جمعرات‘ 1440 ھ ‘ 11اکتوبر 2018ء
عمران خان اور طاہرالقادری کیخلاف توہین عدالت کی درخواستوں کی سماعت شروع کرنے کیلئے درخواست دائر ۔
لگ رہا ہے یہ ضرور کوئی سازش ہے جو سازشی عناصر خاموشی سے رچا رہے ہیں۔ ورنہ ابھی تو مولانا طاہر القادری کو کینیڈا سے پاکستان آئے چند روز ہی ہوئے ہیں اور لوگ انہیں ڈرانے لگے ہیں۔لوگ اور خاص طور پر سانحہ ماڈل ٹائون کے متاثرین چاہتے ہیں کہ اب وہ اس کیس کو انجام تک پہنچا کر ہی واپس جائیں۔ اس وقت پورے ملک میں ان کے چھوٹے بھائی عمران خان کی حکومت ہے۔ وہ بھی پرعزم تھے کہ یہ کیس حل کرائیں گے۔ اب مولانا صاحب بھی پاکستان میں ہیں تو تاخیر کیسی۔ ابھی سب کی نظریں حکومت اور کیس پر لگی ہیں۔ اس دوران کسی نے چپکے سے عدالت میں درخواست دائر کر دی ہے کہ 2014ء میں دھرنے کے دوران عدالتی احکامات نہ ماننے پر عمران خان اور طاہر القادری کیخلاف جو درخواستیں دائر ہیں ان کی سماعت جلد شروع کی جائے۔ اب بھلا یہ بھی کوئی وقت ہے ایسی باتوں کا۔ ابھی تو علامہ قادری جی اپنے دوست کی حکمرانی کے مزے لینے پاکستان آئے ہیں۔ انہیں کچھ دن تو آرام سے رہنے دیں۔ یہ کیا کہ مہمان کو آتے ہی پریشان کرنا شروع کردیا جائے۔ دھرنا پرانی بات ہے رات گئی بات گئی۔ اس دوران جو کچھ ہوا ، سب نے دیکھا اب راکھ کریدنے کا کیا فائدہ۔ اس کیس کے باعث دھرنے کے قصے اور کہانیاں ایک بار پھر موضوع بحث بنیں گی تو پھر بات طویل ہو سکتی ہے۔ اس لئے فی الحال حکومت کو سانس اور مہمان کو آرام تو کر لینے دیں۔ تیل دیکھیں اور تیل کی دھار کے فلسفے پر عمل کرنا ہی شاید مناسب ہو گا۔
٭٭٭٭
بیچ ریسلنگ ورلڈ چیمپئن انعام بٹ کا وطن واپسی پر شاندار استقبال
کرکٹ، ہاکی اور سکوائش کے بعد اب کئی اور کھیلوں میں بھی پاکستانی نوجوان اپنی مدد آپ کے تحت رنگ جما رہے ہیں۔ ان میں ویٹ لفٹنگ اور باکسنگ میں لڑکوں کے ساتھ ساتھ لڑکیوں نے بھی نام کمایا ہے۔ ملک و قوم کانام روشن کیا ہے۔ اب بیچ ریسلنگ میں بھی ملک و قوم کے اس سپوت نے گولڈ میڈل حاصل کر کے ایک اور کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ کاش یہ بات محکمہ کھیل کے کرتا دھرتائوں کے سر میں بھی سما جائے اور وہ ان گوہر آبدروں کی سرپرستی کریں جو آج تک بنا کسی حکومتی سرپرستی کے کام کرتے ہیں محنت کرتے ہیں اور عالمی اعزاز حاصل کرتے ہیں۔ صرف ہاکی یا کرکٹ میں ہی سب کچھ نہیں ہے۔ہمارے موجودہ وزیراعظم خود بھی ا یک بڑے کھلاڑی رہ چکے ہیں۔ انہوں نے محکمہ کھیل کو قریب سے دیکھا ہے اور یہ بھی کہ وہاں کون کون سے کھیل کھیلے جاتے ہیں۔ اس لئے وہ ان شاطر کھلاڑیوں سے جان چھڑائیں اور محکمہ کھیل میں کھیلوں سے محبت کرنے والوں کو آگے لائیں تاکہ وہ تمام کھیلوں کی سرپرستی کر کے عالمی سطح کے کھلاڑی پیداکریں جو ملک و قوم کا نام روشن کر سکیں۔ انعام بٹ مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے ایک ایسے کھیل میں گولڈ میڈل لیا جو ہمارے ملک میں کھیلا ہی نہیں جاتا۔ ہاں البتہ دیسی کشتی کو بیچ ریسلنگ کا متبادل قرار دیا جائے تو الگ بات ہے۔
