آج دس اکتوبر کے دن یورپین یونین دنیا بھر کے کئی ممالک کے ہمراہ سزائے موت کے خلاف پندرہواں عالمی دن منا رہا ہے۔ اگرچہ دنیا کے زیادہ تر ممالک میں سزائے موت پر پابندی یا اس کے استعمال میں کمی کا رحجان دیکھنے میں آ رہا ہے، کئی ممالک میں تاحال اس بین الاقوامی معیار کی شدید خلاف ورزی بھی دیکھی جا رہی ہے۔ ابھی تک انتہائی شدید نوعیت کے جرائم کے علاوہ بھی سزائے موت کے فیصلے، کم عمر مجرموں کے عدم استثنا، ذہنی مریضوں کو سزا اور ہر شخص کو انصاف کی فراہمی اور غیر جانبدارانہ مقدمات کے عدم یقین کی مثالیں دیکھی جا سکتی ہیں۔
پاکستان کے آئین میں سزائے موت کا قانون ابھی تک رائج ہے، لیکن سزائے موت کے اطلاق میں نمایاں کمی کا رحجان حوصلہ افزا ہے۔ 2015 میں 333 افراد کو سزائے موت ہوئی جن کی تعداد 2016 میں گھٹ کر 87 اور 2017 میں ابھی تک صرف 44 رہ گئی ہے۔ سزائے موت پر سے پابندی اٹھائے جانے کے حق میں مشکل سکیورٹی صورتحال اور آرمی پبلک سکول پشاور پر ظالمانہ اور بزدلانہ حملہ اہم دلائل ہیں اور اس کے نتیجے میں مو¿ثر جوابی کارروائی کی ضرورت بھی بجا ہے۔ تاہم یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ یورپین یونین میں بھی دہشت گردی کے کئی واقعات ہو چکے ہیں مگر اس کے باوجود ہم سزائے موت کے خلاف اپنے عہد پر قائم ہیں۔
دنیا بھر میں ایسے شواہد ملتے ہیں کہ سزائے موت درحقیقت عدالتی نظام میں ایک امتیازی سلوک کی حیثیت رکھتا ہے۔ دورانِ تفتیش اور مقدمے کی سماعت کے دوران ہر مرحلے پر سماجی اور معاشی عدم مساوات سزائے موت کا سامنا کرنے والوں کے لیے انصاف کے حصول میں رکاوٹ بنتی ہیں۔ قانون سازی کے دوران اس امر کو اب تک یقینی نہیں بنایا جا سکا کہ اس کا اطلاق پورے معاشرے میں یکساں طور پر ہو۔ نہ ہی اس بات کا یقین کیا جا سکتا ہے کہ کوئی مجرم جھوٹی گواہی یا دورانِ تفتیش کی جانے والی کسی غلطی کے نتیجے میں پھندے پر نہیں جھول جائے گا۔ آج بھی جھوٹی گواہی، جبری اعتراف اور استغاثہ کی جانب سے ہونے والی غلطیاں عام ہیں۔ کسی کی جان لینے کا فیصلہ حتمی ہوتا ہے اور اس سے معاشرہ زیادہ محفوظ نہیں ہو جایا کرتا۔ دنیا بھر میں کی جانے والی تحقیق سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ جرائم میں کمی کے لیے سزائے موت باقی سزاو¿ں کے مقابلے میں زیادہ پ±ر اثر نہیں۔
یورپین یونین دنیا میں سزائے موت، تشدد اور غیر انسانی یا توہین آمیز سلوک کے خاتمے کے لیے پ±رعزم ہے۔ اسی عزم کے اعادہ کی خاطر یورپین یونین اور بیلجیئم مشترکہ طور پر برسلز میں 27 فروری سے مارچ 2019 تک سزائے موت کے خلاف ساتویں عالمی کانگریس منعقد کر رہے ہیں۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی اپریل 2018 میں آئیوری کوسٹ میں ہونے والی علاقائی کانگریس بھی ہے۔ عالمی کانگریس ایک بہت بڑا سہ سالہ موقع ہوتا ہے جس میں دنیا بھر سے 1500 سے زائد شرکاءشامل ہوتے ہیں۔ میں مخلصانہ طور پر یہ امید کرتا ہوں کہ اس کانگریس میں پاکستان ایک ایسے ملک کے طور پر شرکت کرے گا جہاں سزائے موت پر دوبارہ پابندی لگا دی گئی ہو گی۔
اس کانگریس میں ہم سب شرکاءسزائے موت سے اپنے سخت اختلاف کا اعادہ کریں گے۔ ہم اس عہد کی تجدید کریں گے ہماری زمین پر اب کسی کو یہ سزا نہیں دی جائے گی کیونکہ ہم نہیں سمجھتے کہ کسی بھی صورتحال میں ایک انسان کی جان لینا جائز تصور کیا جا سکتا ہے۔ تحقیق سے بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ سزائے موت پ±رتشدد جرائم میں کمی کا باعث بنتی ہے۔ چونکہ انصاف کا کوئی بھی نظام غلطی سے پاک نہیں ہو سکتا، لہٰذا اس کے تحت کئے جانے والے فیصلے بھی ایسے نہیں ہونے چاہئیں کہ جن کی واپسی ناممکن ہو، اور یہ بات بھی تجربے سے بارہا ثابت ہو چکی ہے کہ سزائے موت ایک امتیازی رویہ ہے جس کا شکار سب سے زیادہ غریب لوگ ہوتے ہیں۔
سزائے موت کے خاتمے کے بغیر حقیقی انصاف کی فراہمی ممکن نہیں۔