’’ان کی قوت ارادی اور قوتِ فکر نے مسلمانوں کی شیرازہ بندی کی اور پھر اپنے عزم اور استقلال سے دنیا کے نقشے میں حیرت انگیز تبدیلی پیدا کر دی‘‘
محمد علی جناحؒ کی پالیسی سے لوگوں کو چاہے کتنا ہی اختلاف ہو لیکن ان کی عظمت کا اعتراف دوست دشمن سب کو ہے۔ وہ ایک نہایت مضبوط کردار اور مستحکم ارادہ کے انسان تھے اور بانیٔ پاکستان ہونے کی حیثیت سے تاریخِ عالم میں وہ ایک غیر فانی نقش چھوڑ گئے ہیں۔ مسلمانوں میں تنہا انہی کی ہستی ایسی تھی جو دنیا کی بڑی سے بڑی طمع کے مقابلے میں بھی اپنے اصول کو نہ چھوڑ سکتی تھی اور ان کے اس خلوص کا اثر تھا کہ پاکستان کی تمام مسلم آبادی نے باوجود باہمی اختلافات کے اپنی قسمت کا فیصلہ ان کے ہاتھ میں دے دیا تھا‘‘ (’’نگار‘‘ اکتوبر1948ء ) یہ علّامہ نیاز فتح پوری کے الفاظ ہیں جو قائداعظمؒ کی رحلت پر ان کو خراجِ عقیدت کے طور پر پیش کئے گئے۔ قائداعظمؒ کی عظمت کا راز ان کی سیرت کی بلندی‘ قوتِ فیصلہ کی مضبوطی اور قوت ارادی کی پختگی اور عمل پیہم اور انسان دوستی میں مضمر ہے۔ ان کا یقین تھا: …؎
یقین محکم عمل پیہم‘ محبت فاتح عالم
جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
وہ بانیٔ پاکستان ہونے کی حیثیت سے دنیا کے عظیم انسان تھے۔ انہوں نے صرف ایک نئے ملک کی تعمیر ہی نہیں کی بلکہ ایک نئی تاریخ‘ نئے جغرافیہ اور ایک نئی تاریخ کی بنیاد ڈالی۔ اس قدر قلیل مدت میں تاریخ کا رخ بدل دینا قائداعظمؒ کا وہ کارنامہ ہے‘ جس کی مثال انسانی تاریخ میں کم نظر آتی ہے۔ سیرت کی تعمیر کیلئے چار عناصر کی ضرورت ہے۔ قوت ارادی‘ قوت فکر‘ حس جماعتی اور قوت استقلال۔ قائداعظمؒ کی سیرت میں یہ چار عناصر موجود تھے۔ ان کے پاس کوئی مادی طاقت نہیں تھی لیکن ان کی قوت ارادی اور قوّت فکر نے مسلمانوں کی شیرادہ بندی کی اور پھر اپنے عزم اور استقلال سے دنیا کے نقشے پر حیرتناک انقلاب پیدا کر دیا۔ قائداعظمؒ کی زندگی چند مخصوص اصولوں اور ضابطوں کی پابند تھی۔ ان کی زندگی کے شب و روز کے معلومات سے ’’یقین‘ نظم و ضبط اور اتحاد ‘‘کی نشاندہی ہوتی ہے۔ اصول پرستی ان کا ایک عظیم شیوہ تھا۔ اصول اور قانون کے وہ بہت زیادہ پابند تھے۔ انہوں نے ہمیشہ قانون کا احترام کیا اور ان کا کوئی کام ایسا نہ تھا جو قانون اور اصول کے منافی ہو۔ انہوں نے سچے مقصد کیلئے راہیں ضرور بدلیں لیکن اصول کبھی نہیں بدلے۔ ان کی زندگی مثالی زندگی رکھتی ہے۔ جب ان سے معلوم کیا گیا کہ آپ کی کامیابی کا راز کیا ہے تو انہوں نے کہا کردار‘ جرأت‘ محنت اور استقلال چار ایسے ستون ہیں جن پر انسانی زندگی کی پوری عمارت کی تعمیر کی جا سکتی ہے اور ناکامی کے لفظ سے میں ناآشنا ہوں‘‘۔
قائداعظمؒ نے جرأت اور حق گوئی کی مثالیں چھوڑی ہیں اور اقبالؒ کے اس شعر کی وہ عملی تفسیر تھے: ؎
آئین جواں مرداں حق گوئی و بیباکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی
قائداعظمؒ1909ء میں بمبئی سپریم لیجیسلیٹو کونسل کے ممبر منتخب ہو گئے جس کے صدر لارڈ منٹو تھے۔ انتخاب کے بعد فوراً کونسل کے ایک اجلاس میں ایک قرارداد پر بحث کرتے ہوئے انہوں نے کہا ’’جناب عالی کونسل میں جو قرارداد پیش کی گئی ہے میں اس کی تائید کرتا ہوں۔ قراردادِ کے محرک عزت مآب ممبر نے انتہائی وضاحت اور جامعیت کے ساتھ یہ مسئلہ پیش کیا ہے کہ اس پر بحث کی گنجائش نہیں چھوڑی ہے لیکن اس مسئلہ کی اہمیت اس امر کی متقاضی ہے کہ کم از کم ہم میں سے کوئی شخص اظہارِ خیال کرے اور اس قرارداد کے متعلق ہمارے احساسات کی ترجمانی کرے۔ اگر میں ابتداء ہی میں یہ عرض کروں کہ یہ ایک انتہائی تکلیف دہ مسئلہ ہے۔ ایک ایسا مسئلہ ہے جس نے اس ملک کے تمام طبقوں کے جذبات میں اشتعال پیدا کر دیا ہے اور جنوبی افریقہ میں ہندوستانیوں کے ساتھ جو سخت اور ظالمانہ سلوک کیا گیا اس پر انہوں نے انہتائی نفرت کا اظہار کیا ہے‘‘۔ صدر (لارڈ منٹو) نے انہیں ٹوکا:
’’میں عزت مآب ممبر سے جلسہ کا نظم برقرار رکھنے کی درخواست کروں گا۔ میں سمجھتا ہوں ’’ظالمانہ‘‘ کا لفظ بہت زیادہ سخت ہے۔ عزت مآب ممبر کو ملحوظ خاطر رکھنے کے وہ سلطنت کے ایک دوست علاقے کا ذکر کر رہے ہیں۔ چنانچہ انہیں اپنی زبان کو حالات کے مطابق بنانا چاہیے۔‘‘
٭…٭…٭
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024