کورونا اور ذہنی صحت
عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہر سال ۸ لاکھ افراد خودکشی کی وجہ سے جان کھو بیٹھتے ہیں۔ یعنی ہر ۰۴ سیکنڈ میں ایک شخص۔ تازہ ترین اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ۴۱ ملین سے زائد پاکستانی کسی نہ کسی طرح کے ذہنی عارضے کا شکار ہیں جبکہ ملک میں خودکشی کی شرح فی لاکھ ۹.۲ ا فراد کی بتائی جاتی ہے۔ ذہنی صحت کے بارے میں یہ حقائق ہمارے لیے فکر انگیز ہیں۔ دوسری طرف چونکہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے حکومتوں کی جانب سے لاک ڈائون کے بعد پاکستان اور پوری دنیا میں لاکھوں افراد نے گوشہ نشینی کو اپنایا۔ خودکشی پرمائل اور نفسیاتی عوارض میں مبتلا افراد کے لئے تنہائی ایک بہت بڑا محرک ہے۔ خود کو معاشرتی طور سے الگ رکھنا ہماری جسمانی صحت کا ضامن تو ضرور ہے، لیکن ماہرین انتباہ کر رہے ہیں کہ اس کے نتیجے میں ذہنی و نفسیاتی صحت کا بحران پیدا ہوسکتا ہے۔عالمی سطح پر کووڈ19کے نتیجے میں عام لوگوں میں نفسیاتی مسائل میں واقعتاً نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق یہ وبا ذہنی بیماریوں میں مبتلا لوگوں کے لیے مسائل پیداکررہی ہے خصوصاً پریشانی، تشویش، افسردگی اور خودکشی کے رجحانات میں مبتلا افراد کے لیے۔ لاک ڈائون نے بھی نظامِ زندگی کو بری طرح متاثر کیا ہے اور بے روزگاری، قتل اور گھریلو تشدد کے واقعات میں واضح اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ اس کے علاوہ خواتین پر گھریلو تشدد گَھٹنے کے بجائے بڑھتا ہوا پایا گیا اور اسی طرح بچے بھی تشدد کا نشانہ بنے۔ ان سمیت رونما ہونے والے تمام واقعات درست ذہنی اور نفسیاتی صحت کی اہمیت کی جانب متوجہ کرتے ہیں اور بالخصوص کووڈ19 کی وجہ سے ظاہر ہونے والے منفی جذبات، احساسات اور خیالات کی بر وقت پُرسش کے اقدامات کو ضروری بناتے ہیں۔مگر حیف، ہماری زندگیوں میں علومِ نفسیات کا اتنا گراں اور گہرا عمل دخل ہونے کے طباوجود اس سے استفادہ نہیں کیا جاتا اور تو اور لفظ ِ سائیکالوجی یا کائونسلنگ یا سائیکو تھراپی کے ساتھ طرح طرح کی غلط فہمیاں منسلک کردی گئی ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ مثال کے طور پر سمجھا یہ جاتا ہے کہ ماہرِ نفسیات سے وہ افراد یا خاندان رجوع کرتے ہیں جو اپنے مسائل کا حل خود تلاش نہیں کرسکتے یا ان میں اتنی طاقت نہیں کہ کسی حکمتِ عملی کو اپنا سکیں۔ یہ سراسر غلط فہمی ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ ذہنی توازن بگڑنے کی صورت میں بھوت پریت یا آسیب سے نسبت دے دی جاتی ہے، جبکہ ذہنی صحت کا مسئلہ ایسا ہے جو کسی کو کبھی بھی پیش آسکتا ہے اور علاج سے ٹھیک بھی ہوجاتا ہے اور بدترین بات یہ ہے کہ ہمارے یہاں ذہنی طور پر مفلوج لوگوں سے ایک عجب قسم کا فاصلہ برتا جاتا ہے جیسے ان کا مرض کورونا کی طرح وبائی ہو۔ یہ اور اس طرح کی کئی بے بنیاد خرافات اور توہّمات معاشرے میں کثرت سے موجود ہیں۔معاشرے میں اسی عدم توجہی کو محسوس کرتے ہوئے بہت سے ادارے میدان میں آچکے ہیں۔ حال ہی میں آغا خان یونیورسٹی نے پُرسُکون زندگی،تسکین اور دیگر اداروں کے ساتھ مشترکہ طور پر ملک گیر پاکستان کووڈ مینٹل ہیلتھ رسپانس(Pakistan COVID Mental Health Response) کا آغاز کیا ہے جو اس بحران کے دوران ذہنی صحت سے متاثرہ افراد، خصوصاً نوجوانوں کو مدد مفت فراہم کرتا ہے۔ ان صفوں میں اور بھی کئی ادارے شامل ہیں جیسے جناح ہسپتال، سِوِل ہسپتال وغیرہ جہاں مختلف مسائل کی صورت میں رجوع کیا جاسکتا ہے جہاں تربیت یافتہ عملہ مسائل کے حل میں معاونت کے لیے موجود رہتا ہے۔علاوہ ازیں دماغی و نفسیاتی بیماریوں کی بحالی کے پہلے ادارے) Rehabilitation Centre) ‘Caravan of Life Trust Pakistan’کے بانی و صدر ، اور پاکستان میں نفسیاتی معالج کے علمبردار، شاہین احمد اور ان کے بھائی، خسرو کرامت نے ملک میں ذہنی صحت کی دیکھ بھال کے انداز کو تبدیل کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ دونوں کو پاکستان میں ذہنی و نفسیاتی بیماریوں کے بارے میں آگاہی کی کمی کا احساس تب ہوا جب ان کے گھر کے دو افراد میں سنگین ذہنی بیماری کی تشخیص ہوئی۔ برطانیہ میں اس انکشاف کے بعد اس خاندان نے پاکستان میں علاج معالجے کی سہولیات کا جائزہ لیا لیکن معلوم ہوا کہ سولیات بہت کم اور محدود ہیں، جن میں ادویات اور الیکٹروکونولسیو (Electroconvulsive) یا الیکٹروشاک (Electroshock) تھراپی شامل ہیں، اور یہ بالکل اطمینان بخش نہ تھا۔ نتیجتاً، انھوں نے Caravan of Life Trust Pakistan کے قیام کاارادہ کیا۔اس انسان دوست ٹرسٹ کا سنگِ بنیاد رکھتے ہی شاہین صاحبہ نے فوری طور پر ہی نفسیاتی مریضوں کے لئے ایک مناسب بحالی مرکز کی ضرورت محسوس کی جس کی وجہ سے 2009 میں ٹی آر ایچ (TRH)کی تشکیل ہوئی۔ کراچی میں واقع The Recovery House(TRH) میں فراہم کردہ اور اس جیسی سہولیات نفسیاتی مریضوں کو بااختیار اور معاشرے کا اہم حصہ بنانے اور ان کی مدد کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ دیگر اداروں سے کیروان آف لائف ٹرسٹ اس طرح ممتاز ہے کہ اس نے خاص طور سے نفسیاتی بحالی (Psychiatric Rehabilitation) کو اپنا مشن بنا رکھا ہے۔ لہٰذا مذکورہ بالا ادارے کے ساتھ ساتھ ا انہوں نے ایک اور ’کمیونٹی آئوٹ ریچ‘(Community Outreach Program) منصوبے کا آغاز کیا ہے۔ مختلف افراد کے بے لوث عطیات سے تحریک پانے والی ’’باوقار زندگی‘‘ نامی اس مہم کا مقصد لوگوں کوایک امید سے پُر اور باوقار زندگی بسر کرنے میں مدد کرنا ہے۔اس منصوبے کے تحت شاہ فیصل کالونی کراچی میں بالکل مفت خدمات انجام دی جارہی ہیں جس میں مفت نفسیاتی امراض کا علاج، متعلقہ ادویات اور کائونسلنگ شامل ہیں۔ یہاں نفسیاتی مسائل کے علاج کاانحصار چیدہ چیدہ علامات کی تشفی پر نہیں بلکہ مریضوں اور متاثرین کی مجموعی کیفیات اور معاملاتِ زندگی پر توجہ دی جاتی ہے تاکہ وہ سر اٹھا کے جی سکیں۔ علاج معالجے کے علاوہ اسی ایک چھت کے نیچے مختلف اقسام کی ٹریننگز اور تربیت پروگرامز بھی رواں ہیں جن کا مقصد لوگوں کو عام زندگی میں بھی کامل شعور اور ہنر کے زیور سے آراستہ کرنا ہے۔ ان خصوصیات کی وجہ سے ’’با قار زندگی‘‘ پروگرام اپنی نوعیت کا انمول تصور ہے جس پر یہ ارادہ کامیابی سے عمل پیرا ہے۔ چار سمت پھیلی نااُمیدی کے اس عالم میں ’’با وقار زندگی‘‘ پروگرام اور اس طرح کے دیگر منصوبے ہزاروں کے لیے امید کی تازہ کرن ہیں۔ بدقسمتی سے ہم اپنی زندگیوں میں سکون اور خوشی کو نظر انداز کر کے مادیت میں اپنی راحت تلاش کررہے ہیں۔ حالانکہ بدلتے حالات نے ہمیں خوب باور کرادیا ہے کہ مادّی دولت سے زیادہ ہمیں ذہنی صحت اور امید کی دولت کی ضرورت ہے۔ لہٰذا ہمارا اخلاقی اور سماجی فریضہ یہ ہے کہ ایسے اداروں اور منصوبوں کی معاونت کریں جو ایسے کارواں کی مثل ہیں جس کی منزل معاشرے میں آشتی و شادمانی کا فروغ اور نفسیاتی مریضوں کی مسیحائی ہے۔