرل ہائوس تک کے سفر میں قائداعظمؒ کی حالات مزید بگڑ گئی ۔ اُنھیں ۲گھنٹے مزید سفری مشکلات سے گزر کر گورنر جنرل ہائوس کراچی منتقل کیا گیا۔ جہاںاُنھوں نے زندگی کی آخری سانسیں مکمل کیں پھرمحترمہ فاطمہ جناح کو اپنے قریب بلایا اور کہا:’’ فاطی!پاکستان زندہ آباد ‘‘ یوں دس بج کر۲۵منٹ پر قائداعظم محمد علی جناحؒ ہم سے ہمیشہ کے لیے جدا ہوگئے۔
فنش،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،