صوبائی سلیکشن بورڈ کے ریکارڈ اجلاس

جب سے یوسف نسیم کھوکھر صاحب نے چیف سیکرٹری پنجاب کا چارج سنبھالا ہے اکثر و بیشتر افسران کی ترقی کی خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ شاید ہی کوئی ایسا اور دور گزرا ہو جب اتنے زیادہ افسران کی ترقی کی گئی ہو۔ یوسف نسیم کھوکھر صاحب کو تقریباً ایک سال ہو گیا ہے پنجاب کے سب سے بڑے عہدے پر سرفراز ہوئے اور اس ایک سال میں انہوں نے سینکڑوں منتظر افسران کو میرٹ کی بنیاد پر اگلے گریڈ میں ترقی دے کر ان کا مورال اپ کیا اور سرکاری ملازموں میں پائی جانے والی بے چینی کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس کے ساتھ ہی وہ لوگ جو گزشتہ دس سال سے ایک ہی گریڈ پر کام کر رہے تھے اور ان کی اگلے گریڈ میں ترقی اس لئے محال تھی کہ سیٹ موجود نہ تھی ان کے لئے بھی ایک بہت ہی ہمدردانہ فیصلہ کیا گیا اور اسی سیٹ پر اگلے گریڈ میں ترقی دے دی گئی۔ جب تک سرکاری ملازموں کو اعتماد نہ دیا جائے اور وقت پر ان کی ترقی نہ کی جائے ان کی بہتر صلاحیتوں سے خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا۔ اس بڑی سیٹ پر لوگ آتے رہتے ہیں اور اپنی مدت پوری کر کے جاتے رہیں گے لیکن جو اپنے ماتحت سرکاری ملازموں کی فلاح و بہبود کے لئے اقدامات کرتے ہیں وہ دلوں میں جگہ بنا جاتے ہیں اور ہمیشہ یاد رکھے جاتے ہیں۔
ایک وقت ایسا تھا کہ آئے دن کئی سالوں سے ترقی کے منتظر افسران ہڑتالوں پر مجبور کر دیئے گئے لیکن شنوائی نہ ہوئی لیکن یوسف نسیم کھوکھر نے ڈی ایم جی کے ساتھ ساتھ پی ایم ایس کے افسران کو برابر اہمیت دی اور میرٹ کے مطابق ان کے حق میں فیصلہ کیا جس سے اس سروس کے لوگوں میں پائی جانے والی بے چینی کم ہوئی اور وہ زیادہ خوش اور متحرک نظر آئے۔ دیگر صوبوں میں صوبائی سروس کے لوگوں کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے جب کہ پنجاب میں ہمیشہ سے پی ایم ایس کو کھُڈے لائن لگانے کا رواج رہا ہے۔ لیکن اب ہم دیکھتے ہیں کہ ڈپٹی کمشنر اور کمشنر کی سیٹوں پر بھی پی ایم ایس کو تعینات کیا جا رہا ہے جو کہ ایک بہت ہی خوش آئند امر ہے۔ سروس اور کیڈر اہمیت نہیں رکھتے صلاحیت اہمیت رکھتی ہے۔ گورنمنٹ کے ملازمین میں فرق ان کی قابلیت، ذہنی استعداد اور متحرک حوالے سے تو ہو سکتا ہے مگر کسی اور حوالے سے نہیں۔ یہ ریاست سب کی ماں ہے اور جو بھی اس کے سرکاری اداروں میں کسی بھی طرح سے میرٹ پر بھرتی ہو کر آتے ہیں انہیں تحفظ فراہم کرنا اور ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانا ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ جب محکموں کے درمیان فرق رکھا جاتا ہے تو ایک مایوسی اور بے بسی جنم لیتی ہے۔ اس مایوسی کو پھلنے پھولنے نہیں دینا چاہئے۔ کچھ دن قبل صوبائی سلیکشن بورڈ I کا اجلاس ہوا جس میں 124 افسران کی ترقی کی منظوری دی گئی جن میں 17 پی ایم ایس افسران سمیت مختلف صوبائی محکموں کے 124 افسران کی گریڈ 19 اور 20 میں ترقی کیلئے سفارشات کو حتمی شکل دی گئی۔ اجلاس میںآٹھ پی ایم ایس افسران کی گریڈ19 سے20میں ترقی کی منظوری دی گئی۔ محکمہ سکولز ایجوکیشن کے 64افسران، سپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر کے سات، پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئر کے سات، ہائر ایجوکیشن کے دو جبکہ محکمہ جنگلات، لائیو سٹاک اور زراعت کے ایک ایک افسر کی گریڈ19سے 20میں ترقی کی منظوری دی گئی۔اسی طرح محکمہ سروسز اینڈ جنرل ایڈ منسٹریشن کے نو )پی ایم ایس (افسران ،جنگلات کے سات،منصوبہ بندی و ترقیات کے سات، لائیو سٹاک کے پانچ، محنت و افرادی قوت کے دو جبکہ محکمہ مواصلات و تعمیرات ، زراعت اور آبپاشی کے ایک ایک افسر کی گریڈ 19میں ترقی کی منظوری دی گئی۔ گزشتہ پانچ ماہ کے دوران صوبائی سلیکشن بورڈ ون نے مختلف صوبائی محکموں کے 559افسران کو گریڈ 19،20اور21میںترقی دی گئی ہے۔اس طرح صرف دو مہینوں کے درمیان 683 افسران کو اگلے گریڈوں میں ترقی دی گئی جو کہ ایک ریکارڈ سے کم نہیں۔ اسی طرح پورے سال کا بھی حساب لگا سکتے ہیں۔ اُمید ہے کہ یوسف نسیم کھوکھر کی سربراہی میں پنجاب کے ہر محکمے میں منتظر افراد کو اُن کا حق دیا جائے گا۔ انسان کی شخصیت خوشبو کی طرح ہوتی ہے جو بن بولے سفر کرتی رہتی ہے۔ یوسف نسیم کھوکھر کے مثبت رویے کا ہر وہ فرد معترف ہے جس کا ان سے کسی بھی حوالے سے واسطہ پڑا۔ پھر سٹاف میں موجود لوگوں کے ذریعے بھی افسران کے حوالے سے غیر محسوس طریقے سے کچھ خبریں باہر نکلتی ہیں۔ پچھلے دنوں پی ایس ٹو چیف سیکرٹری اعجاز صاحب کی زبانی یہ بات سن کر بے حد خوشی ہوئی کہ چیف سیکرٹری بہت مثبت رویے کے حامل ہیں۔ وہ کسی کو نقصان نہیں پہنچا سکتے اور نہ ہی کسی کی عزت نفس پامال کر سکتے ہیں بلکہ سب کے مسائل کا مداوا کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ یہ ایک بہت بڑی گواہی ہوتی ہے۔ یقینا خدمتِ خلق کرنے والے افسران تمام لوگوں کی دعائوں میں اپنی نیک صفتوں کے باعث شامل ہو جاتے ہیں۔ اسے خدا کا کرم کہتے ہیں۔ وہ جس سے راضی ہوتا ہے اس کی محبت اور احترام لوگوں کے دلوں میں ڈال دیتا ہے۔ وہ احترام جو نہ دولت سے حاصل ہوتا ہے اور نہ طاقت سے۔ مختصر سی زندگی ہے یہی تو کمائی ہے۔ بقول میاں محمد بخشؒ:
لوئے لوئے بھر لے کُڑیئے جے تدھ بھانڈا بھرنا
شام پئی بن شام محمد گھر جاندی نے ڈرنا