کاروان قائد کا ایک اورچراغ بجھ گیا اور یہ چراغ تھا قائداعظم محمد علی جناح کا سابق اے ڈی سی بریگیڈ یر نور حسین جو خزانہ معلوما ت تھا۔ بریگیڈیئر صاحب کئی عہدوں پر رہے لیکن میرے نزدیک ان کا اصل اعزاز یہ تھا کہ وہ قائداعظم محمد علی جناح گورنر جنرل پاکستان کے اے سی ڈی رہے۔ وہ قائداعظم کی علالت اور زیارت میں قیام کے عینی شاہد تھے۔ یہ تفصیلات بتاتے ہوئے وہ بار بار ”عظیم شخصیت“ کا لفظ استعمال کرتے اور انکی آنکھیں بھیگ جاتیں۔ ان سے باتیں کرتے مجھے ہمیشہ یوں محسوس ہوا جیسے قائداعظم کے ساتھ گزرا ہوا ان کا وقت ایک مکمل فلم کی مانند ہے‘ انکے حافظے میں محفوظ ہے اور وہ لمحات کی باریکیوں سے یوں واقف ہیں جیسے یہ ابھی کل کی بات ہو۔
ہم بنیادی طورپر ” علم دوست“ قوم نہیں، جب تک بریگیڈیئر صاحب زندہ تھے اور انکے جسم میں توانائی کی حرارت تھی میں مختلف اداروں سے کہتا رہا کہ ان سے تفصیلی انٹرویوز کرکے محفوظ کرلو کہ وہ ساری انفارمیشن لیکر دنیا سے رخصت ہوجائینگے لیکن مجھے علم نہیں کہ میری فریاد پر مشتمل انٹرویو کیا تھا۔ میری اطلاع کے مطابق اب کاروان قائداعظم کی صرف ایک نشانی باقی ہے اور وہ ہیں رضا ربانی کے والد گرامی جناب عطا ربانی صاحب جو قائداعظم کے اے ڈی سی رہے۔
قائداعظم سے زیارت میں وزیراعظم لیاقت علی خان کی ملاقات پر خاصے شکوک و شہبات کے بادل چھائے ہوئے ہیں اور اس سے باقاعدہ ایک سازشی تھیوری تشکیل دی جاچکی ہے اس لئے مجھے اس موضوع میں خاصی دلچسپی تھی۔کسی بحث میں الجھے بغیر یہ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ میرے مشاہدے کےمطابق کسی بھی حکمران کا اے ڈی سی اس سے قریب ترین شخص سمجھاجاتا ہے جو اندرون و بیرون خانہ ہر راز سے واقف ہوتا ہے۔ چونکہ قائداعظم کی زندگی کے آخری ایام کے دوران زیارت میں لیاقت علی خان کی ان سے ملاقات کو سازش کا رنگ دیاجاچکا ہے اس لئے میں نے ایک بار بریگیڈئیر نور حسین سے اس ضمن میں تفصیلی بات کی۔بریگیڈیئر صاحب علیل تھے لیکن انہیں ایک ایک تفصیل یوں ازبر تھی جیسے کل کی بات ہو، کہنے لگے کہ قائداعظم کے ملٹری سیکرٹری کراچی میں تھے اور میں قائداعظم کے ساتھ زیارت میں تھا۔ایک روز ملٹری سیکرٹری کے ذریعے پیغام ملا کہ قائداعظم لیاقت علی خان حکومت پاکستان کے سیکرٹری جنرل چودھری محمد علی کے ہمراہ گورنر جنرل سے ملاقات کیلئے وقت مانگ رہے ہیں۔
بریگیڈئیر صاحب کے بقول انہوں نے خود یہ پیغام قائداعظم کو پہنچایا جس کے جواب میں قائداعظم نے نہایت خوشی سے انہیں وقت دیا جس روز وزیراعظم کو براستہ کوئٹہ زیارت آنا تھا۔ قائداعظم نے اے ڈی سی سے ان کی آمد کی تصدیق کی اور انتظامات کے بارے میں بوچھا۔قائداعظم نے وزیراعظم کی آمد اور ملاقات کو اتنی اہمیت دی کہ دوپہر کے کھانے کا مینو خود طے کیا اور انکے استقبال کے حوالے سے ہدایات دیں۔ بریگیڈیئر صاحب بتا رہے تھے کہ جب وزیراعظم صاحب اور چوہدری محمد علی تشریف لے آئے تو میں نے جاکر قائداعظم کو انکی آمد کی اطلاع دی۔ انہوں نے فرمایا کہ مہمانوں کو میرے پاس لے آئیں۔ بریگیڈیئر صاحب کا کہنا تھا کہ وہ خود وزیراعظم اور سیکرٹری جنرل چودھری محمد علی کوقائداعظم کے کمرے میں لے کر گئے۔ان دنوں قائداعظم شدید علیل تھے اور اس قدر نحیف ہوچکے تھے کہ بازو بھی اٹھانے سے قاصر تھے لیکن لیاقت علی خان کو دیکھ کر انہوں نے مسکراکر بازو اٹھایا اور خوش آمدید کہا۔
