شرم آنی چاہئے ان ناہینجاروں اور ناعاقبت اندیشوں کو جو بانی ¿ پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ کو ”سیکولر“ کہہ کر اپنی زبانوں کو گندا کرتے ہیں۔ کیا ان کے پاس پراپیگنڈا کو غلط ثابت کرنے کیلئے بانی ¿ پاکستان کا صرف نام ہی محمد علی کافی نہیں ہے۔ حضرت قائداعظم ؒمحمد علی جناح کے ایک پکے مسلمان اور سچے عاشق رسول ہونے میں جو ذرا بھر بھی شک کرتا ہے ،اسے فوراً اپنے ایمان اور اپنی ذات کا محاسبہ کرنا چاہئے۔ آپ کی ذات مقدسہ سے محمد علی جناحؒ کے عشق کا یہ عالم تھا کہ وہ حضور نبی کریم کو صرف عظیم ہستی ہی نہیں سمجھتے تھے بلکہ ان کے نزدیک آپ دنیا کی تمام ہستیوں سے بھی عظیم تھے۔ آپ نے لوگوں کو صرف عبادت و ریاضت کا طریقہ نہیں بتایا بلکہ زندگی کے ہر شعبہ میں ان کی رہنمائی، اب بھی مسلمانوں کی نجات اور کامیابی حضور نبی کریم کی اتباع میں مضمر ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی زندگی کو مکمل طور پر حضور کی تعلیمات کے مطابق بنانے کی کوشش کریں۔ پاکستان کے مسلم معاشرے کو اعلیٰ اقدار و روایات کے اعتبار سے دنیا کے لئے مثال بنائیں۔
25 جنوری 1948ءکو بار ایسوسی ایشن کراچی سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم ؒنے فرمایا کہ ”رسول اللہ کی زندگی انتہائی سادہ تھی۔ آپ نے جس کام میں بھی ہاتھ ڈالا ،کامیابی نے آپ کے قدم چومے۔ تجارت سے لے کر حکمرانی تک ہر شعبہ حیات میں آپ مکمل طور پر کامیاب رہے۔ رسالت مآب پوری دنیا کی عظیم ترین ہستی تھے۔ 1300 سال قبل ہی آپ نے جمہوریت کی بنیاد رکھ دی تھی۔“
آپ کی اتباع و اطاعت مسلمانوں پر فرض ہے، اس کے باوجود آپ نے حکمرانی و فرمانروائی کا جو نمونہ پیش کیا، اس کا بنیادی اصول ”وامرھم شوریٰ بینھم“ سچی جمہوریت سچے اصول کی پیروی میں مضمر ہے۔ جب مسلمان اپنے اجتماعی مسائل میں باہمی مشورہ کرتے ہیں تو درحقیقت حضور کے اسوہ حسنہ ہی کی پیر وی کرتے ہیں۔ قائداعظم ؒنے اس تقریر میں اسلام کے اس عظیم الشان اصول کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ”اسلام کا سبق یہ ہے کہ مملکت کے امور و مسائل کے بارے میں فیصلے باہمی بحث و تمحیص اور مشوروں سے کیا کرو۔“
14 جولائی 1947ءکو نئی دہلی میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظمؒ نے فرمایا کہ ”جب آپ جمہوریت کی بات کرتے ہیں تو مجھے شبہ ہوتا ہے کہ آپ نے اسلام کا مطالعہ نہیں کیا، ہم نے جمہوریت 1300 سال پہلے سیکھ لی تھی۔ “ جمہوریت کے ساتھ کبھی اسوہ حسنہ کا حوالہ، کبھی اسلامی تصورات اور اصولوں کی شرط، کبھی 1300 سال پہلے کی طرف اشارہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ آپ مغربی جمہوریت اور اسلامی جمہوریت سے بخوبی آشنا تھے اور اس طرح کے باربار اعلانات قائداعظمؒ ان لوگوں کے جواب میں بھی کرتے جو کبھی تو یہ کہتے تھے کہ پاکستان میں لادین نظام حکومت قائم ہوگا، جس میں اسلام کو کوئی خاص مقام حاصل نہ ہوگا۔
