جوہری جنگ کے خاتمے کے امکانات مسئلہ کشمیر کے حل ہی سے ختم ہو سکتے ہیں
چین کا کشمیر ایشو پر پاکستان کا ساتھ دینے کے عزم کا اعادہ‘ وادی میں پابندیوں میں نرمی کے لغو بھارتی دعوے
بیجنگ میں ترجمان چینی وزارت خارجہ نے میڈیا بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور بھارت مسئلہ کشمیر پر مذاکرات کریں۔ پاکستان کے موقف کی حمایت کرتے ہیں۔ مسئلہ کشمیر پر چین کی پوزیشن واضح ہے۔ مذاکرات سے باہمی تعلقات کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ پاکستان بھارت مذاکرات خطے اور عالمی برادری کے مفاد میں ہیں۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ پاکستان اور چین ہر موڑ پر ایک دوسرے کو اعتماد میں لیتے ہیں ، وزیر اعظم کا دورہ مکمل ہونے کے بعد بھی ہمار ا رابطہ ہوگا اور وہ ہمیں باخبر رکھیں گے۔ گزشتہ روز وزیر خارجہ نے بیجنگ میں وزیر اعظم کے دورہ چین کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ 16 اگست کو ہم مشترکہ حکمت عملی سے آگے بڑھے تھے۔ جنیوا میں جب ہیومن رائٹس کونسل کا اجلاس ہوا تو اس میں بھی ہماری مشترکہ حکمت عملی تھی۔ حال ہی میں اقوام متحدہ جنرل اسمبلی میں جہاں پاکستان نے مقبوضہ جموں و کشمیر کے حوالے سے اپنا نقطہ نظر پیش کیا وہاں چین کے سٹیٹ قونصلر اور وزیر خارجہ وانگ ژی نے کشمیر کے حوالے سے بات کی اور تشویش کا اظہار کیا۔ پاکستان کے حوالے سے چین کی بہت واضح پوزیشن ہے۔ چین نے ہماری تاریخی پوزیشن کو اپنایا ہوا ہے۔ صدر شی ایک مختصر غیر رسمی دورے پر بھارت جا رہے ہیں چنانچہ ان کی بھی خواہش تھی اور ہماری بھی تھی کہ اس حوالے سے ہم ایک دوسرے کو اعتماد میں لیں اور ہم نے اعتماد میں لیا۔ ہمارے تعلقات کی نوعیت ایسی ہے رشتہ ایسا ہے کہ ہم ہر موڑ پر ایک دوسرے کو اعتماد میں لیتے ہیں۔
چینی قیادت کی طرف سے کشمیر ایشو پر موقف پاکستان ہی کی طرح سخت ہے بلکہ بعض حوالوں سے تو چین پاکستان سے بھی کچھ آگے نظر آتا ہے۔ چین کی طرف سے کشمیریوں کیلئے بھارتی ویزے کو قبول نہیں کیا جاتا۔ ان کو سادہ کاغذ پر درخواست دینے سے ویزا جاری کردیا جاتا۔ آج مقبوضہ کشمیر میں بھارتی سفاکیت اور بربریت انتہاء پر ہے۔ بدترین کرفیو کو اڑھائی ماہ ہوگئے ہیں۔ بھارت کی طرف سے کرفیو میں نرمی کرنے کے دعوے کئے گئے جو اسی طرح جھوٹے ہیں جس طرح بھارتی فوجی اور سیاسی قیادت دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے لغو اور بے سروپا دعوے کرتی ہے۔ اسکی طرف سے کہا جاتا رہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں حالات معمول کے مطابق ہیں۔ بھارتی حکومت کی طرف سے یہ جھوٹی اور بے بنیاد رپورٹ سپریم کورٹ میں بھی پیش کردی گئی۔ جانبداری اور تعصب رکھنے والی سپریم کورٹ نے بھی بھارتی حکومت کے وکیل کی مقبوضہ کشمیر میں سب اچھا کی پیش کی جانیوالی رپورٹ مسترد کر دی تھی۔
