عزم و ہمت، راستی ا ور راست روی کااستعارہ
خلیل جبران نے کہا تھا، ”ایک وہ ہیں جو دیتے ہیں اور دیکر ملول ہوتے ہیں۔ یہ رنج اُنکی سزا ہے۔ دوسرے وہ ہیں جودیتے ہیں اور دیکر خوش ہوتے ہیں۔ یہ خُوشی اُن کا انعام ہے....لیکن محدودے چند ایسے بھی ہیں جو حُزن ملال اور مسرت انبساط کے جذبوں سے ماورا ہوتے ہیں۔ ان کی مثال ایک تپتے ہوئے صحرا میں ایک شجر سایہ دار کی سی ہوتی ہے، جس کی چھاﺅں تلے تھکے ہارے مسافر پل دو پل سستاتے ہیں....قائدِ اعظم محمد علی جناح بھی ایک ایسے ہی درخت تھے، جس کی چھاﺅں تلے برصغیر کے کروڑوں مسلمان اکٹھے ہو گئے تھے۔ اسے ایک معجزہ ہی کہا جا سکتا ہے کہ ایک ایسا شخص جس نے مغرب میں تعلیم پائی تھی، مغربی لباس کا دلدادہ تھا، جو ٹھیک طرح سے مسلمانوں کی زبان اردو بھی نہ بول سکتا تھا، اس کے دل میں مسلم اُمت کا درد جاگا۔ اس نے روحِ اسلام کو سمجھا ا ور پھر ساری ز ندگی مسلمان قوم کو متحد کرنے میں صرف کر دی....
حیاتِ قائد پر بے شمار کتابیں لکھی گئی ہیں اور لکھی جائیں گی۔ مصنفین نے انکی سحرانگیز شخصیت کا ہر پہلو سے جائز لیا ہے۔ دوست، دشمن، ناقدین، تجزیہ نگار، ایک نکتے پر متفق نظر آتے ہیں۔ اس قدر اصول پرست ، راست گو، زیرک، حاضر دماغ شخص پوری صدی نے پیدا نہ کیا۔ قائد پیشے کے اعتبار سے وکیل تھے۔ وکیل تو پنڈت موتی لعل اور مہاتما گاندھی بھی تھے۔ پنڈت نہرو بھی ٹامک ٹوئیاں مار لیتے تھے۔ لیکن ان کا قد بہت بڑا تھا۔ ان تینوں حضرات کی جہاں انتہا ہوتی تھی، وہاںسے قائد ابتدا کرتے تھے۔ پیشہ ورانہ مخاصمت کے باوصف وہ ا ن کی قانون دانی کے معترف تھے۔
پیکر مہروفا، اخلاص اور مروت کی زندہ تصویر، عزم و ہمت کے بدر منیر، جناح نہ صرف اپنی ذات میں ایک انجمن تھے بلکہ ان کے دم قدم سے کئی انجمنیں آباد تھیں۔ علامہ اقبال کے اس شعر کی مکمل تفسیر وہ کسی کے آگے نہ خم ہو سکی میری گردن۔ کسی جگہ میری آواز آج تک نہ دبی ۔ انہوں نے انگریز سامراج پر کُھل کرتنقید کی۔ وائسرائے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتے تھے۔ نہرو اور پٹیل کی طرح کبھی چاپلوسی سے کا م نہ لیا۔ اس کے باوصف آزادی کی طویل جدوجہد میں کبھی جیل نہ گئے۔ حاکمان وقت کو بھی اس بات کا ادراک تھا کہ مسلم قوم کے محبوب لیڈر اور برصغیر کے سب سے بڑے قانون دان کو پابندِ سلاسل کرنے کے کیا نتائج نکل سکتے ہیں۔
قائد کا مشن مشکل تھا۔ ہندو تو صرف انگریز سامراج کے خلاف جدوجہد کر ر ہے تھے۔ جناح کا پالا دو دشمنوں سے پڑا تھا۔ ایک وہ جو اپنی ایمپائر کے ڈوبتے ہوئے سورج کو بڑی حیرت و حسرت سے تک رہا تھا اور دوسرا ہزار سال کی غلامی کا بدلہ چکانے کے لئے کمرکس رہا تھا ہر آنے والے حملہ آور کو یہ پرنام کرتے رہے۔ لیکن دل کی کدورت نہ گئی۔ آستین میں چھپا ہوا خنجر بھی بوجوہ باہر نہ آ سکا۔ منافقت کا یہ عالم تھا کہ ایک نیم خواندہ مغل بادشاہ کو مہابلی اور ہردلعزیز اکبر کہتے رہے۔ اس کی مقبولیت کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ وہ جودھا بائی کا خاوند تھا۔ ان کی انگیخت پر ہی وہ تو مذہب حقہ کے مقابل ”دین الٰہی“ نافذکرنے کی ناپاک جسارت کر بیٹھا۔ یہ اس کی پالیسیاں تھیں جن کی وجہ سے پسے ہوئے لوگ دائرہ اسلام میں داخل نہ ہو سکے۔ وگرنہ آج ہندوستان میں اکثریت مسلمانوں کی ہوتی۔ جہانگیر کو تو یہ اپنا بھانجا سمجھتے تھے۔ ایک ہندو ماں کی گود میں پل کر جوان ہونے والا شخص بھلا اسلام کی کیا خدمت کر سکتا تھا۔ اورنگ زیب ایک سچا مسلمان تھا۔ بدقسمتی سے ساری زندگی اقتدار کے حصول اور پھر اس کی حفاظت میں صرف کر دی۔ مورخین کے مطابق اس کی حج بیت اللہ کرنے کی شدید خواہش تھی۔ محض اس وجہ سے نہ جا سکا کہ اسے اولاد پر اعتبار نہ تھا۔ ایک غیرمرئی خوف اس کے ذہن پر سوار رہتا۔ مبادا اولاد بھی وہی کام نہ کر ڈالے جس کا وہ خود مرتکب ہوا تھا....اس کے بعد تو کوئی بیدار مغز حکمران نہ آیا۔ بادشاہ برائے نام حکومت کرتے رہے۔ عیش و نشاط ، نغمہ و چنگ، بادہ گلُرنگ میں ڈوبے ہوئے لوگ صرف لمحہ موجود پر یقین رکھتے تھے۔ انہیں اس بات کا ادراک نہ تھا کہ آنے والا کل مسلمانوں پر کیا عذاب لائے گا۔
اس تناظر میں ایک مایوس بکھری ہوئی قوم کومتحد کرنا آسان کام نہ تھا۔ گو سرسید احمد خان اور علامہ اقبال کی خدمات کا اعتراف بھی ضروری ہے لیکن بدقسمتی سے وہ اصل جدوجہد سے پہلے ہی وفات پا گئے تھے۔ خطبہ الہ آباد میں ایک آزاد مسلم ملک کی نشاندہی ضرور کی تھی لیکن خدوخال 1940ءمیں اُبھرے۔
حیاتِ قائد کا اس محدود کالم میں جائزہ نہیں لیا جا سکتا۔ چند واقعات لکھنے کا مقصد ان کی اصول پرستی، حاضر دماغی اور بذلہ سنجی کو اُجاگر کرنا ہے۔ کوئی شخص قریباً 72سال کی عمر تک صراط مستقیم پر چلا ہو، اپنے مسلک کا احترام کیا ہو، اصولوں سے سرِمو بھی انحراف نہ کیا ہو، ممکن نظر نہیں آتا۔ محمد علی جناح نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔
شیخ عبداللہ اپنی سوانح عمری ”آتشِ چنار“ میں لکھتے ہیں۔ 1940ءکے اوائل میں قائد کشمیر آئے اور ڈل جھیل میں قیام فرمایا۔ شیخ صاحب انہیں ملنے گئے۔ یہ ان کی پہلی ملاقات تھی۔ ان دنوں ہندو مسلم فساد کا بڑا خطرہ تھا کیونکہ ان کے درمیان ا یک مقدمہ چل رہا تھا جس کا عنوان تھا ”حنیفہ بیگم بنام نیاز علی تھانیدار“ اس کا تعلق نکاح سے تھا۔ شیخ صاحب نے قائد کو درخواست کی کہ وہ مسلمانوں کا مقدمہ لڑیں۔ قائد راضی ہو گئے لیکن ساتھ ہی فرمایا۔ WHAT ABOUT MY FEE? شیخ صاحب کی حیرانی کو بھانپتے ہوئے بولے۔ ”میں اپنی فیس سے زیادہ چندہ دونگا۔ لیکن پیشہ ورانہ ایمان داری کا تقاضہ ہے کہ میں فیس لوں اور وہ ایک ہزار روپے یومیہ ہو گی۔ مسلمان راضی ہو گئے۔ انگریز جج کے سامنے قائد نے پہلے ہی روز اسلامی کیلنڈر سے ایک ایسا نکتہ نکالا کہ فیصلہ مسلمانوں کے حق میں ہو گیا۔ گویا جیت کے علاوہ مسلمانوں کو چندے کی شکل میں ایک خطیر رقم بھی مل گئی....
