محسن ِپاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان، الوداع!
پاکستان کے جوہری پروگرام میں سب سے اہم کردار ادا کرنے والے سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خان اتوار کو اسلام آباد میں خالق ِ حقیقی سے جا ملے۔ وہ حقیقی معنوں میں محسنِ پاکستان تھے اور انہوں نے ملک کی خدمت کے لیے اپنے ذاتی مفادات کو تج کر یہ ثابت کیا وہ پاکستان کے سچے عاشق تھے۔ 85 برس کی عمر میں انتقال کرنے والے ڈاکٹر عبدالقدیر خان آخری وقت تک وطنِ عزیز سے محبت کا دم بھرتے رہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر وہ پاکستان کے جوہری پروگرام کو آگے بڑھانے کے لیے کلیدی کردار ادا نہ کرتے تو شاید پاکستان کو اپنے ازلی دشمن بھارت کے مذموم عزائم کے آگے اپنی جوہری قوت کے ذریعے بند باندھنے میں مزید کئی سال کا عرصہ لگ جاتا اور اس وقت تک حالات کس ڈگر پر جا نکلتے اس بارے میں کوئی بھی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے نہ صرف پاکستان کی بقا اور استحکام کے لیے کام کیا بلکہ خطے میں قیام ِ امن اور طاقت کے توازن کو قائم کرنے کے لیے بھی ایسی جدوجہد کی جس کو بھلایا نہیں جاسکتا۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی خدمات کے صلے کے طور پر قوم نے انہیں بے پناہ محبت اور عقیدت سے نوازا۔ قوم کی ان سے محبت اور وابستگی کا ثبوت سوشل میڈیا سے بھی ملتا ہے جہاں ان کی وفات کی خبر ملتے ہی لوگوں نے انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے مختلف طرح کے اظہاریے لکھنے اور پوسٹس شیئر کرنا شروع کیں اور یہ سلسلہ تادمِ تحریر جاری ہے۔ لوگوں نے جہاں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو سماجی رابطے کی ویب گاہوں پر خراجِ عقیدت پیش کیا وہیں ماضی کے کچھ ناخوشگوار واقعات کی بنیاد پر حکومتی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی نمازِ جنازہ فیصل مسجد میں ادا کی گئی۔ نماز جنازہ پروفیسر ڈاکٹر محمد الغزالی نے پڑھائی، نمازِ جنازہ کی ادائیگی کے لیے لوگ بڑی تعداد میں فیصل مسجد میں موجود تھے۔ نماز جنازہ میں وفاقی وزراء اور اعلیٰ عسکری قیادت نے بھی شرکت کی۔ حکومت کی جانب سے قومی ہیرو کی سرکاری اعزاز کے ساتھ، اہل خانہ کی خواہش کے مطابق، ایچ ایٹ کے قبرستان میں تدفین کی گئی اور اس موقع پر قومی پرچم سرنگوں کرنے کا اعلان کیا گیا۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان 26 اگست 2021ء کو کورونا وائرس سے متاثر ہوئے تھے جس کے بعد ان کی حالت اچانک بگڑ گئی تھی اور انہیں کہوٹہ ریسرچ لیبارٹری ہسپتال میں داخل کیا گیا تھا تاہم کچھ روز بعد ان کی طبیعت سنبھلنے لگی تھی جس کے بعد انہیں واپس گھر منتقل کر دیا گیا تھا۔ 11 ستمبر کو میڈیا کو جاری کردہ ویڈیو پیغام کے ذریعے اانہوں نے بتایا تھا کہ وہ صحت یاب ہو چکے ہیں تاہم انہیں طبیعت خراب ہونے پر اتوار کی صبح کو دوبارہ ہسپتال لے جایا گیا جہاں وہ جانبر نہ ہو سکے۔ ان کی وفات پر حکومتی شخصیات اور سیاست دانوں کے علاوہ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے گہرے غم اور افسوس کا اظہار کیا۔