25 جنوری 1948ءکو کراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ ”میں ان لوگوں کی بات نہیں سمجھتا جو دیدہ دانستہ اور شرارت سے یہ پراپیگنڈا کرتے رہتے ہیں کہ پاکستان کا دستور شریعت کی بنیاد پر نہیں بنایا جائے گا‘ اسلام کے اصول عام زندگی میں آج بھی اس طرح سے قابل اطلاق ہیں جس طرح 1300 سال پہلے تھے۔ حضرت قائداعظمؒ کی تقاریر میں بار بار 1300 سال پہلے کا تکرار یہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کے نزدیک مسلمانوں کا مرکز صرف اور صرف حضور نبی کریم کی ذات مقدسہ ہے، یہی وجہ ہے کہ خاک مدینہ ہمیشہ قائداعظمؒ محمد جناح کی آنکھوں کا سرمہ بنی رہی۔ قائداعظمؒ کو قیام پاکستان کے بعد صرف 13 ماہ حکومت کرنے کا موقع ملا اور اس دوران وہ شدید قسم کے مسائل سے دوچار رہے، اس لئے وہ نفاذ اسلام کے سلسلے میں ضروری اقدامات نہ کر سکے مگر اپنے متعدد ارشادات میں وہ اس مسئلے پر روشنی ڈال گئے کہ حصول پاکستان شرع اسلامی کے نفاذ کی خاطر ہے۔
مولانا شبیر احمد عثمانی نے اس لئے قائداعظمؒ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ ”اورنگزیب عالمگیر کے بعد ہندوستان نے اتنا بڑا مسلمان پیدا نہیں کیا جس کے مضبوط ارادوں غیر متزلزل ایمان نے ہند کے 10 کروڑ مسلمانوں کی مایوسیوں کو کامرانیوں میں بدل دیا۔“
حضرت قائداعظمؒ نے ایک موقع پر فرمایا کہ ”جمہوریت کا سبق ہم نے اسلام اور اس کے نظریات سے سیکھا ہے، اسلام نے ہمیں مساوات انصاف اور ہر ایک سے رواداری کا درس دیا ہے۔ ہم ان عظیم الشان روایات کے وارث اور امین ہیں۔ پاکستان کے آئندہ دستور کے معماروں کی حیثیت سے ہم اپنی ذمہ داریوں اور فرائض سے بخوبی آگاہ ہیں۔“
اسی طرح جنوری 1948ءمیں عید میلادالنبی کے موقع پر قائداعظمؒ نے بالصراحت فرمایا تھا کہ قیام پاکستان کا ہدف شرع اسلامی کا نفاذ تھا۔ 14 اگست 1948ءکو قائداعظمؒ نے قوم کو جو پیغام دیا‘ وہ ان کا آخری پیغام ثابت ہوا کیونکہ اس کے بعد ایک ماہ کے اندر 11 ستمبر 1948ءکو ان کا انتقال ہوا۔ قائداعظمؒ کا یہ آخری پیغام 63 سال بعد بھی آج ہمیں دلجمعی اور ولولہ تازہ دے رہا ہے۔
”پاکستان کا قیام ایک ایسی حقیقت ہے کہ دنیا کی تاریخ میں اس کی مثال ملنا محال ہے اگر ہم نے پوری دیانتداری‘ خلوص اور مستعدی سے کام کیا تو پاکستان بہت جلد اہل عالم میں شاندار حیثیت اختیار کرے گا‘ مجھے پورا اعتماد ہے کہ پاکستانی عوام ہر موقع پر اسلامی تاریخ کی روایات‘ عظمت اور شان و شوکت کو زندہ کر دکھائیں گے۔“
٭............٭............٭
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38