پارچناں دے دِسے کُلی یار دی
رات کے ساڑھے نو بجے کا وقت تھا جب اکبر چوک پر ٹریفک بلاک ہوئی۔ بڑا ٹریفک جام تھا۔ لائنوں پر لائین لگ گئیں۔ ہر شخص اپنی اپنی سمجھ کے مطابق اس ٹریفک جام کے ذمہ دار کی نشاندہی کر رہا تھا۔ میں نے اپنی گاڑی بند کر دی اور اپنے اردگرد آگے پیچھے دیکھا۔ جیپ ، لینڈ کروزر، پندرہ سو سی سی ، ہزار سی سی گاڑیاں، موٹر سائیکل سوار ، پیدل…ہر کوئی اپنا اپنا دن گزار کر گھر جانے کے رستے پر تھا۔ کچھ چہرے پریشان تھے، کچھ اداس۔ کچھ بے چین، کوئی فون پر اپنی الجھن بیان کر رہا تھا۔ لیٹ کیوں ہو گیا۔ گوشت نہیں لے سکا۔ بیٹے کی سائیکل نہیں خرید سکا۔ مجھے بہت سی آوازیں آ رہی تھیں…دعوئوں کی آوازیں… ’’کل پکا آپ کا کام ہو جائے گا…آج بیالوجی کی کتاب نہیں لا سکوں گی…جیولر کے پاس کل جائیں گے… قیمہ اب کل ہی بنوائوں گا…بیٹا کل سائیکل ضرور لائوں گا…‘‘ ٹریفک کو کوستے کوستے آدھ گھنٹہ گزر چکا تھا۔ ایک بھلے مانس نے باہر نکل کر گاڑیوں کی لین سیدھی کرنا شروع کی۔ پھر کچھ اور لوگ شامل ہو گئے۔ تھوڑی سی محنت کے بعد گاڑیوں میں حرکت شروع ہوئی اور آخرکار ٹریفک چالو ہو گئی۔ میں نے اپنے اردگرد گاڑیوں میں موجود لوگوں کے چہروں کی طرف دیکھا۔ کچھ دیر پہلے کی گھبراہٹ، فرسٹیشن، الزام تراشی اور بے چینی کی جگہ صرف ایک چیز نظر آئی۔ دن بھر کی محنت کے بعد گھر پہنچنے کا اطمینان!! میں نے ایک طرف دیکھا… شاید کوئی چھابڑی والا غریب اپنے دو ننھے بچوں کو چادر میں چھپائے کسی دکان کے تھڑے پر بے نیازی سے سو رہا تھا۔میں نے ریڈیو کی آواز اونچی کر دی۔
پار چناں دے دِسے کُلی یار دی… گھڑ یاد ے گھڑیا… ہاں ولے گھڑیا