حکومت مخالف تحریک کی کامیابی کے ممکنہ عناصر
میں 1970ء سے سیاست کررہا ہوں اور خود 1977ء کی تحریک میں شامل رہا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب تحریک کا آغاز کیا جارہا تو حکومت کے لوگ کہتے تھے کہ اپوزیشن آپس میں ہی متفق نہیں تو یہ تحریک کس طرح چلائیں گے کیونکہ اس وقت تحریک چلانے کے لئے تحریک استقلال کے سربراہ ایئرمارشل اصغر خان‘ جماعت اسلامی کے میاں طفیل محمد‘ جمعیت علماء پاکستان کے مولانا شاہ احمد نورانی‘ جمعیت علماء اسلام کے مفتی محمود‘ نیشنل عوامی پارٹی کے ولی خان اور پیرصاحب پگاڑا سمیت اس وقت کی تمام اپوزیشن نے تحریک کے لئے قومی اتحادبنایا جسے بعد میں 9ستاروں کی تحریک کا نام ملا۔ پیپلزپارٹی کے وزراء کہتے تھے کہ اپوزیشن میں باہمی اختلافات ہیں اسی لئے تحریک کسی صورت کامیاب نہیں ہوسکتی لیکن تاریخ گواہ ہے کہ جب اپوزیشن تحریک نے نظام مصطفٰی ﷺ نافذ کرنے کا نعرہ لگایا تو تحریک راتوں رات زور پکڑ گئی اور بالآخر 9ستاروں کی تحریک نے بھٹو صاحب کی حکومت کا خاتمہ کیا۔
اب مولانا فضل الرحمان رواں ماہ کے آخر سے حکومت مخالف تحریک کا آغاز کرنے جارہے ہیں اور بالکل اسی طرح حکومتی وزراء کہہ رہے ہیں کہ اپوزیشن ایک پیج پر نہیں اسی لئے تحریک کی کامیابی کے امکانات ہی موجود نہیں کیونکہ میاں نوازشریف اور زرداری جیل میں ہیں اور شہباز شریف و بلاول نے واضح طور پر تحریک میں شمولیت کا اعلان نہیں کیا بلکہ مکمل ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کی کامیابی کے لئے دعائیں کی ہیں اور حکومت کا کہنا ہے کہ جس پارٹی نے الیکشن میں 2%ووٹ لئے ہیں وہ کس طرح سے حکومت گرا سکتی ہے۔
تحریک کی کامیابی کے امکانات میں اضافہ اسی وقت ہوتا چلا جائے گا جب ہر گزرتے دن کے ساتھ مہنگائی‘ بے روزگاری اورفاقہ کشی میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ موجودہ حکومت کے آتے ہی ہزاروں صحافی بے روزگار ہوگئے ہیں اور سوشل میڈیا پر تبدیلی کے اثرات پر تفصیلی اظہار خیال کررہے ہوتے ہیں۔ بے روزگاری میں اضافے میں کچھ اداروں کی غلط پالیسیاں بہت زیادہ اثرات رکھتی ہیں۔ میں اس کالم میں صرف ایک شعبے کے متعلق غلط پالیسیوں سے بے روزگاری میں بے پناہ اضافے کی تفصیل بیان کررہاہوں اور اگر یہی طرز عمل جاری رہا اور بے روزگاری و فاقہ کشی میں اضافہ ہوتا رہا تو 2%ووٹ لینے والی جماعت کی تحریک کو زبردست کامیابی حاصل ہوجائے گی۔
میاں نوازشریف کی گزشتہ حکومت کے آخری سال احمد پور شرقیہ میں انتظامی ناکامی کے باعث آئل ٹینکر حادثہ سانحے میں تبدیل ہوا اور پھر حکومت نے اپنی انتظامی بدترین ناکامی چھپانے کے لئے اوگراچیئرپرسن‘ نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے چیئرمین‘ سیکریٹری پیٹرولیم مرزا صاحب‘ ایکسپلوزیو ڈپارٹمنٹ کے افسران اور آئل ٹینکرز ایسوسی ایشن کے نمائندوں کا مشترکہ ا جلاس بلایا جس میں میں بھی موجود تھا اور اوگرا چیئرپرسن بضد کہ برطانیہ اور یورپ کی طرح کی گاڑیاں یہاں چلائی جائیں گی اور موجودہ آئل ٹینکرز کو بیک جنبش قلم ختم کردیا جائے گا۔ میں نے ان پر واضح کیا کہ حادثات دنیا بھر میں ہوتے ہیں اور حادثات کو کوئی نہیں روک سکتا لیکن آئل ٹینکر کے حادثے کے فوری بعد مقامی پولیس و انتظامیہ علاقے کو سیل کردیتی ہے اور کسی کو بھی وہاں نہیں جانے دیتی اور یہی طریقہ دنیا بھر میں رائج ہے لیکن یہاں پولیس و انتظامیہ خود پیٹرول لوٹنے میں مصروف تھی اور پنجاب پیٹرولنک پولیس کی موبائل بھی احمد پور شرقیہ سانحہ میں جل کر راکھ ہوگئی تھی۔
احمد پور شرقیہ کے بعد بھی آئل ٹینکرز کے حادثات رونما ہوئے ہیں لیکن اب پولیس و انتظامیہ ضروری اقدامات کرلیتی ہے اور لوگوں کو اس طرف نہیں جانے دیا جاتا تو کوئی بھی سانحہ رونما نہیں ہورہا۔
وزارت پیٹرولیم میں اس میٹنگ میں میں نے تمام سرکاری حکام کو بتایا تھا کہ ایک آئل ٹینکر کے چلنے سے کم از کم 10گھرانوں کا روزگار وابستہ ہوتا ہے اور اوسط 30افراد کی کفالت ہوتی ہے اور آپ 20,000سے زائد آئل ٹینکرز کو اپنی نااہلی چھپانے کے لئے بے روزگار کرنے جارہے ہیں جس سے لاکھوں گھرانے فاقہ کشی کا شکار ہوجائیں گے جو جھولیاں پھیلا پھیلا کر آپ کو بددعائیں دیں گے خدارا ایسا نہ کریں اور ماڈل کی پابندی کے بعد فٹنس کے نظام کو سخت ترین بنایا جائے اور مکمل طور پر فٹ گاڑی چاہے وہ کسی بھی ماڈل کی ہو‘ اسے آئل ٹینکرز میں چلنے دیا جائے ۔
چونکہ نوازشریف حکومت کا آخر ی سال ہے اور الیکشن عنقریب ہونے والے ہیں‘ ایسے وقت میں اوگرا کے اس اقدام سے مسلم لیگ (ن) کو پنجاب اور کے پی کے میں بہت زیادہ سیاسی نقصان پہنچے گا۔ میری اس بات سے سیکریٹری پیٹرولیم نے اتفاق کیا ۔لیکن میٹنگ کے بعد اوگرا چیئرپرسن اپنی ضد پر قائم رہیں اور غلط اقدامات جاری رہے جس سے ایک ایک قسطوں پر خریدے گئے آئل ٹینکرز کے عاجزمند مالکان دیوالیہ ہوگئے اور ہزاروں گھرانے فاقہ کشی پر مجبور ہوگئے۔ اوگرا کے غلط اقدامات کے نتیجے میں قوم شاہد ہے کہ پنجاب اور کے پی کے میں مسلم لیگ (ن) کو الیکشن 2018ء میں بہت سیاسی نقصان پہنچا اور دونوں صوبوں میں صوبائی حکومت بھی مسلم لیگ (ن) کو نہ مل سکی۔
اس تمام تفصیل لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ اوگرا کے اسی طرح اقدامات اب بھی جاری ہیں۔ اب 26اکتوبر کے بعد تمام پرانے ماڈل کے آئل ٹینکرز بیک جنبش قلم نکالنے کے احکامات صادر کردیئے گئے ہیں جس سے 27اکتوبرسے ایک دن قبل ہزاروں گھرانے بے روزگار ہوجائیں گے اور لاکھوں لوگ فاقہ کشی پر مجبور ہوجائیں گے۔ یہ تو صرف ایک سرکاری ادارے کے ایک غلط فیصلے کے تباہ کن اثرات ہیں جس سے لوگ مشتعل ہوں گے اور مجبور ہوجائیں گے کہ حکومت سے نجات کی تحریک میں شامل ہوجائیں۔
میری وزیراعظم عمران خان صاحب سے اپیل ہے کہ آئل ٹینکرز پر ماڈل کی شرط ختم کرکے مکمل فٹنس کی سخت ترین شرائط عائد کرکے اس پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں اور لاکھوں لوگوں کو بے روزگاری و فاقہ کشی سے بچائیں۔