امریکی صدر کا اعتراف‘ کیا سبق بھی سیکھا؟
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ، ٹوئٹر، کے ذریعے اعتراف کیا ہے کہ ’’مشرقِِ وسطیٰ میں امریکی فوج بھجوانا تاریخ کا بدترین فیصلہ تھا۔ امریکہ نے عراق میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی موجودگی کی غلط اطلاعات پر وہاں اپنی فوج بھیجی تھی حالانکہ وہاں ایسے ہتھیار موجود ہی نہیں تھے۔ امریکہ کو مشرقِ وسطیٰ پر فوج کشی سے گریز کرنا چاہیے تھا۔ اس جنگ میں امریکہ نے8 کھرب ڈالر پھونک ڈالے اور ہزاروں امریکی فوجی اہلکار ہلاک اور زخمی ہوئے اور دوسری طرف کے بھی لاکھوں لوگ مارے گئے۔ ہم اب امریکی فوجیوں کو محفوظ طریقے سے واپس لا رہے ہیں۔‘‘
سابق امریکی صدر جارج بش کے دور میں تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا دعویٰ کرتے ہوئے امریکہ نے مشرق وسطیٰ میں جنگ چھیڑی تھی اور عراق میں لاکھوں بے گناہ مسلمانوں کا خون بہایا تھا۔ عراق پر قبضہ کرنے کے بعد امریکہ نے ماضی میں اپنے حریف عراقی صدر صدام حسین کو پھانسی پر چڑھا دیا تاہم بعد ازاں یہ بات تسلیم کر لی گئی کہ عراق کے حوالے سے سی آئی اے نے جھوٹی رپورٹ امریکی حکومت کو مہیا کی تھی جس کو بنیاد بناتے ہوئے اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش، جن کا تعلق موجودہ حکمران جماعت سے ہی تھا، امریکی فوج کو عراق پر حملہ آور ہونے کا حکم دیا تھا۔امریکی صدر کی جانب سے یہ اعتراف دراصل امریکہ کے جنگی جرائم کا اعتراف کرنے کے مترادف ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یکایک امریکی صدر کو یہ اعتراف کرنے کی ضرورت ہی کیوں محسوس ہوئی کیونکہ اسی برس امریکہ نے مشرقِ وسطیٰ میں مزید ایک ہزار فوجی بھجوانے اور وہاں موجود اپنے فوجی اڈے کو وسعت دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ دوسری اہم ترین بات یہ کہ اگر ماضی میں امریکہ نے غلط اطلاعات پر عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی تو اب وہ کس بنیاد پر ایران کے درپے ہو رہا ہے؟ کیا امریکہ عراق والی غلطی بارِ دگر ایران میں دہرانا چاہتا ہے؟ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایک ہی سانس میں عراق پر حملے کو امریکی تاریخ کا بدترین فیصلہ قرار دیتے ہیں تو اسی سانس میں ایران پر حملے کی باتیں اور کردوں کے معاملے پر ترکی کو صفحہِ ہستی سے مٹانے کی دھمکیاں بھی دیتے ہیں اور پھر اگلی سانس میں ترک صدر کو امریکہ کے دورے کی دعوت بھی دے دیتے ہیں۔ عراق اور افغانستان میں تباہی و بربادی کی خوفناک داستانیں رقم کرنے والا امریکہ اب ایران پر حملے کیلئے فضا بنا رہا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ عراق پر حملے کو اپنے ملک کی تاریخ کی بدترین غلطی تسلیم کرنے والے ڈونلڈ ٹرمپ نے اس فاش غلطی سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ عراق پر امریکی حملے کے نتیجے میں داعش جیسا عفریت سامنے آیا تھا جو اب تک ہزاروں بے گناہوں کا لہو پی چکا ہے تو اب ایران پر کسی ممکنہ امریکی حملے کے نتائج اس سے مختلف کیونکر ہو سکتے ہیں؟ ایک ہنستے بستے ملک، عراق، کو کھنڈر بنانے والوں کو تاریخ سے سبق سیکھتے ہوئے جنگ کی بجائے امن کی راہ اپنانا ہوگی بصورتِ دیگر عراق میں رقم ہونے والی داستانِ ستم ختم ہونے کی بجائے پھیلتی چلی جائے گی۔