یورپی یونین پارلیمان میں کشمیر کو نسل کی گیار ہویں تقریب
یورپی یونین میں واقع کشمیر کونسل نے اپنی سالانہ تقریب بعنوان ’’کشمیر ۔یورپی یونین ہفتہ‘‘ 5تا 11نومبر 2018ء منعقد کی ۔ یہ اپنی نوعیت کی گیارہویں تقریب تھی جو ہر سال یورپی یونین کی پارلیمان بلجیئم کے دار الخلافہ بر سیلز میں منعقد ہوتی ہے۔ اس برس تقریب میں آزاد جموں کشمیر کے وزیراعظم راجہ فاروق حیدرنے بھی شرکت کی۔ اہتمام کشمیر یورپی یونین نے کیا لیکن مختلف اداروں نے ان کے ساتھ تعاون کیا جن میں کشمیرفری آرگنائزیشن جرمنی، تھیڑجرمنی، کشمیر انفارمیشن بلجئیم، کشمیر گلوبل کائونسل ،ورلڈ کشمیر ڈئسپوراا لائنس نمایاں ہیں۔ یورپی یونین کے صدر مقام برسیلز میں اس قسم کی تقریب کا اہتمام انتہائی اہمیت کاحامل ہے کیونکہ اس کے ذریعے دنیا کو باور کرانا لازمی ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے نہتے اور معصوم کشمیری بھارتی غاصبانہ قبضے میں محکوم ہیں۔ بھارتی حکومت نے27اکتوبر1947ء کوہند وستان کی آزادی ایکٹ1947ء کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنی مسلّح افواج کشمیر میں اتاردیں اور پوری وادی پہ قبضہ کرلیا۔ ہندوستان کی آزادی کے ایکٹ1947ء کے مطابق چونکہ کشمیر کی اکثریتی آبادی مسلمانوں پہ مشتمل تھی لیکن حکمران ڈوگرہ ہندوتھا، لہذا یہ اختیار کشمیر کے شہریوں کو دیا گیا تھا کہ وہ رائے شماری سے فیصلہ کریں کہ وہ پاکستان کے ساتھ الحاق کوترجیح دیں گے یابھارت میں شامل ہونا چاہیں گے۔ بھارتی حکومت کو بخوبی اندازہ تھا کہ چونکہ کشمیر میں مسلمانوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے لہذا وہ پاکستان کے حق میں فیصلہ کریں گے۔ پہلے توپنڈت جواہر لعل نہرونے نہایت چاپلوسی سے تاج برطانیہ کے ہندوستان میں آخری وائسرائے لارڈ مائونٹ بیٹین سے دوستی گانٹھی اور انکی اہلیہ ایڈویناکے ساتھ ناجائز تعلقات قائم کرکے لارڈ ماونٹ بیٹین پہ زور ڈلوایا کہ وہ ہندوستان کی تقسیم کے لئے قائم شدہ بائونڈری کمیشن کے سربراہ سرسیرل ریڈ کلف پہ اثر انداز ہوں تاکہ وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان طے شدہ سرحدوں میں ردو بدل کرکے مشرقی پنجاب میں واقع گرداسپوربھارت کے حوالے کردیں تاکہ بھارت کو کشمیر تک رسائی کا زمینی راستہ مل جائے۔ سرل ریڈ کلف نے ایسا ہی کیا۔ یہ حقیقت سرسیرل ریڈکلف کے ذاتی سیکرٹری کلف بومونٹ نے اپنی ڈائری میں تفصیل سے رقم کی۔چند برس پہلے کلف بومونٹ کے انتقال کے بعد ان کے گرینڈ بھتیجے نے مذکورہ ڈائری شائع کراکے اس سازش سے پردہ اٹھا یا۔
نتیجہ سب کے سامنے ہے ۔کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ نے بھارتی فوج اور کشمیریوں کے غم وغصہ سے راہ فرار اختیار کرلی لیکن بعد میں بھارتی حکومت نے ہری سنگھ سے بھارت سے الحاق کی دستاویز پہ دستخط کرائے لیکن یہ دستاویز قابل قبول ہی نہیں۔ اول یہ کہ بھارت نے قبضہ پہلے کیا اور دستاویز پہ دستخط بعد میں کرائے ،دوسرے یہ کہ مہاراجہ کو الحاق کی دستاویز پہ خود سے دستخط کرنے کا حق نہیں تھا۔ آزادی ایکٹ1947ء کے مطابق یہ حق صرف کشمیر کی عوام کوحاصل تھا۔پاکستان سے رضا کار اپنے کشمیری بھائیوں کو بھارتی چنگل سے چھڑانے کی خاطر میدان کارزار میں کود پڑے ایک تہائی کشمیربھارتی قبضے سے آزاد کرالیا گیا اور رضا کارفوج سری ینگر کے قریب تھی کہ بھارتی وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کو یہ خدشہ ہوا کہ پورا کشمیر ان کے ہاتھ سے نہ نکل جائے لہذا انہوں نے اقوام متحدہ کی سلامتی کائونسل سے جنگ بندی کی خاطر رجوع کیا۔ اقوام متحدہ نے جنگ بندی کرادی لیکن قراردادیں منظور کرلیں جنکے تحت ایک مرتبہ پھر کشمیری عوام کو یہ اختیار دیا کہ وہ اقوام متحدہ کی نگرانی میں استصواب رائے کے تحت خود یہ فیصلہ کریں گے کہ وہ بھارت کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں یا پاکستان کے ساتھ۔