اس حوالے سے وزیراعظم عمران خان نے ٹوئٹر پر لکھا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے انتقال پر بے حد افسردہ ہوں۔ ہمیں ایک جوہری اسلحے سے لیس ریاست بنانے میں ان کے اہم کردار کے باعث قوم انہیں محبوب رکھتی تھی۔ ان کی اس خدمت نے ہمیں خود سے بہت بڑے ایک جارحیت پسند اور جوہری ہمسایے سے محفوظ بنایا۔ عوامِ پاکستان کے لیے ان کی حیثیت ایک قومی ہیرو کی سی تھی۔ سماجی رابطے کے اسی ذریعے سے صدر مملکت عارف علوی نے کہا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی وفات کا جان کر بہت دکھ ہوا۔ میں انہیں ذاتی طور پر 1982ء سے جانتا ہوں۔ انہوں نے ہمیں قوم کی حفاظت کے لیے جوہری اہلیت حاصل کرنے میں مدد دی اور قوم اس حوالے سے ان کی خدمات کبھی بھی نہیں بھولے گی۔ اللہ ان پر رحمت نازل کرے۔ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی اور تمام سروسز چیفس نے بھی ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی وفات پر گہرے دکھ کا اظہار کیا۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر قدیر نے پاکستان کے دفاع کو مضبوط بنانے کے لے گراں قدر خدمات سر انجام دیں۔
1974ء میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو سے یورینیم کی افزودگی کے معاملے پر رابطوں کے بعد 1976ء میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان واپس پاکستان آئے اور 31 مئی 1976ء کو انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹریز کی بنیاد رکھی۔ اس ادارے کا نام یکم مئی 1981ء کو جنرل ضیاالحق نے تبدیل کر کے ان کے نام پر ڈاکٹر اے کیو خان ریسرچ لیبارٹریز رکھ دیا۔ یہ ادارہ پاکستان میں یورینیم کی افزودگی میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔ وہ ایک طویل عرصے تک اس پروگرام کے سربراہ رہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ان کی ملک و قوم کے لیے خدمات کے اعتراف کے طور پر دو مرتبہ ملک کا سب سے بڑا سول اعزاز نشانِ امتیاز دیا گیا۔ پہلی بار انہیں یہ اعزاز 14 اگست 1996ء کو صدر فاروق لغاری نے دیا اور پھر 28 مئی 1998ء کو بلوچستان کے شہر چاغی میں کیے جانے والے جوہری دھماکوں کے بعد اگلے برس یعنی 1999ء میں اس وقت کے صدر رفیق تارڑ نے انہیں اس اعزاز سے نوازا۔ قبل ازیں، 1989ء میں انہیں ہلالِ امتیاز کے اعلیٰ سول اعزاز سے بھی نوازا گیا تھا۔ فوجی صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے سرکاری ٹی وی پر دیگر ممالک کو جوہری راز فروخت کرنے کے الزامات تسلیم کروا کر معافی منگوائی گئی اور اس کے بعد ان کو گھر میں نظربند کر دیا گیا۔ پانچ برس بعد اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم پر یہ نظربندی تو ختم ہوگئی لیکن اپنی وفات تک انہیں کبھی آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت نہیں ملی۔
ادارۂ نوائے وقت نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان پر مشکل وقت آنے پر کھل کر ان کا ساتھ دیا اور حکومتی پالیسیوں پر تنقید بھی کی۔ ادارے کے مینیجنگ ڈائریکٹر اور روزنامہ نوائے وقت کے ایڈیٹر مجید نظامی نے اس سلسلے میں کسی قسم کے دباؤ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے تقریباً دو برس تک مسلسل ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی نظر بندی کے خلاف بلا معاوضہ اشتہار شائع کیا جس کی پاداش میں نوائے وقت کو سرکاری اشتہارات کی بندش کا سامنا بھی کرنا پڑا لیکن اس کے باوجود مجید نظامی ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ساتھ کھڑے رہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی زندگی کے اہم واقعات پر جب بھی بیان کیے جائیں گے اس سلسلے میں ادارۂ نوائے وقت کا نام بھی جلی حروف میں لکھا جائے گا۔