قائد ہمیشہ ٹرین میں فرسٹ کلاس میں سفر کرتے تھے۔ ان دنوں خال خال ہندوستانی اتنا مہنگا سفر ”افورڈ“ کر سکتے تھے۔ جب ٹرین چلی تو ایک خوبصورت جوان عورت ڈبے میں گھس آئی۔ جناح کو بلیک میل کرتے ہوئے بولی۔ مجھے ایک خطیر رقم دو وگرنہ میں شور مچا دونگی، قائد اعظم کی حاضر دماغی ملاحظہ فرمائیں۔ انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے اسے بتایا کہ وہ سماعت سے معذور ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے اسے کاغذ اور قلم دیا کہ وہ لکھ کر اپنی ڈیمانڈ بتائے۔ اس نے تحریری طور پر رقم طلب کی۔ قائد نے کاغذ لیکر گاڑی روکنے والی زنجیر دبا دی۔ بیچاری کو لینے کے دینے پڑ گئے....گاندھی اور مولانا ابوالکلام آزاد سے نوک جھونک چلتی رہتی تھی۔ مہاتما بھی ان کی حس مزاح کے معترف تھے۔ مولانا کو وہ ”شو بوائے آف کانگرس“ کہتے۔ ایک مٹی کا مادھو! اس کا احساس مولانا کو آزادی ملنے کے بعد ہوا۔ وزارت عظمیٰ ہندو نے لے لی۔ داخلہ پٹیل کو ملی۔ انہیں ملی بھی تو بے ضرر وزارت تعلیم۔
اگر ان کی کتاب INDIA WINS FREEDOM پڑھیں تو بین السطور ایک ہی تاثر اُبھرتا ہے، ”میں پشیماں ہوں، پشیماں ہے میری تدبیر بھی ۔
قائد اعظم کی رحلت کے بعد جو ہوا اور جو کچھ ہو رہا ہے ، وہ ہماری تاریخ کا ایک المناک باب ہے۔ کس قدر افسوس ناک بات ہے کہ اس قدر قربانیاں دینے کے بعد بھی وہ مقاصد حاصل نہیں ہو سکے جن کے لئے پاکستان بنایا گیا تھا۔ اس اکتہر سال کے عرصے میں منزل تو بڑی دُور کی بات ہے، نشان منزل بھی دھندلا گیا ہے۔ ہمسایہ ملک میں جمہوریت کا پودا ایک تن آور درخت بن گیا ہے اور ہم ابھی تک ”رفت“ اور ”بُود“ سے آگے نہیں بڑھ سکے۔
وہاں جب جواہر لعل نہرو جمہوری طریقے سے ایک تسلسل اور تواتر کے ساتھ منتخب ہو رہا تھا تو ہمارا ملک سازشوں کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔ نوکر شاہی کے کھوٹے سکے چل رہے تھے۔ معذور غلام محمد، مقہور سکندر مرزا، مغرورایوب خان، المشہور یحییٰ خان، وغیرہ جمہوری حکومتیں بھی نفسانفسی، بدعملی اور رعونت کا شکار رہیں۔ اس ملک میں زندانِ نازیاں کی طرح دلائی کیمپ بنائے گئے۔ دشمنوں کو مکھیوں اور مچھروں کی طرح مارا گیا۔ دولت کے ہمالہ کھڑے کئے گئے۔ مخالفوں کو کوڑے مار کر سر بازار رسوا کیا گیا۔ فیض نے کہا تھا:
”جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے“
شاعر نے تو وہ راستہ خود چُنا تھا۔ یہاں راہ مخالف فریق دکھاتا ہے۔ آج جب روح قائد اس ملک کا طواف کرتی ہو گی تو کس قدر مضطرب اور مضمحل ہوتی ہو گی! اس کے سوا کہا بھی کیا جا سکتا ہے۔
اے محسن اعظم ....ہم شرمندہ ہیں۔