قیمتی لوگ

قوموں کا کارواں یونہی رواں دواں نہیں رہتا بلکہ قومیں اپنے ایسے لوگوں کے بل بوتے پر چل رہی ہوتی ہیں جو سیلف لیس ہو کر کام کرتے ہیں جنہیں کام سے عشق ہوتا ہے جو نتائج اور مقاصد کو سامنے رکھ کر کام کرتے ہیں۔ ایسے ہی لوگ یقینا اپنے کام میں فرق بھی ڈالتے ہیں۔ ان کی کنٹری بیوشن نہ صرف متعلقہ اداروں جن کا وہ حصہ ہوتے ہیں کی کارکردگی بہتر سے بہترین کی جانب گامزن کرنے کا باعث ثابت ہوتی ہیںبلکہ وہ قومی اور مِلی سطح پر بنیادیں مضبوط بنانے میں ایک اہم کردار ادا کر جاتے ہیں۔ ایک ایسا ہی نام ڈاکٹر شاہد صدیقی کا ہے جنہوں نے چار برس قبل علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی جیسی ایک بڑی یونیورسٹی کی قیادت سنبھالی اور صرف چار سال کے عرصے میں اوپن یونیوسٹی جسے صرف ایک معمولی سی یونیورسٹی گردانا جاتا تھا، اُسے اب پاکستان بھر کی کامیاب ترین جامعات میں تصور کیا جاتا ہے۔ اب اُسے باقاعدہ ایک یونیورسٹی کے طور پر لیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ڈاکٹر شاہد صدیقی نے وائس چانسلر کا منصب سنبھالنے کے بعد جہاں تحقیقی اور نصابی معاملات میں بہتری لانے جیسے اقدامات شروع کئے وہاں یونیورسٹی ملازمین کے دیرینہ مسائل جن میں سلیکشن بوڈ کا نہ ہونا اور دیگر انتظامی مسائل کی جانب توجہ بھی دی۔ یونیورسٹی میں متعدد ملازمین ایسے تھے جو ایم اے پاس ہونے کا باوجود نائب قاصد کی ڈیوٹی کرنے پر مجبور تھے لیکن ڈاکٹر شاہد صدیقی نے یونیورسٹی رولز اینڈ ریگولیشنز کے مطابق ان ملازمین کو کلیریکل اور دیگر گریڈوں میں ترقی دلوا کر اُن کے مستقبل کے حوالے سے ایک مثبت کردار ادا کیا۔ ایک اور کام جس کا تعلق قومی ترقی سے ہے اور یہ کام بھی ڈاکٹر شاہد صدیقی کے اوپن یونیورسٹی آنے کے بعد ہی شروع کیا گیا ہے کہ اوپن یونیورسٹی نے ریموٹ اور کم ترقی یافتہ علاقوں کی خواتین کے لئے آٹھویں جماعت کی تعلیم بالکل مفت کر دی ہے اور صرف صوبہ سندھ میں چار سو ایسی بچیوں نے مڈل پاس کر لیا ہے جو چوتھی یا پانچویں جماعت سے سکول چھوڑگئی تھیں ۔ اب انہوں نے چونکہ مڈل تک تعلیم حاصل کر لی ہے تو وہ اوپن یونیورسٹی یا دیگر اداروں سے میٹرک کر کے آگے تعلیم جاری رکھ سکتی ہیں۔ مڈل کرنے سے کم از کم انہیں لکھنا پڑھنا آ گیا ہے اور ان کا شمار خواندہ خواتین میں ہونا شروع ہو گیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں اوپن یونیورسٹی کی یہ ایسی خدمت ہے جو قومی ترقی میں معاونت کی ایک بہترین مثال ہے اور اس کا کریڈٹ ڈاکٹر شاہد صدیقی کو جاتا ہے۔
اب نہ صرف سٹوڈنٹس بلکہ اساتذہ کو بھی بہترین ریسرچ پیپرز پر نقد انعامات سے نوازا جاتا ہے بلکہ مختلف قومی اور بین الاقوامی کانفرنسوں میں ریسرچ پیپرز پڑھنے پر اُن کی مالی معاونت (سپانسر) بھی کی جاتی ہے۔ یونیورسٹی میں مختلف ڈسپلنز کے تحت کرائے جانے والے تھیسزز آن لائن میسر ہیں اور نصاب کی لگ بھگ سات سو کتابیں بھی آن لائن موجود ہیں۔ علاوہ ازیں تنقیدی موضوعات پر ڈائیلاگ سیریز، میڈیا ڈائیلاگ سیریز ،ملاقات سیریز، لاء اینڈ سوسائٹی سیریز اور بزنس ٹاک سیریز سمیت مختلف موضوعات پر سیمینار اور کانفرنسوں کے انعقاد سے جہاں یونیورسٹیوں میں زیرتعلیم طلباء و طالبات کو نت نئی معلومات اور آگہی حاصل ہوتی رہی ہے وہاں یونیورسٹی کا قد دیگر یونیورسٹیوں کے مقابلے میں بڑھا ہے کہ تعلیم کے ساتھ ساتھ معلومات کی جو روائتی اس یونیورسٹی کے طلباء و طالبات کو حاصل ہے وہ باقی یونیورسٹی کے طلبا کو شاید میسر نہیں ہیں۔
گزشتہ دنوں ڈاکٹر شاہد صدیقی چار سالہ کنٹریکٹ پایہ تکمیل پہنچنے کے بعد وائس چانسلر کے عہدے سے ریٹائرڈ ہو گئے یہ بھی شائد پہلی مرتبہ ہوا کہ اوپن یونیورسٹی کے گریڈ ون کے ملازمین سے 21گریڈ کے ملازمین تک نے اُنہیں پرجوش انداز میں الواداع کیا اور اُن پر پھول نچھاور کئے گئے۔ ظاہر ہے لوگوں کو ڈاکٹر شاہد صدیقی سے محبت تھی۔ اپنے اُس وائس چانسلر سے محبت تھی جن کے اقدامات سے ملازمین، طلباء اور یونیورسٹی کی کارکردگی میں گونا گوں اضافہ ہوا ہے۔ نجانے ہمارے ہاں ایسا کلچر کیوں موجود نہیں کہ جو لوگ کام کرنے والے ہوتے ہیں انہیں جانے نہ دیا جائے۔ ریاست اور اداروں کو خود ایسے لوگوں کو رُکنے کی درخواست کرنا چاہئے۔ اگر ڈاکٹر شاہدصدیقی کو منصب کی خواہش ہوتی تو وہ دوبارہ سے وائس چانسلر کے عہدے کے لئے اپلائی کرتے۔ ظاہر ہے ایسے لوگوں نے اپلائی نہیں کرنا ہوتا ہے نہ انہوں نے کیا۔ یہ قوم اور ریاست کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ایسے قیمتی لوگوں سے قومی خدمت کے کام لیں بلکہ اس طرح کے اور بہت سے لوگوں کو تلاش کر کے اُنہیں اپنے اپنے میدان میں خدمات سرانجام دینے کے لئے ذمہ داریاں سونپی جائیں تاکہ وہ اپنے وژن اور قابلیت کے مطابق کام کر کے ملکی ترقی میں اپنا حصہ ڈالیں۔

ای پیپر دی نیشن