جنرل اسمبلی میں روایتی اور غیرروایتی ہتھیاروں کی روک تھام کیلئے پاکستان کی قراردادوں کی بھارتی مخالفت کے باوجود منظوری
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بھارت کی مخالفت کے باوجود پاکستان کی جانب سے پیش کی گئی تین قراردادیں منظور کرلیں۔ یہ قراردادیں ہتھیاروں کا سدباب کرنیوالی کمیٹی میں پیش کی گئی تھیں جو بھاری اکثریت سے منظور ہوئیں۔ خطے میں روایتی ہتھیاروں کی روک تھام سے متعلق قرارداد 189 ممالک کی حمایت سے منظور ہوئی۔ پاکستان نے روایتی اور غیرروایتی اسلحے کی روک تھام‘ خطے اور علاقائی سطح پر ہتھیاروں کے سدباب اور اس تناظر میں اعتماد کو فروغ دینے والے اقدامات سے متعلق قراردادیں پیش کی تھیں۔ ان قراردادوں میں خطے میں ہتھیاروں کی دوڑ ختم کرنے پر زور دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ عالمی امن کی کوششوں کی کامیابی کیلئے ہتھیاروں کی دوڑ روکنا ناگزیر ہے۔ پاکستان نے ان قراردادوں میں روایتی اور غیرروایتی اسلحہ کی روک تھام‘ خطے اور علاقائی سطح پر ہتھیاروں کے سدباب اوراس تناظر میں اعتماد کو فروغ دینے والے اقدامات کا تقاضا کیا ہے۔ یہ قراردادیں خطے میں ہتھیاروں کی دوڑ ختم کرنے پر زور دیتی ہیں۔ خطے میں روایتی ہتھیاروں کی روک تھام سے متعلق قرارداد بھاری اکثریت سے منظور ہوئی جبکہ دوسری قراردادیں اتفاق رائے سے منظور کی گئیں۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے اس سلسلہ میں اپنے بیان میں کہا کہ ہتھیاروں کے سدباب کیلئے پاکستان کی قراردادیں عالمی کوششوں کو مزید فروغ دینگی۔ ان کا کہنا تھا کہ قراردادوں کا بھاری اکثریت سے پاس ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ عالمی برادری پاکستان کے موقف کی حمایت کرتی ہے۔
یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ اس خطے اور اقوام عالم میں صرف دو ممالک امریکہ اور بھارت نے ہر قسم کے روایتی اور غیرروایتی‘ جدید اور ایٹمی اسلحہ اور ہتھیاروں کو فروغ دے کر علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کیلئے خطرات پیدا کئے ہیں۔ ایٹم بم کا موجد خود امریکہ ہے جس نے نہ صرف ایٹم بم تیار کیا بلکہ دوسری جنگ عظیم میں جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم برسا کر ایٹم بم کے ذریعے انسانی تباہی کی بنیاد بھی رکھی۔ امریکہ اپنی ایٹمی صلاحیتوں کے باعث ہی دنیا کی سپرپاور ہونے کے زعم میں مبتلا ہوا اور پھر ایٹمی ٹیکنالوجی کا حصول و استعمال بھی اس نے اپنا حق گردان لیا تاہم بعدازاں سوویت یونین‘ چین‘ جرمنی اور فرانس نے بھی ایٹمی ٹیکنالوجی اپنی دسترس میں کرکے امریکہ کا یہ زعم توڑا اور اسکے شتربے مہار عزائم کے آگے بند باندھا۔ جب امریکہ متذکرہ ممالک کی جانب سے ایٹمی ٹیکنالوجی کے حصول پر زیربار آیا تو اس نے ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل کرنیوالے پانچوں ملکوں پر مشتمل ایک ایٹمی کلب تشکیل دے دیا جس کے ذریعے دنیا کے دیگر ممالک کیلئے ایٹمی ٹیکنالوجی کا حصول ممنوع قرار دیا گیا اور ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل کرنیوالے کسی بھی ملک پر عالمی اقتصادی پابندیاں لگانے کی شق یواین چارٹر میں شامل کرادی گئی۔ اسکے باوجود بھارت نے پاکستان کو دولخت کرنے کے بعد باقیماندہ پاکستان کی سلامتی بھی تاراج کرنے کی نیت سے 1974ء میں ایٹمی دھماکہ کرکے اپنے ایٹمی قوت ہونے کا اعلان کیا تو اس پر عالمی اقتصادی پابندیاں لگوانے کیلئے ایٹمی کلب حرکت میں آیا نہ اقوام متحدہ میں بھارت کیخلاف کوئی قرارداد پیش ہوئی۔ اسی بنیاد پر خود کو ایٹمی قوت سے ہمکنار کرنا پاکستان کی بھی مجبوری بن گیا چنانچہ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی وزارت عظمیٰ کے دور میں ایٹم بم کی تیاری کے کام کا آغاز کیا جو میاں نوازشریف کے دور حکومت میں پایۂ تکمیل کو پہنچا تاہم پاکستان کی جانب سے 28 مئی 1998ء کو ایٹمی دھماکے بھی اسی ماہ کے آغاز میں بھارت کی جانب سے کئے گئے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں کئے گئے جس کے بعدنام نہاد ایٹمی کلب اور اقوام متحدہ کا دہرا کردار کھل کر سامنے آیا کہ بھارت پر تو دوسری بار ایٹمی دھماکے کرنے پر بھی کسی قسم کی پابندیاں نہ لگائی گئیں مگر پاکستان کی گردن مروڑ کر اسے امریکی ایماء پر اقوام متحدہ کی جانب سے عالمی اقتصادی پابندیوں کی زد میں لایا گیا۔ اسی طرح شمالی کوریا پر بھی ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل کرنے کے جرم میں عالمی پابندیوں کی افتاد توڑی گئی اور اب ایران اسی جرم کی سزا عالمی اقتصادی پابندیوں کی شکل میں بھگت رہا ہے۔ اسکے برعکس بھارت کو بھی کھلی چھوٹ ہے اور اسرائیل کو بھی ایٹمی ٹیکنالوجی کے حصول کی کھلی چھٹی دے کر مشرقی وسطیٰ ہی نہیں‘ اقوام عالم میں بھی بدمست ہاتھی بنا دیا گیا ہے۔
یہ طرفہ تماشا ہے کہ امریکہ نے این پی ٹی اور سی ٹی بی ٹی کی صورت میں ایٹمی ہتھیاروں کی تخفیف کے اقوام عالم سے معاہدے کرائے مگر خود ان معاہدوں پر دستخط نہیں کئے جبکہ ایٹمی ہتھیاروں کے فروغ میں سب سے زیادہ امریکہ نے ہی کردار ادا کیا ہے۔ آج امریکہ ہی ایٹمی ہتھیاروں کی سب سے بڑی منڈی ہے جو اپنے ہتھیار فروخت کرنے کیلئے بھی بعض ممالک میں کشیدگی اور جنگ کا اہتمام کراتا ہے۔ سعودی عرب اور یمن کی جنگ اسکی حالیہ مثال ہے اور ان دونوں ممالک کی جانب سے ایک دوسرے کیخلاف استعمال کئے گئے ہتھیار اور اسلحہ امریکہ ہی سے خریدا گیا ہے۔ جہاں تک اقوام عالم کے نمائندہ ادارے اقوام متحدہ کا تعلق ہے‘ وہ بھی عملاً امریکہ کی ایک ذیلی تنظیم کا کردار ادا کرتا ہے۔ چنانچہ دنیا میں امریکی توسیع پسندانہ عزائم پر اقوام متحدہ کی آنکھیں بند رہتی ہیں۔ اسکے برعکس امریکہ جس بھی ملک کو اپنی خودمختاری اور سلامتی کیلئے چیلنج سمجھتا ہے‘ اقوام متحدہ کی جانب سے ایک ادنیٰ سے امریکی اشارے پر اس ملک کیخلاف عالمی اقتصادی پابندیوں سمیت ہر قسم کے تادیبی اقدامات اٹھا لئے جاتے ہیں چنانچہ امریکہ اور اسکے اتحادیوں کیلئے اقوام متحدہ ایک سہولت کار کا کردار ادا کرتا ہے۔ نتیجتاً اس نمائندہ عالمی ادارے کی حیثیت ایک کٹھ پتلی کی سی رہ گئی ہے جو امریکہ ہی نہیں‘ اسکے حلیف اپنے رکن ممالک سے بھی انکے مفادات کیخلاف کسی قرارداد پر عملدرآمد کرانے کی سکت نہیں رکھتا۔ کشمیر اور فلسطین کے عوام کو استصواب کا حق دینے اور انکی آزاد و خودمختار ریاستی حیثیت تسلیم کرنے کیلئے اقوام متحدہ کی منظور کی گئی قراردادوں پر اسی وجہ سے آج تک عملدرآمد نہیں ہو سکا۔ حد تو یہ ہے کہ امریکہ کی جانب سے اس سال کے آغاز میں مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کیخلاف اقوام متحدہ میں بھاری اکثریت سے قرارداد منظور کی گئی اور امریکہ پر اس فیصلے سے رجوع کرنے پر زور دیا گیا مگر امریکہ نے نہ صرف اس قرارداد کو رعونت کے ساتھ ٹھکرایا بلکہ قرارداد کے حق میں ووٹ دینے والے ممالک کو عالمی اقتصادی پابندیوں کی زد میں لانے کی دھمکیاں بھی دینا شروع کردیں جبکہ پاکستان پر تو امریکہ نے عالمی اقتصادی پابندیاں لگوانے کی قرارداد بھی امریکی کانگرس میں منظور کرالی ہے۔ امریکہ اپنے حلیف بھارت کو نیوکلیئر سپلائر گروپ کی رکنیت دلوانے کیلئے بھی سرگرداں ہے تاہم چین اب تک اسکی یہ کوشش ناکام بنا رہا ہے۔ اس تناظر میں یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا جب تک امریکہ کا دہرا معیار برقرار رہے گا اور اقوام متحدہ اسکی عملاً باندی کا کردار ادا کرتی رہے گی۔ اس وقت تک تخفیف اسلحہ کیلئے کوئی عملی پیش رفت ہو سکتی ہے نہ امریکہ اور بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کی بنیاد پر علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کو لاحق خطرات ٹل سکتے ہیں۔ اس حوالے سے سب سے پہلے اقوام متحدہ کو مکمل خودمختار بنانے کی ضرورت ہے جس کیلئے امریکہ اور اسکے حلیف ممالک کو بھی اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد کا پابند بنایا جانا ضروری ہے۔ اگر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی‘ سلامتی کونسل یا اسکی کسی بھی ذیلی کمیٹی کی کسی قرارداد کو روبہ عمل ہی نہیں لایا جانا تو ان قراردادوں کی ہی نہیں‘ اقوام متحدہ کی بھی کوئی حیثیت نہیں رہتی۔
بے شک پاکستان کی مستقل مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے روایتی اور غیرروایتی اسلحہ کی روک تھام کیلئے پاکستان کی پیش کردہ قراردادوں کی یواین کمیٹی میں بھاری اکثریت کے ساتھ منظوری کو دنیا میں ان ہتھیاروں کی تخفیف کی کوششوں کو تقویت ملنے کے مصداق قرار دیا ہے تاہم اس حوالے سے ماضی کے تلخ تجربات اقوام متحدہ کی بے عملی کے باعث ان قراردادوں کے بھی بارآور نہ ہونے کا ہی عندیہ دے رہے ہیں۔ اگر اقوام متحدہ کے رکن ممالک کو علاقائی اور عالمی امن و سلامتی مقصود ہے تو انہیں اقوام متحدہ کو بہرصورت امریکی آسیب سے باہر نکلوانا اور اسے پائوں پر کھڑا کرنا ہوگا۔ اس عالمی ادارے کی آزمائش کشمیر و فلسطین کی آزادی کیلئے بھارت اور اسرائیل سے اپنی قراردادوں پر عملدرآمد کرانے کی ہے۔ اگر ان قراردادوں کی بنیاد پر کشمیر اور فلسطین کا مسئلہ قراردادوں کی روح کے مطابق حل ہوجاتا ہے تو اس نمائندہ عالمی ادارے کی خودمختاری بھی تسلیم ہو جائیگی اور علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کی ضمانت بھی مل جائیگی۔ اسکے بعد روایتی اور غیرروایتی ہتھیاروں کے دنیا میں پھیلائو کی نوبت ہی نہیں آئیگی۔