کچھ دیر چودھری محمد علی بھی قائداعظم سے ملاقات میں شامل رہے پھر وہ نیچے آکر اے ڈی سی کے کمرے میں بیٹھ گئے۔یہ گورنر جنرل کی وزیراعظم سے ون ٹو ون آخری ملاقات تھی جس میں قائداعظم معالج کرنل الٰہی بخش، چودھری محمد علی اور وزیراعظم تھے اور چند لمحوں کے بعد مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح بھی تشریف لے آئیں کہ انہوں نے دوپہر کے کھانے میں قائداعظم کی نمائندگی کرنا تھی۔ اس ملاقات میں وزیراعظم لیاقت علی خان قائداعظم کی صحت کے بارے میں تشویش اور تفکر کا اظہار کرتے رہے اور وہ برابر کرنل الٰہی بخش سے علاج کی تفصیلات پوچھتے رہے۔
وزیر اعظم نے کرنل الٰہی بخش کو یہ پیشکش بھی کہ اگر وہ بیرون ملک سے کسی ماہر ڈاکٹر کو بلانا چاہتے ہیں تو بتائیں حکومت فوراً انتظامات کریگی۔ اس موقع پر لیاقت علی خان نے کہا کہ قائداعظم ہمارے لئے محترم ترین شخصیت اور قوم کا قیمتی ترین اثاثہ ہیں اس لئے انکے علاج و معالجے میں کوئی کسر نہیں رہنی چاہئے۔ انہی دنوں پاکستان کے امریکہ میں سفیر اصفہانی صاحب بھی قائداعظم کی مزاج پرسی کیلئے آئے تھے ا ور انہوں نے بھی امریکہ سے ماہر ڈاکٹر بھجوانے کی بات کی تھی لیکن قائداعظم کا کہنا تھا کہ میرے غریب ملک کا خزانہ ایسے اخراجات کا متحمل نہیں ہوسکتا۔اس دردمندی اور سوچ کا آج کے حکمرانوں سے موازنہ کریں تو آپ ہاتھ ملتے رہ جائینگے۔ چند دنوں کے بعد جب قائداعظم شدید ترین علالت کا شکار ہوگئے تو انہیں کراچی لے جانے کا فیصلہ کیا گیا۔بریگیڈیئر نور حسین کا کہنا تھا کہ انہوں نے ہی کراچی میں گورنر جنرل کے انگریز ملٹری سیکرٹری کو قائداعظم کی آمد کی اطلاع دی اور انتظامات کرنے کیلئے کہا۔بریگیڈیئر صاحب کا کہنا تھا کہ آمد کی اطلاع وزیراعظم اور کابینہ کو نہیں دی گئی تھی جیسا کہ پرائیویٹ وزٹ کے موقع پر ہوتا ہے پھر اسکے بعد وہ تکلیف دہ واقعہ پیش آیا کہ قائداعظم کی ایمبولینس خراب ہوگئی محترمہ فاطمہ جناح انہیں پنکھا جھلتی رہیں اور دوسری ایمبولینس کو آنے میں کوئی نصف گھنٹہ گزرگیا۔
بریگیڈیئر صاحب نے میرے سوالات کے جواب میں بتایا کہ جب وزیراعظم لیاقت علی خان کو قائداعظم کی آمد کا پتہ چلا تو وہ کابینہ کی میٹنگ ادھوری چھوڑ کر ائر پورٹ کی جانب آئے لیکن ان کی آمد سے قبل قائداعظم کا کارواں شہر کیلئے روانہ ہوچکا تھا۔ بریگیڈیئر صاحب عینی شاہدکی حیثیت سے صرف وہ واقعات بتا رہے تھے جو انہوں نے دیکھے چنانچہ اس حوالے سے وہ بہت سے سوالات کا جواب دینے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔ مثلاً یہ کہ وزیراعظم کو گورنر جنرل کی آمد کی اطلاع کیوں نہ دی گئی۔وہ خود ائر پورٹ پر کیوں نہ آئے اور جب وہ تاخیر سے پہنچے تو وہاں سے سیدھا گورنر جنرل ہاﺅس کیوں نہ گئے۔ بریگیڈیئر صاحب نے دی نیوز میں قائداعظم کی آخری ایام کے بارے میں مضمون بھی لکھا تھا جس میں وضاحت کی تھی کہ آج کے چکا چوند دور میں یہ اندازہ کرنا محال ہے کہ ان دنوں کراچی کی بے سروسامانی کا کیا حال تھا اور پورے شہر میں صرف دو ایمبولینس گاڑیاں تھیں۔
بریگیڈیئر صاحب سے گفتگو نے میرے وہ مخمصے رفع کردئیے،اول تو یہ کہ قائداعظم کے جانشین خواجہ ناظم الدین ہوں گے یہ فیصلہ کس نے کیا اور دوم قائداعظم کی نماز جنازہ کے بارے میں فیصلہ کیسے ہوا؟ بریگیڈیئر صاحب نے مجھے بتایا کہ جب وزیراعظم لیاقت علی خان زیارت میں قائداعظم سے ون ٹو ون ملاقات کرکے نیچے آئے تو انہوں نے آتے ہی سیکرٹری جنرل حکومت پاکستان چودھری محمد علی سے کہا کہ وہ خواجہ ناظم الدین اور مولانا شبیر احمد عثمانی کو فون کرکے کہہ دیں کہ وہ کراچی میں موجود رہیں۔ اس سے بریگیڈیئر صاحب یہ نتیجہ نکالتے تھے کہ قائداعظم نے اپنی علالت کے پیش نظر یہ ہدایات خود وزیراعظم کو آخری ملاقات میں دی تھیں۔گویا یہ دونوں فیصلے خود قائداعظم کے اپنے تھے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38