احتجاجی تحریکوں کا انجام؟

قیام پاکستان کی تحریک بے مثال کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ اس کے نتیجے میں جنوبی ایشیاء کے مسلمانوں کو ایک الگ وطن مل گیا۔ پاکستان بننے کے بعد پاکستان کو سُدھارنے اور اسے مستحکم بنانے کے لیے جتنی بھی تحریکیں چلائی گئیں ان کے نتیجے میں ملک میں مزید بگاڑ پیدا ہوا حالات بہتر نہیں ہوئے پاکستانیوں کی زندگی میں اس طرح کی بہتری نہیں آئی جسے حاصل کرنے کے لیے تحریکیں چلائی جاتی رہیں۔
1968 ء میں پاکستان کے پہلے فوجی حکمران جنرل ایوب خان جنہوں نے 1958ء میں ملک میں مارشل لا لگا دیا تھا کے خلاف مشرقی اور مغربی پاکستان کے سیاست دانوں نے ایک زور دار تحریک چلائی۔ اس تحریک کا مقصد ملک میں پارلیمانی نظام کی بحالی بالغ رائے کی بنیاد پر عام انتخابات اور ون یونٹ کا خاتمہ تھا۔ اس تحریک کے دباؤ کے نتیجے میں ایوب خان سیاست دانوں سے مذاکرات پر مجبور ہوئے۔ ایوب خان اور سیاست دانوں کے درمیان ایک گول میز کانفرنس 1968ء میں منعقد ہوئی جس میں طے ہوا کہ ون مین ون ووٹ کو بنیاد پر نئے انتخابات ہوں گے اور اقتدار منتخب نمائندوں کو منتقل کیا جائے گا لیکن ایوب خان اور سیاست دانوں کے درمیان ہونے والے سمجھوتے پر عملدرآمد نہ ہوسکا۔ جنرل یحییٰ خان نے مارچ 1969 میں مارشل لاء لگا دیا۔
1977 میں بھٹو حکومت پر 7 مارچ 1977ء میں ہونے والے قومی اسمبلی کے انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگا کر احتجاجی تحریک شروع کرنے والی اپوزیشن پاکستان قومی اتحاد نے جس میں نو جماعتیں شامل تھیں بھٹو کے خلاف احتجاجی تحریک شروع کی۔ یہ بہت زور دار تحریک تھی جس نے زندگی کا نظام قریباً قریباً مفلوج کر دیا تھا تحریک کے دباؤ کے نتیجے میں حکمران جماعت پیپلز پارٹی اور قومی اتحاد میں مذاکرات شروع ہوئے۔ جن کا مقصد ملک میں نئے انتخابات کرانا تھا۔ پی پی پی کی مذاکراتی ٹیم کے ارکان اور قومی اتحاد کے مذاکرات کاروں نے اپنی کتابوں اور انٹرویوز میں دعویٰ کیا ہے کہ ملک میں نئے انتخابات کرانے میں اتفاق کرلیا گیا تھا لیکن پانچ جولائی 1977ء کو مارشل لاء لگا دیا گیا۔ چیف مارشل ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیاء الحق نے اپنی پہلی کانفرنس میں اعلان کیا تھا کہ وہ نوے دن میں انتخابات کراکے اقتدار منتخب نمائندوں کے حوالے کر دیں گے۔ لیکن وہ گیارہ برس تک ملک میں حکمرانی کرتے رہے۔
جنرل ضیاء الحق کے بعد نوے کے دہائی میں پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ ایک دوسرے کی حکومتوں کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کرتی رہیں ہر احتجاج شفاف انتخابات کے انعقاد اور کرپشن کے خاتمے کے لیے ہوتا رہا لیکن نہ تو شفاف انتخابات ہوئے اور نہ ہی کرپشن ختم ہوئی۔ کرپشن میں تو اس قدر اضافہ ہوتا چلا گیا کہ خدا کی پنا ہ اب تو ایسا لگتا ہے کہ ہر ادارہ اور ہر فرد کسی نہ کسی انداز میں کرپشن میں ملوث ہے۔
ایک مرتبہ پھر پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے نام سے مسلم لیگ (ن) ‘ پی پی پی ‘ جمعیت علمائے اسلام اور دوسری جماعتوں نے عمران خان کی حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے اس تحریک کی تیاریاں ہورہی ہیں پہلا جلسہ 16 اکتوبر کو گوجرانوالا میں منعقد ہورہا ہے۔ اس سلسلہ میں عوامی طاقت کا مظاہرہ کیا جائے گا یہ تحریک کیا شکل اختیار کرے گی اور اور اس کے نتیجے میں کیا ملک میں اسٹیبلشمنٹ کے اثر سے پاک جمہوریت بحال ہوگی۔ پاکستان کے عوام کو بدعنوانی‘ مہنگائی ‘ ناانصافی سے نجات مل جائے گی۔ اس بارے میں کسی کے پاس کوئی جواب نہیں۔
عمران خان نے اس تحریک کے مقابلے کے لیے اپنا پہلا اجلاس ’’انصاف لائیررز‘ کے پلیٹ فارم سے کنونشن سنٹر اسلام آباد میں منعقد کیا ہے اور اپوزیشن کو للکارا ہے کہ اگر کسی نے قانون کو ہاتھ میں لینے کی کوشش کی تو سخت ایکشن لیا جائے گا۔ خان صاحب نے اپنا یہ موقف پھر دہرایا ہے ۔ یہ تحریک لوٹا ہوا مال بچانے کے لیے ہے۔ جمہوریت کی بالادستی کے لیے نہیں۔ حکومت اور اپوزیشن کے تیور بتاتے ہیں کہ حالات ایک تصادم کی صورت اختیار کرسکتے ہیں ملک میں بڑے پیمانے پر امن وامان کی صورت حال پیدا ہوسکتی ہے اپوزیشن ارکان اگر پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں سے استعفے دیتے ہیں تو اس سے بھی ایک سیاسی بحران پیدا ہوگا۔ اس بحران سے نمٹنے کے لیے کیا طریقہ کار اختیار کیا جائے گا؟ ملک کو کسی ڈیڈلاک سے نکالنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کو بھی مداخلت کرنا پڑے گی اس مداخلت کا نتیجہ کیا برآمد ہوگا۔ اس بارے میں کوئی بات واضح نہیں پی ڈی ایم کی تحریک بھی ماضی کی احتجاجی تحریکیوں کی طرح اپنے مقاصد حاصل کرنے میں شاید کامیاب نہ ہو۔ پاکستان اور اس کے عوام کو بھی اس تحریک سے کوئی بڑا فائدہ نہیں ہوگا۔
٭…٭…٭