ملک میں آٹو موبائل انڈسٹری کو فروغ دینا ناگزیر ہے، سینیٹر احمد خان
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) سینٹ قائمہ کمیٹی پیداوار کے چیئرمین کمیٹی سینیٹر احمد خان نے کہا کہ آٹو موبائل انڈسٹری انتہائی اہمیت کی حامل ہے ملک میں آٹو موبائل انڈسٹری کو فروغ دے کر نہ صرف آمدن حاصل کی جا سکتی ہے بلکہ قوم کو بھی مؤثر جدید ٹیکنالوجی کی حامل آٹو موبائل فراہم کی جا سکتی ہے جس سے عوام کو ریلیف میسر ہو سکتاہے مگر افسوس کی بات ہے کہ ملک میں عرصہ دراز سے بے شمار کمپنیوں نے سرمایہ کاری کی مگر جدید پلانٹ نہیں لگائے گئے جس سے ملک وقو م کو فائدہ ہو سکے۔ قائمہ کمیٹی پیداوارکے اجلاس میں سینیٹر بہرہ مند خان تنگی کے 4 فروری 2020ء کو سینیٹ اجلاس میں پوچھے گئے سوال برائے ملک میں اسمبلی کی جانے والی کاروںکی بڑھتی ہوئی قیمتیںکے معاملے کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ سینیٹر بہرہ مند خان تنگی نے کہا کہ کمیٹی کو جو ورکنگ پیپر فراہم کئے گئے ہیں اْس سے مطمئین نہیں ہوں انہوں نے کہا کہ کوئی اتھارٹی نہیں ہے کہ جو پرائس کو کنٹرول کر سکے اور ایک ایکٹ کے تحت کام کو چلایا جا رہا ہے ملک میں کاروں اور دیگر گاڑیوں کی قیمتیں اپنی مرضی سے بڑھائی جا رہی ہیں مؤثر میکنزم نہ ہونے کی وجہ سے غریب آدمی گاڑی خریدنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ انہوں نے کہا کہ اگرکمپنیاں گاڑیاں بنانے کے لیے خام مال درآمد کرتے ہیں تو کیا انہوں نے آج تک مقامی گاڑیاں بنانے کیلئے کوئی ترقی نہیں کی اہم چیزیں ابھی تک ایمپورٹ کی جاتی ہیں۔ ملک میں 40سالوں سے یہ کمپنیاں ٹیکنالوجی کو فروغ نہیں دے سکیں۔ سینیٹر بہرہ مند خان تنگی نے کہا کہ کمپٹیشن کمیشن آف پاکستان کی 2019کی رپورٹ کے مطابق آٹو موبائل کمپنیوں نے چھ ہزار ارب روپے سے زائد صارفین سے وصول کئے ہیں۔ چیئر مین کمیٹی سینیٹر احمد خان نے کہا کہ ملک میں کتنے پرانے پلانٹ لگے ہوئے ہیں مگر گاڑیوں کے ا نجن ، ٹرانسمیشن اور دیگر اہم چیزیں ایمپورٹ کی جاتی ہیں اور مقامی سطح پر عام پرْزہ جات بنائے جاتے ہیں جو انتہائی افسوس کی بات ہے دنیا کہا سے کہا پہنچ گئی گاڑیوں کی قیمتیںبڑھانے کا سارا ملبہ ڈالر کی قیمت میں اضافے اور حکومتی ٹیکسز پر ڈالا جا رہا ہے۔ دنیا ای الیکٹرک پر جا چکی، ہم اب تک ہائبریڈ گاڑیوں کا پلانٹ نہیں لگا سکے۔جاپان سے آنے والی گاڑیوں پر ڈیوٹی اتنی ہے کہ اس کو خریدا نہیں جا سکتا۔آٹو انڈسٹریز میں 2 سال میں کیا بہتری لائی گئی۔ کمیٹی کو بتایا جائے کہ جو کراچی پورٹ پر کسٹم ڈیوٹی لی جاتی ہے اس سے ملک کو کتنا فائدہ ہوتا ہے باہر سے آٹو گاڑیاں آنا بند ہو گئی ہیں۔پاکستان میں جو آٹو موبائلز پلانٹس لگنے تھے ان کا کیا بنا؟ چیئرمین و اراکین کمیٹی نے ملک میں گاڑیوں کی بڑھتی ہوئی قیمتوں ، معیار اور ملک میں گاڑیوں کی تیاری پر پیش رفت نہ ہونے پر سخت برہمی اور تشویش کا اظہار کرتے ہوئے آئندہ اجلاس میں وزیر صنعت و پیداوار اور ملک کی بڑی مینو فیکچرنگ کمپنیوں کو طلب کر کے تفصیلات بشمول گاڑیوں کے ایمپورٹ کر دہ پارٹس ، قیمتیں ، معیار اور گاڑیوں میں دی جانے والی سہولتیں، کمپنیوں کے منافع ، باہر سے آنے والی گاڑیوں کی ڈیوٹی وغیرہ کی تفصیلات بھی طلب کر لیں۔ سینیٹر بہرہ مند خان تنگی اور ڈاکٹر سینیٹر آصف کرمانی نے کہا کہ پاکستان میں 10 لاکھ کی گاڑی 40 لاکھ کی کیوں ملتی ہے؟ صارفین کو لوٹا گیا اور ضرورت سے زیادہ پیسے لئے جاتے ہیں۔ ٹویٹا کمپنی حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ پاکستان میں گاڑیوں کے انجن اور ٹرانسمیشن کو امپورٹ کر کے اسمبل کیا جاتا ہے گاڑیوں کی قیمتوں پر 40فیصد ٹیکس حکومت وصول کرتی ہے۔ جس پر سینیٹر بہرا مند خان تنگی نے کہا کہ پاکستان میں گاڑیوں کی قیمتیں بنگلادیش اور انڈیا کے مقابلے میں ڈبل ہے۔ سینیٹر آصف کرمانی نے کہا کہ ٹویٹا گاڑیوں کی لوکل مینوفیکچرنگ پر پابندی عائد کی جائے جن کا معیار بھی بہتر نہیں اور قیمتیں بھی زیادہ ہیں۔گاڑیاں بنانے والی کمپنیاں کھائیں، پرافٹ لیں پر عوام کو نہ لوٹیں۔