ایم ایم اے کا تحفظ ختم نبوت اور دینی مدارس کے بارے کل جماعتی کانفرس بلانے کا اعلان
اسلام آباد ( وقائع نگار خصوصی) متحدہ مجلس عمل کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے تحفظ ختم نبوت، قادیانی فتنہ اور دینی مدارس کے بارے میں حکومتی عزائم کو بے نقاب کرنے کے لئے کل جماعتی کانفرنس طلب کرنے کا اعلان کر دیا ہے جس میں دینی جماعتوں کے قائدین کو مدعو کیا جائے گا۔ ا نہوں نے کہا کہ دینی مدارس کی حیثیت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی تو مزاحمت کرینگے۔موجودہ حکومت کشمیر کی مسلمہ پالیسی سے انحراف کر رہی ہے۔ اسے نظرانداز کیا جا رہا ہے اور بھارت کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھا کر بھارت کے عزائم کو جواز دیا جا رہا ہے۔ کشمیر پالیسی کو نظرانداز کرنے کی اجازت نہیں نہیں دی جائے گی اس حوالے سے قوم کو متحد کیا جائے گا انہوں نے یہ بات اسلام آباد میں متحدہ مجلس عمل کے سربراہ اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی جو پیر کو اسلام آباد میں ان کی زیر صدارت منعقد ہوا اس موقع پر متحدہ مجلس عمل کے دیگر رہنما لیاقت بلوچ، مولانا اویس نورانی اور دیگر بھی موجود تھے۔ انہوں نے ڈیم تعمیر کرو چندہ مہم کی بھی مخالفت کی اور کہا کہ ملک چندوں سے نہیں چلائے جاتے انہوں نے کہا کہ متحدہ مجلس عمل نے وزیراعظم کی طرف سے قائم کردہ قومی مشاورتی کونسل پر مکمل طور پر تحفظات کا اظہار کر دیا ہے اور خدشہ ظاہرکیا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت بین الاقوامی ایجنڈے پر عملدرآمد کر رہی ہے جس کی وجہ سے قادیانی نیٹ ورک کو متحرک ہونے کا موقع مل رہا ہے۔ ایم ایم اے نے حکومت کی طرف سے مدارس کی رجسٹریشن کے معاملے کو نیکٹا کے حوالے کرنے کے فیصلے کو بھی یکسر مسترد کر دیا اور واضح کیا ہے کہ مدارس کی آزادی و خودمختاری میں کسی بھی قسم کی مداخلت کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ پہلے منتخب حکومتیں تھیں جو عوامی مطالبات پر اصلاح احوال کر لیا کرتی تھیں۔ جعلی حکومت سے کسی خیر کی توقع نہیں ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ جب سے تحریک انصاف کی حکومت آئی ہے، ملک کو پے در پے بحرانوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ حکومت کی کوئی سمت نہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اقتصادی مشاورتی کونسل میں قادیانی عاطف کو شامل کیا گیا اور عوامی ردعمل پر اسے فارغ کر دیا گیا۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ عاطف کو نکالے جانے پر کونسل کے دو مزید لوگوں نے بھی الگ ہونے کا اعلان کر دیا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ کونسل کس ذہنیت کی حامل لوگوں کی تھی جو یکجا ہو کر پاکستان کی معیشت کو مغربی معیشت کے تابع کرنا چاہتی ہے اور پاکستان میں سودی نظام کو فروغ دینا چاہتی ہے۔ اس سرمایہ دارانہ نظام کے پیچھے یہودی لابی ہے وہی اس سودی معیشت کو کنٹرول کر رہی ہے۔ اسی معیشت کو پاکستان میں مسلط کرنے کے لئے مشاورتی کونسل میں متنازعہ لوگوں کو شامل کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ متحدہ مجلس عمل معاشی مشاورتی کونسل پر مکمل طور پر تحفظات کا اظہار کرتی ہے۔ موجودہ حکومت کی معیشت کے حوالے سے ترجیحات بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے فرمودات کے برعکس ہے اور وہ پاکستان نئی نظریاتی جہد دینا چاہتی ہے۔ متحدہ مجلس عمل پاکستان کا اسلامی حیثیت کا مکمل تحفظ کرے گی۔ بین الاقوامی ایجنڈے کو پاکستان میں مسلط کرنا کیا ریاست مدینہ کا نظام ہے۔ یہ منہ اور ریاست مدینہ کا نظام۔ موجودہ حکومت سی پیک پر نظرثانی کا عندیہ دیا جس سے پاک چین اقتصادی دوستی پر حرف آ سکتا ہے۔ چین ار بوں ڈالر پاکستان کی معیشت کے لئے سرمایہ کاری کر رہا ہے اور حکومت کی طرف سے سی پیک پر نظرثانی چینی سرمایہ کاری پر ضرب کاری ہے۔ سی پیک میں تعطل پیدا کرنے یا اسے ختم کرنے کی کوشش کی گئی تو ہم اس کی بھرپور مزاحمت کرینگے۔ پاکستان کا بچہ بچہ پاک چین دوستی پر فخر کرتا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت پاکستان کو غلامی کے نئے دور کی طرف لے جانا چاہتی ہے جس کی بھرپور مذمت کی جائے۔ نئی حکومت نے جو سبز باغ اور نویدیں سنائی تھیں وہ سب دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں۔ غریبوں پر مہنگائی کے پہاڑ توڑ کر قوم کو کرب میں مبتلا کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تمام مدارس کی رجسٹریشن منسوخ کر کے اس معاملے کو نیکٹا کے حوالے کر دیا ہے۔ حکومتی فیصلے کو مسترد کرتے ہیں اس سے واضح ہوتا ہے کہ حکومت کی دینی مدارس کے بارے میں کیا سوچ ہے۔ انہوں نے کہا کہ دینی مدارس، نصاب، جدید عصری علوم کے حوالے سے پہلے سے ہی انتظام کر چکے ہیں اور ایسا حکومتوں سے مذاکرات کے نتیجے میں ہوا۔ مولانا فضل الرحمن نے مطالبہ کیا کہ پاک چین اقتصاد راہداری سے متعلق طے شدہ ایوارڈز پر عملدرآمد کیا جائے اور منصوبوں میں کسی صورت رد و بدل نہ کیا جائے۔ سی پیک کا جو پلان وضع کیا گیا ہے پوری قوم کو اس پر اعتماد ہے۔ حکومت اس حوالے سے چینی اعتماد کو ٹھیس نہ پہنچائے۔ ایم ایم اے کے صدر نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ عمران خان غلط کہتے ہیں بلکہ ان کے دور میں پرائی جنگ کا آغاز ہونے والا ہے اور وہ نمائندہ بن کر اس جنگ کو مزید آگے بڑھائیں گے۔ حکومت کو خارجہ پالیسی کا ادراک نہیں ہے۔ سفارتکاری پر بچگانہ سوچ کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ حکومت میں خارجہ پالیسی بنانے اور چلانے کی صلاحیت نہیں ہے ۔