بھارتی وزیراعظم نے ان قرار دادوں پہ عمل کا وعدہ کیا لیکن بعد میں مکر گئے۔ اسکی کئی وجوہات تھیں۔ جواہر لعل نہرو خود کشمیری پنڈت تھے اور ہرگز نہیں چاہتے تھے کہ کشمیر بھارت کے ہاتھ سے نکل جائے۔ دوسرے یہ کہ وہ بخوبی اس حقیقت سے واقف تھے کہ پاکستان سے گزرنے والے تمام دریا یوں کا منبع کشمیر میں ہے خصوصاً مقبوضہ کشمیر میں۔ وہ چاہتے تھے کہ بھارت میں بجلی اور پانی کی فراہمی کے لئے ان پہ بند باندھیں اور ساتھ جب چاہیں پاکستان کا پانی بند کردیں تاکہ خشک سالی کا شکار ہو اور بوقت ضرورت زیادہ پانی کھول دیں تاکہ پاکستان میں سیلاب سے تباہی پھیلے۔
1965 ء اور1971ء کی پاک بھارت جنگوں میں کشمیر کا فیصلہ نہ ہوسکا بالآخر 1989ء میں کشمیریوں نے خود علم حریّت بلند کیا لیکن بھارتی حکومت نے وادی کشمیر میں سات لاکھ فوج جھونک دی جس نے پوٹا، ٹاڈا اور ایفسپاPOTA, TADA & AFSPA جیسے کا لے قوانین کی آڑ لے کر ایک لاکھ سے زائد معصوم اور نہتے کشمیریوں کو شہید کردیا۔ اور لاکھوں کشمیری نوجوانوں کو پابند سلا سل کیا، ہزاروں عورتوں سے زیادتی کی اور یہ ظلم وستم اب بھی قائم ہے۔ دنیا اس ظلم وتشددپہ خاموش ہے صرف پاکستان، ترکی اور چین اس معاملے کو بین الاقوامی سطح پہ منظر عام پہ لاتے ہیں۔ بھارت پاکستان کواسی وجہ سے غیر مستحکم کرنا چاہتا ہے تاکہ وہ مقبوضہ کشمیر کے مظلوم باسیوں کے حق میں اپنی اخلاقی اور سفارتی حمائت جاری نہ کررکھ سکے اور پاکستان کی حق کی آواز خاموش ہو جائے۔برسیلز میں تقریب کے دوران وزیراعظم آزاد جموں کشمیر نے کلیدی خطاب بعنوان ’’ تقسیم ہند کی وراثت میں جینا اور دیر پا امن کی تلاش‘‘ میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جبروتشد کا تفصیلی ذکر کیا اور یورپی یونین بالخصوص اور دنیا بالعموم کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی تاکہ مقبوضہ کشمیر کے باسیوں کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت اپنا حق حاصل ہو، برسیلز میں مختلف منسلک موضاعات پہ بحث ومباحثے منعقد ہوئے ،ان کے علاوہ فرانسیی فوٹوگرافر سیڈرک گربے ہائے نے برسیلز پریس کلب میں اپنی تصاویر کی نمائش کا اہتمام کیا۔ان تصاویر میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ظلم وستم کو اجاگر کیا گیا۔ زائرین کی کثیر تعداد نے اس نمائش میں شرکت کی اور فرانسیسی فوٹوگرافر کی کھینچی ہوئی تصاویر نے ہر دیکھنے والے کی آنکھ کو پرنم کیا۔ یہی نمائش 13نومبر2018ء سے جرمنی کے شہراسٹراسبرگ میں یورپی یونین پارلیمان میں ایک ہفتے تک جاری رہے گی۔ یہ خوش آئند امر ہے کہ یورپی یونین مقبوضہ کشمیر کے معاملے میں فعال ہے۔ اس سلسلے میں مختلف انجمنیں اور ادارے دل وجان سے کشمیریوں کے مسائل کے حل کی خاطر کوشاں ہیں۔6نومبر کو ’’یوم شہدائے جموں‘‘ کے موقع پہ لائن آف کنٹرول کے دونوں جانب خصوصی تقریبات منعقد ہوئیں۔ مسجدوں میں شہداء کے حق میں دعائیں مانگی گئیں۔ شہدائوں کی قبروں پہ فاتحہ پڑھی گئی۔ احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں جن میں بھارتی حکومت سے کشمیریوں پہ ظلم وستم بند کرنے کا مطالبہ کیا گیا اور نریندرمودی کی حکومت سے اقوام متحدہ کی کشمیر سے متعلق قراردادوں پہ عمل درآمد کی درخواست کی گئی۔ اقوم امتحدہ کو بھی یادہانی کرائی گی کہ وہ بھارت پہ زور ڈالے کے وہ اقوام متحد ہ کی قراردادوں کو رد نہ کرے۔مختلف محفل مذاکروں کا بھی اہتمام کیا گیا۔ اس سلسلے میں میرپور یونیورسٹی نے مظفر آباد میں ایک جامع محفل مذاکر ے کا اہتمام کیا تھا جس میں شرکاء نے جموں کے چھ لاکھ شہدا ء کو خراج تحسین پیش کیا اوراس عزم کا اظہار کیا کہ کشمیریوں کی حمائت میں بھرپور جدوجہد جاری رہے گی۔