مقبوضہ کشمیر میں صورتحال جوں کی توں ہے‘ 5‘ اگست کو کشمیر کے خصوصی درجے کے خاتمے کے بعد کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی گئی اور اس میں ہنوز کوئی فرق نہیں آیا۔ مقبوضہ کشمیر میں سخت فوجی محاصرے کی وجہ سے معمولات زندگی بدستور مفلوج ہیں۔کشمیرمیڈیا سروس کے مطابق فوجی محاصرے کے دوران انٹرنیٹ اور موبائل سروسز بند اور سڑکوں پر ٹریفک کی آمدورفت معطل جبکہ تمام کاروباری ادارے بھی بند ہیں۔ سکول اور سرکاری دفاتر ویرانی کا منظر پیش کررہے ہیں۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ادھر صنعتی ماہرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ دوماہ کے لاک ڈائون سے مقبوضہ کشمیر کی معیشت کو ایک ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا ہے۔ وادی کشمیر میں تقریباً 3ہزار ہوٹل ہیں اوروہ سب خالی پڑے ہیں۔ انکے مالکان نے قرضہ بھی ادا کرنا ہے اور روز مرہ کے اخراجات بھی پورے کرنے ہیں۔ سرینگر کے جھیل ڈل میں تقریباًایک ہزار ہائوس بوٹس بھی خالی ہیں جبکہ صرف قالین سازی کے شعبے سے وابستہ 50ہزار سے زائد افراد بے روز گار ہوچکے ہیں۔ دنیا بھر میں مشہور وادی کشمیر کے سیب ابھی تک درختوں پر لگے ہیں کیونکہ دکانیں اور سرد خانے بند ہونے کے باعث سٹور کرنے کی سہولت نہ ہونے اورٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی کی وجہ سے کاشتکار اپنے سیب وادی کشمیر سے باہرلے جانے سے قاصرہیں۔ وادی کشمیر میں ہنر مند کاریگروں کی بھی کمی ہوچکی ہے کیونکہ لاک ڈائون شروع ہونے کے بعد 4لاکھ سے زائد غیر کشمیری کاریگر علاقہ چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔ وادی کشمیر کے عوام نے کشمیر کیلئے سفری پابندی اٹھانے کے گورنر کے احکامات کو مضحکہ خیز قراردیا ہے جس کی وجہ سیاح علاقہ چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہر حلقے اور طبقے نے مقبوضہ کشمیر میں پابندیاں نرم کرنے کا بھارتی دعویٰ مسترد کرتے ہوئے اسے سفید جھوٹ ، حقائق چھپانے اور دنیا کو گمراہ کرنے کی کوشش قراردیا ہے۔ مقبوضہ علاقے میں نہ صرف مکمل لاک ڈائون ہے بلکہ 90لاکھ معصوم کشمیریوں کا ڈیجیٹل اور مواصلاتی رابطہ مکمل طورپر منقطع ہے۔
بھارتی سفاک نو لاکھ سے زائد فورسز کی کشمیریوں پر بربریت کی پوری دنیا کی طرف سے مذمت کی جارہی ہے مگر اسکی صحت پر کوئی اثر نہیں ہو رہا۔ مودی سرکار تشویشوں‘ مظاہروں اور احتجاجوں سے نہیں سخت اقدامات اور عالمی سطح پر پابندیوں کے ہتھیار ہی سے کشمیریوں کو ان کا حق دینے پر آمادہ ہو سکتی ہے۔ لاتوں کے بھوت باتوں سے کب مانتے ہیں۔ عالمی برادری کو بھارت پر سختی کیلئے قائل کرنے کی ضرورت ہے جس کا ادراک حکومت کو بھی یقیناً ہے۔ جس کا اظہار وزیراعظم عمران خان کی طرف سے برملا کیا جاتا رہا ہے۔ وہ دنیا کو یہ بھی باور کرارہے ہیں کہ بھارت حالات کو جنگ کی طرف لے جارہا ہے۔ دو جوہری قوت کے مابین جنگ کے خطرناک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ آج کسی بھی دو ملکوں کے درمیان ایٹمی جنگ کرۂ ارض کی مکمل بربادی کا سبب بن سکتی ہے۔ ایسی جنگ کے امکانات کو روکنا ہر ملک کے اپنے مفاد میں بھی ہے۔ پاکستان بھارت کسی بھی جنگ کے امکانات مسئلہ کشمیر کے حل ہی سے ختم ہوسکتے ہیں۔ ویسے روایتی جنگ کی صورت میں بھارتی عسکری قوت کا پول خود اسکے اندر سے کھولا جارہا ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ کے سابق جج مرکنڈے کاٹجو نے کہا ہے کہ رافیل طیاروں پر جشن منانے سے حقیقت نہیں بدلتی۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارتی فوج جعلی ہے۔ ان کا کہنا تھا بھارت اسلحہ سازی کی صلاحیت سے محروم ہے اور بھارتی فوج صرف چند ہفتوں تک جنگ کر سکتی ہے۔
پاکستان دنیا کو مسئلہ کشمیر کے حوالے سے عملیت پر قائل کررہا ہے۔ اس میں کامیابی کے امکانات نظر آرہے ہیں۔ چین کے ساتھ ساتھ ترکی اور ملائشیا کی طرف سے بھارت پر مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے غیرروایتی انداز میں زور دیا جارہا ہے۔ چین تو کشمیر ایشو پر نہ صرف پاکستان کے شانہ بشانہ ہے بلکہ بھارت کے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے لداخ کو وفاق کے ماتحت کرنے کے اقدام نے چین کو کشمیر ایشو میں فریق بنا دیا ہے۔
چین کی طرف سے ہمیشہ مسائل مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی پالیسی رہی اور اسی پر اس نے زور دیا ہے۔ اب بھی پاکستان اور بھارت کو مذاکرات کی میز پر آنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔ چین سے بہتر کون جانتا ہے کہ بھارت نے ہمیشہ مذاکرات سے راہ فرار اختیار کی۔ کشمیر ایشو پر تو وہ بات ہی نہیں کرنا چاہتا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کشمیر ایشو خطے کے ممالک کا خصوصی طور پر مرکز و محور تھا۔ پاکستان نے اسی مسئلہ پر پوری توجہ مرکوز رکھی جبکہ بھارت کی طرف سے اس ایشو کو اوجھل کرنے کی پوری کوشش ہوتی رہی۔ اس نے دہشت گردی کو موضوع بحث بنایا‘ اسکی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں جاری بربریت بدترین دہشت گردی کی مثال ہے مگر چور مچائے شور کے مصداق وہ کشمیریوں کی جدوجہد حریت کو دہشت گردی اور پاکستان کی طرف سے انکی اخلاقی و سفارتی مدد کو دہشت گردوں کا پشت پناہی قرار دیتا ہے۔ کشمیریوں کو آزادی کی جدوجہد کا حق اقوام متحدہ کے چارٹر میں دیا گیا ہے۔ دہشت گردی کی ہر وضاحت اور تعریف کے مطابق بھارت کے مظالم دہشت گردی کے زمرے میں آتے ہیں۔ ایسی ریاست کیخلاف عالمی عدالت انصاف میں دہشت گردی اور جنگی جرائم کے مقدمات درج کرانے کی ضرورت ہے۔ آج بھارت کے کشمیریوں پر مظالم انتہاء کو پہنچ چکے ہیں۔ کشمیریوں کو ان سے بچانے کیلئے مقبوضہ کشمیر میں عالمی امن فوج کی تعیناتی ضروری ہو گئی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے یواین جنرل اسمبلی میں کشمیر میں مبصر بھیجنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ اگر عالمی برادری کی طرف سے بھارتی مظالم کا نوٹس نہ لیا گیا تو بھارتی نو لاکھ زائد خون آشام فورسز آخری کشمیری کا خون بھی چاٹ جائیں گی۔