بے حسی کی اعلیٰ مثال ‘ کراچی کی صورتحال
کراچی جس کو روشنیوں کا شہر کہا جاتا ہے۔ یہ پاکستان کا وہ شہر ہے جس کو سب سے پہلے دارالحکومت بنایا گیا شہر کراچی پاکستان کی سب سے بڑی تجارتی منڈی کا درجہ بھی رکھتا ہے پاکستان کی سب سے بڑی بندرگاہ بھی کراچی میں ہی موجود ہے اور کتنی ہی ایسی باتیں ہیں جن کے لئے شہر کراچی مشہور ہے ابھی حال ہی میں پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے کراچی کا دورہ کیا اور کراچی کے لئے 11 سو ارب روپے دینے کا اعلان کیا ہے یہ پیکج خصوصاً کراچی کی عوام اور صرف کراچی کے لئے ہے کراچی میں بھی اب تبدیلی کا وقت آ گیا ہے۔ کراچی سب کا ہیمگر کراچی کا کون ہے اس بات کا فیصلہ کرنا ابھی ذرا مشکل ہے۔ کیا وزیراعظم پاکستان اپنے نئے اربوں روپے کے پیکج کا اعلان کرنے سے کراچی کے مسیحا بن جائیں گے یہ آنے والا وقت بتائے گا مگر کراچی کو ایک مسیحا کی ضرورت پڑی ہی کیوں کچھ ذکر تفصیلاً کرتے ہیں۔ کراچی کے عروج سے زوال تک کے سفر کا۔
قیام پاکستان کے چند سال تک تو کراچی نے اپنے عروج کے آسمان کی شان و شوکت دیکھی پھر کراچی پر راج ہوا۔ ایم کیو ایم کا۔ ایم کیو ایم پارٹی کی مہربانی سے کراچی میں روز دھماکوں کی گونج ‘ گولیوں کی برسات‘ آئے روز کی بوری بند لاشیں کراچی کو تحفتاً ملیں پھر دوبارہ سے ایک بار کراچی کی ڈور پیپلزپارٹی کودے دی گئی ‘بے نظیر بھٹو کی شاندار سیاسی پارٹی جس کے موجودہ سربراہ بلاول بھٹو کا نظریہ کچھ یوں ہے کہ جب زیادہ بارش آتا ہے تو زیادہ پانی آتا ہے اور دیکھا جائے تو ان کا ایسا ماننا کچھ غلط بھی نہیں ہے کیونکہ کراچی کی موجودہ صورتحال کی کہانی کچھ ایسی ہی ہے۔ ہر طرف جل تھل کا سماں ہے اب تو ساحل کہاں ہے اور سمندر کہاں اس کا اندازہ بھی ذرا مشکل ہے ہی ہو جاتا ہے۔ حالیہ دور کی بارشوں سے کراچی کی تباہ کاریوں میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ مہربانی کہیں پی پی کی یا پھر اس میں رہیں عمران خان کی جو تسلی کچھ یوں دیتے ہیں عوام کو ’’آپ نے گھبرانا نہیں ہے‘‘ پہلے ایم کیو ایم نے کراچی کو روشن کیا دھماکوں‘ گولیوں ‘ خون کی بارشوں سے جہاں الطاف حسین کو پردے سے پیپلزپارٹی نے نکالا وہیں انہوں نے کرچی کو مزید روشن کیا۔ چار چاند لگا کر‘ چاند کس قسم کے تھے اس کابھی ذکر بنتا ہے کچرے کے آسمان کو چھوتے ہوئے ڈھیر‘ پانی کے گندے نالے ہر موڑ پر جو تالاب کا منظر پیش کرنے لگے تھے اور بجلی او ر پانی نہ ملنے کا رونا تو کراچی والے بہت پہلے سے ہی روتے تھے۔ مگر ذمہ داریوں کا احساس یوں نظر آیا کہ کراچی کے حاکم مثالی اتحاد پر یقین رکھتے ہیں اور ذمہ داریوں کا بوجھ ایک دوسرے پر ڈال دیا جاتا ہے پی ٹی آئی نے خوب ووٹ بٹورنے کے بعد اور کراچی والوں کو سہانے خواب دکھانے کے بعد کراچی کی ذمہ داری تحفتاً پی پی کے پاس ہی رہنے دی جس کو مراد علی شاہ نے کچھ زیادہ ہی سنبھال کر رکھا کہ اب وہاں کی عوام کا کوئی پرسان حال ہی نہ رہا جہاں کراچی کی عوام کو سمندر دیکھنے کا شوق تھا وہیں پی پی کی مہربانی سے انہیں سمندر میں رہنے کا موقع بھی مل گیا اور بے حسی کا عالم یہ ہے کہ اس سمندر کو اب کوئی اون کرنا نہیں چاہتا۔
الفت بدل گی ‘ کہیں نیت بدل گئی
خودغرض جب ہوئے تو پھر سیرت بدل گئی
اپنا قصور دوسروں پر ڈال کر
کچھ لوگ سمجھتے ہیں حقیقت بدل گئی
میئر کراچی روتے نظر آتے ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ بیبس ہیں پھر کراچی کا دورہ کرنے کے بعد عمران خان نے اعلان کیا 11 سو ارب روپے کے پیکج کا جس سے کراچی کی صورتحال بہتر بنائی جا سکتی ہے مگر سوال یہ ہے کہ یہ اتنے پیسے وزیراعظم پاکستان لائیں گے کہاںسے اور اگر لے بھی آتے ہیں تو کیا صرف پیسوں کا اعلان کرنے سے کراچی کے حالات بہتر ہو جائیں گے۔ کیا اتنے پیسوں کی ہی کمی تھی اب تک جو کراچی کے حالات بھی ٹھیک نہ ہو سکے کیا صرف پیسے دینے سے وہاں کام خود ہو جائے گا اور عوام خوش ہو جائیں گے؟ یہ سب اب آنے والا وقت ہی بتا سکتا ہے کہ کون کتنے پانی میں ہے۔