٭٭٭٭٭
کراچی سیف سٹی نہ بن سکا، پروگرام کنٹریکٹر 50 کروڑ روپے لے کر رفوچکر ہو گیا
یہ تو حکومت سندھ کو پتہ ہو گا کہ اس کے مثالی دور حکومت میں جب انسان اور جانور تھر میں ایک ہی جوہڑ سے پانی پیتے ہیں یہ ہاتھ کون کر گیا۔ کراچی جو کبھی شہر بے مثال تھا، وہاں یہ کون ظالم تھا جو اس شہر کو سیف سٹی بنانے کے نام پر 10 ہزار سکیورٹی کیمرے لگانے کی بجائے 50 کروڑ روپے ہی لے کر رفوچکر ہو گیا۔ اب یہ چکر باز آسمان سے یا کسی اور سیارے سے تو نہیں آیا ہو گا۔ اس شہر کا یا صوبے کا باسی ہو گا جو 50 کروڑ کی پوری رقم لے اڑا۔ حکومت سندھ کو چاہئے کہ وہ اپنے اس منظور شدہ کنٹریکٹر کو بیرون ملک پرواز کرنے سے پہلے ہی جال ڈال کر پکڑے۔ کیونکہ ہمارے ہاں تو جو بھی قابو نہیں آتا وہ سنہری پروں والا پرندہ بیرون ملک جا کر اپنا رین بسیرا کرتا ہے۔ یہ ٹھیکہ دیا بھی پیپلز پارٹی کی حکومت نے ہو گا۔ تب بھی وزیراعلی مراد علی شاہ ہی تھے اس لئے عوام کو گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ موجودہ حکومت ہی اس بندے کو گھیر کر عدالت کے سامنے لائے گی تاکہ اس کو نشانِ عبرت بنائے۔ مگر شرط یہ ہے کہ اس شخص نے کسی حکومتی عہدیدار کو مناسب کمیشن دیکر یہ کنٹریکٹ نہ لیا ہو۔ یعنی معاملہ ففٹی ففٹی پر طے نہ ہوا ہو کیونکہ اگر ایسا ہوا تو پھر نہ نو من تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی ا ور یہ کیس بھی کھوہ کھاتے جائے گا۔ اب دعا یہی ہے کہ خدا وند کریم خود کراچی کی حفاظت کرے اور ا سے سیف سٹی بنا دے۔ حکمرانوں سے تو یہ ہو نہیں سکا۔
٭٭٭٭
بھارتی پولیس اہلکار کی بندر سے ڈرائیونگ پر ہنگامہ
بندر بھی ناچتا ہے قلندر کے سامنے والی بات تو بہت سنی ہے مگر یہ بندر کو ٹرک چلاتے ہوئے دیکھ کردل کی جو حالت ہوئی ہے وہ ناقابل بیان ہے۔ ہمارے ہاں بھی چنگ چی نامی رکشہ چلانے والے اکثر ڈرائیور حضرات بھی رکشہ چلاتے ہوئے ہمیں اس قبیلے کے گمشدہ فرد نظر آتے ہیں ۔ مگر پھر بھی ہم ان کا مقابلہ اس بندر سے کرکے بندروں کی دل شکنی کرنا نہیں چاہتے۔ بعض مغربی ماہرین کا خیال ہے کہ انسان بندرکی جون سے ہی ترقی کرتا کرتا اس کمال کی حد تک پہنچا ہے یعنی انسان بنا ہے تو پھر شاید یہ بندر بھی ابھی انسان بننے کے مراحل طے کر رہا ہو۔ کیا معلوم کچھ عرصہ ڈرائیونگ کرنے کے بعد یہ ایک مکمل ڈرائیور کے جون میں آ جائے اور گاڑی چلاتا پایا جائے ۔ اگر کبھی ہم غور کریں تو ہماری پبلک ٹرانسپورٹ ایسے ہی ڈرائیوروں کے ہاتھ میں ہے جو ابھی اپنی جون تبدیل کر رہے ہیں مکمل طور پر انسان نہیں بنے ۔ اسی لئے ہمارے ہاں ٹریفک کا نظام ہر وقت درہم برہم رہتا ہے ۔اب معلوم نہیں بھارتی پولیس اپنے اس لاپرواہ ڈرائیور کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے جو خود گاڑی ڈرائیو کرنے کی بجائے ایک بے چارے بندر سے بیگار میں یہ کام لے رہا تھا۔
٭٭٭٭