اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ کچھ مخصوص بیرونی قوتیں پاکستان کو معاشی و سیاسی طور پر مستحکم نہیں دیکھنا چاہتیں۔ اس لیے وہ پاکستان مخالف گروہوں کی پشت پناہی کر رہی ہیں اور پاکستان میں دہشت گردی کے دوبارہ فروغ کے لیے کام کر رہی ہیں ،ملک کے مختلف حصوں میں دہشت گردی کے جو واقعات ہو رہے ہیں۔ ان میں سے اکثر میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے لوگ ملوث ہیں، میانوالی ایئر بیس پر ہونے والا حملہ ہو یا بلوچستان پسنی میں شہید ہونے والے تیرہ جوان ہوں ان سب میں بیرونی ہاتھ ملوث ہے اور اس کے شواہد بھی سامنے آ چکے ہیں کیونکہ جب سے پاکستان کے ہمسایے میں افغان طالبان کی حکومت آئی ہے اس طرح کے واقعات بڑھے ہیں۔
اگر ہم پاکستانی طالبان اور افغان طالبان کا جائزہ لیں تو افغان طالبان اور ٹی ٹی پی نظریاتی طور پر ایک ہی ہیں۔ امریکہ افغانستان سے نکلتے ہوئے جان بوجھ کر اسلحہ پیچھے چھوڑ گیا ہے جو ٹی ٹی پی، بی ایل اے، بی ایل ایف اور داعش جیسے دہشت گرد گروہوں کے ہاتھ لگ گیا ہے جسے وہ پاکستان کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔ اب میانوالی ایئر بیس اٹیک کو ہی لے لیں جہاں دہشت گردوں سے ملنے والا اسلحہ امریکی ساختہ ہے اور انھیں یہ اسلحہ ظاہر ہے افغانستان سے مہیا کیا گیا ہے کیونکہ امریکہ جاتے ہوئے جان بوجھ کر یہ اسلحہ چھوڑ کر گیا ہے تا کہ پاکستان سے دہشت گردی ختم نہ ہو اور دوسرا خطے میں جنگ کا ماحول بنا رہے۔ جہاں تک پاکستان میں ہونے والے حملوں کی ذمہ داری جو نئے نئے گروپس قبول کر رہے ہیں تو ان سب گروپس کا منبع ایک ہی ہے اور یہ گروپس کسی بھی صورت پاکستان کو معاشی طور پر مستحکم نہیں دیکھنا چاہتے۔
ان کے پیچھے انڈیا اور کچھ اور ممالک کا بھی ہاتھ ہے کیونکہ بھارت کی تو خواہش ہے کہ وہ پاکستان کو کمزور کرے اور دہشت گردی کے ذریعے سی پیک کو نشانہ بنائے اور بھارت سی پیک کی تکمیل کو کسی بھی قیمت پر روکنا چاہتا ہے کیونکہ انھیں اندازہ ہے کہ اگر یہ منصوبہ بن گیا تو پاکستان کی معیشت کے لیے ایک بہت بڑا بریک تھرو ثابت ہو گا۔ اس وقت چین کو مشرقِ وسطیٰ اور دیگر منڈیوں تک سمندر کے راستے پہنچنے میں نوے دن لگتے ہیں۔ اگر سی پیک بن گیا تو یہ سفر کاشغر کے راستے صرف آٹھ دن میں طے ہو گا اور بھارت کو اسی کی تکلیف ہے کہ کسی طرح سی پیک کو پایہ¿ تکمیل تک پہنچنے سے روکا جائے۔ ظاہر ہے اس سے پورے خطے کی تقدیر بدل سکتی ہے اور بھارت کو یہ کسی صورت قبول نہیں۔ اس لیے بھارت افغان طالبان کے ساتھ ساتھ ٹی ٹی پی کے ساتھ پینگیں بڑھا رہا ہے اور دہشت گردی کو ہوا دے رہا ہے۔
ٹی ٹی پی کے لوگوں نے افغانستان سے امریکہ کو نکالنے میں طالبان کی مدد کی اور اب طالبان انھیں شیلٹر فراہم کر رہے ہیں۔ اور بارہا پاکستانی حکام نے یہ مسئلہ طالبان حکومت کے ساتھ اٹھایا ہے اور پاکستان کی عسکری قیادت نے حالیہ حملوں پر ایک بار پھر افغان طالبان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف اپنی سرزمین استعمال نہ ہونے دیں لیکن انھوں نے یقین دہانی کے باوجود پاکستان کے ساتھ کیے گئے وعدوں کی پاسداری نہیں کی ، پاکستان نے چالیس سال تک افغانوں کی مہمان نوازی کی لیکن اس کا پاکستان کو صلہ دینے کی بجائے اسے ہی دہشت گردی کا شکار کرنے کے منصوبے بھارت کے ساتھ مل کر بنائے جارہے ہیں۔لیکن پاکستان کی عسکری قیادت اور پاک فوج اس طرح کے حملوں کو روکنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں اور جس طرح ماضی میں دہشت گردی کا خاتمہ کیا تھا اور دہشت گردوں کی کمر توڑی تھی تو ان شاءاللہ اب بھی ہماری مسلح افواج اس طرح کی کارروائیوں کا منہ توڑ جواب دینے کے لیے تیار ہیں۔
کالم کے آخر میں اسرائیلی جارحیت کا ذکر ضرور کروں گا جس نے غزہ میں کیمیکل بموں سے حملہ شروع کر دیا ہے اور اس وقت چھ ہزار کے قریب بچے شہید ہو چکے ہیں، ہزاروں زخمی ہیں لیکن ان سب کے باوجود فلسطینیوں کے حوصلے بلند ہیں اور وہ محدود وسائل کے ساتھ اسرائیل کی فوجی طاقت کا مقابلہ کر رہے ہیں لیکن اس کے ساتھ مسلم دنیا کے حکمرانوں کو بھی اس جنگ کو روکنے کے لیے کردار ادا کرنا ہو گا،مسلم حکمران اگرچہ اسرائیل کو سبق سکھانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں لیکن کم از کم وہ اتنا کردار ضرور ادا کر سکتے ہیں کہ جنگ کو روکنے کے لیے متحرک ہوں تا کہ معصوم بچوں کوجنک کا ایندھن بننے سے بچایا جا سکے۔اس ضمن میں مغربی دنیا کے حکمرانوں کو بھی جاگنے کی ضرورت ہے کیونکہ پورے یورپ اور امریکہ میں فلسطینی عوام کے حق میں مظاہرے ہو رہے ہیں لیکن ان کے حکمران اسرائیل کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔چین جو اس وقت دنیا میں ابھرتی ہوئی طاقت ہے اس کو بھی آگے بڑھ کر اس جنگ کو روکنے کے لیے کردار ادا کرنا ہو گا کیونکہ یہ جنگ مشرقِ وسطیٰ کے لیے ایک چنگاری کی حیثیت حاصل کر سکتی ہے اور اگر ایسا ہوا تو چین کے اس خطے میں معاشی منصوبے بھی متاثر ہو سکتے ہیں اس لیے مسلم دنیا اور چین مل کر کوئی لائحہ عمل اپنائیں تاکہ غزہ میں اسرائیلی بربریت کا راستہ روکا جا سکے۔