پاکستان کرکٹ بورڈ کے نومنتخب چیئرمین احسان مانی نے نیا عہدہ سنبھال لیا ہے انکی ساری پیشہ وارانہ زندگی مالی معاملات کو دیکھتے اور کرکٹ کے انتظامی امور کو نمٹاتے ہی گذری ہے۔ برسوں تک وہ آئی سی سی میں مختلف حیثیتوں میں کام کرتے رہے۔ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کے صدر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔ دنیائے کرکٹ میں انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اب تک اس عہدے پر ان سے پہلے خدمات انجام دینے والے جتنے بھی افراد سے بات ہوئی ہے سب انکے معترف دکھائی دیے ہیں۔ کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین خالد محمود کا کہنا ہے کہ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل میں ہمارے نمائندے کی حیثیت سے انہوں نے بہت اچھا کام کیا ہے۔ خاص طور پر 1992 کے دورہ انگلینڈ کے موقع پر احسان مانی نے کئی مسائل کو بڑی آسانی سے حل کیا اور پاکستان ٹیم کے بہت کام آئے۔ شہریارخان بھی نئے چیئرمین کی صلاحیتوں کے معترف ہیں واقفان حال بتاتے ہیں کہ کرکٹ بورڈ کے معاملات کو چلانے کے لیے احسان مانی نے شہریار خان سے مشاورت بھی شروع کر دی ہے۔ توقیر ضیاء نے بھی ہمیشہ انہیں اچھے الفاظ میں یاد کیا ہے۔ نجم سیٹھی نے تو اس کام میں تاریخ رقم کر دی ہے ان سے زیادہ احسان مانی کے لیے نیک جذبات کوئی نہیں رکھتا ہو گا کیونکہ نجم عزیز سیٹھی نے تو احسان مانی کو پی سی بی کا چیئرمین بنانے کے لیے اپنے عہدے سے بھی استعفی دے دیا ہے۔ ان سے بڑھ کر قربانی بھلا کون دے سکتا ہے۔ یوں نئے چیئرمین کے لیے یہاں تک تو سب اچھا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ احسان مانی ان سب کی توقعات پر پورا اترتے ہیں یا نہیں۔
نئے چیئرمین خاصے تجربہ کار ہیں وہ کرکٹ کے انتظامی امور کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کی سربراہی کر چکے ہیں ان کے پس منظر کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ پی سی بی کو کامیابی سے چلانا انکے لیے مشکل نہیں ہو گا نہ ہی کسی پریشانی کا سامنا کرنا پڑے گا۔لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے وہ بہت تجربہ کار ہیں لیکن پاکستان کرکٹ بورڈ کو چلانا انکے لیے بہت بڑا چیلنج ہے۔کرکٹ بورڈ میں کئی گروپ بیک وقت کام کرتے ہیں جو ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور اپنے مفادات کے حصول کے لیے خفیہ معلومات بھی باہر لاتے ہیں۔ بلکہ بعض اوقات ایسے حالات پیدا کرتے ہیں کہ چیئرمین بیبس ہو جاتا ہے۔ ہماری ایسوسی ایشنز کے مسائل دنیا سے الگ ہی اسی طرح ہمارے میڈیا کی ضروریات بھی مختلف ہیں۔ وہ ان معاملات سے کیسے نمٹیں گے۔ پی سی بی چیئرمین کا عہدہ انکی صلاحیتوں کا اصل امتحان ہے۔ وہ فیروز پور روڈ کی سیاست کا توڑ کیسے کریں گے۔ کرکٹ بورڈ میں حقیقی تبدیلی کیسے لائیں گے، برسوں سے اہم عہدوں پر بیٹھے ناکام افراد کو کیسے تبدیل کریں گے۔ اپنے باس عمران خان کی فکر کے مطابق کرکٹ بورڈ میں کفایت شعاری کو کیسے یقینی بنائیں گے، احتساب کے عمل کو کیسے منطقی انجام تک پہنچائیں گے، پاکستان سپر لیگ کو کیسے آگے لیکر جائیں گے، عمران خان کے وڑن کے مطابق ڈومیسٹک کرکٹ کے ڈھانچے کو کیسے تبدیل کریں گے، پاکستان کو ٹیسٹ میچز دیگر اہم ملکوں کی نسبت کم ملتے ہیں اس مسئلے پر وہ کیا حکمت عملی ترتیب دیں گے۔
کرکٹ کے حلقے تبدیلی کے منتظر ہیں وہ حقیقی تبدیلی جو ہر سطح پر آئے اگر احسان مانی نے پرانی ٹیم کے ساتھ ہی کام کرنا ہے تو پھر نجم سیٹھی میں کیا برائی تھی انکے کریڈٹ پر تو کئی کامیابیاں بھی تھیں۔ کیا نئے چیئرمین کے دور میں بھی پاکستان کرکٹ بورڈ میں پرانے لوگ ہی ہونگے، کیا نئے پاکستان میں بھی سی ایف او کی تنخواہ سی او او سے زیادہ ہو گی، کیا نئے پاکستان میں بھی پی ایس ایل کے لیے کام کرنیوالوں کو مراعات ملتی رہیں گی، کیا نئے پاکستان میں بھی بورڈ کے ملازمین افسران کے ذاتی کام کرتے رہیں گے ؟؟؟؟
اگر سب پرانا ہی رہے گا تو اکیلے نجم سیٹھی کی تبدیلی کیوں ضروری تھی جو انکے ہمنوا تھے، ہمخیال تھے، ہمسفر تھے وہ اب احسان مانی کی کابینہ میں بیٹھے نظر آئیں اور جیسے کام پہلے ہوتا تھا ویسے ہی اب بھی ہوتا رہے تو تبدیلی بناوٹی معلوم ہو گی۔ دیکھنا یہ ہے کہ نئے چیئرمین حقیقی معنوں میں تبدیلی لانے میں کامیاب ہوتے ہیں یا پرانے پاکستان کے پرانے لوگ انکے خیالات کو بدلنے میں کامیابی حاصل کرتے ہیں۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024