احتجاج آئین اور قانون کے دائرے میں رہ کر کیا جائے
آزادی مارچ 31 اکتوبر کو اسلام آباد داخل ہو گا۔ مولانا فضل الرحمن اسلام آباد ہائیکورٹ نے دھرنا فوری روکنے کی استدعا مسترد کر دی‘ سیاسی جماعتوں کو اظہار رائے کی آزادی سے احتجاج سے دوسرے متاثر نہیں ہونے چاہئیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ ۔
اس وقت ملک بھر میں مولانا فضل الرحمن کے اسلام آباد مارچ اور دھرنے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ اپوزیشن جماعتیں اپنے اپنے تحفظات کے باوجود اس کی حمایت بھی کر رہی ہیں۔ حکومت وزرا اور مشیر اس کو بزور طاقت روکنے کی باتیں کر رہے ہیں جس سے خدشہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن کے مارچ اور اسلام آباد دھرنے کی صورت میں امن و امان کا مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے سیاسی جماعتوں کی اظہار رائے کی آزادی کا حق تسلیم کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے دوسروں کو متاثر نہیں ہونا چاہئے۔ اصل میں یہی جمہوری طریقہ ہے احتجاج کا اس وقت ملک کے اندرونی و بیرونی حالات کسی محاذ آرائی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ اس لیے حکومت اور اپوزیشن دونوں کو آئین اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنا اپنا کام کرنا ہو گا۔ کسی بھی طرف سے ایسا اقدام جس سے ریاست کی سبکی ہوتی ہو یا جمہوریت کو خطرہ ہو‘ کرنے سے گریز کرنا ضروری ہے۔ امید ہے دونوں فریق ایسی کوئی صورتحال پیدا ہونے نہیں دیں گے جس سے جمہوریت کی بساط لپیٹے جانے کا خطرہ ہو۔ اسی طرح احتجاج کے نام پر دوسروں کے لیے مشکلات پیدا کرنا اور روایتی توڑ پھوڑ جلائو گھیرائو کی پالیسی سے اجتناب بھی بہت ضروری ہے تاکہ کسی طالع آزما کو سیاسی انتشار سے فائدہ اٹھانے کا موقع نہ مل سکے۔