اتوار ‘ 2؍ ربیع الاوّل 1440 ھ ‘ 11 ؍ نومبر2018ء
آرٹی ایس بند کرنے کا حکم کس نے دیا۔ آواز شناخت نہ ہو سکی
یہ دورجدید کی الف لیلیٰ ہے یا قصہ چار درویش ۔ وقت پر طے شدہ شیڈول کے مطابق الیکشن کے نتائج وصول ہونا شروع ہو گئے تھے۔ آر ٹی ایس بھی درست طریقے سے کام کر رہا تھا کہ اچانک حمام بادگر سے ایک صدا گونجی کہ آر ٹی ایس کو بند کر دو۔ اب یہاں وہ جن نظر آ رہا تھا نہ وہ جادوگر کہ جس نے یہ صدا لگائی۔ جیسے ہی کوہ ندا میں یہ صدا گونجی فی الفور ملک بھر سے آر ٹی ایس کے ذریعے وصول ہونے والی انتخابی نتائج پراسرار طور پر بند ہو گئے۔ حزب اختلاف والے اسی بندش کے الف لیلوی حکم پر کہہ رہے ہیں کہ اس حکم کے بعد نتائج میں تبدیلی آنا شروع ہوئی اور تبدیلی لانے کے دعویداروں کو تبدیلی لانے کا موقعہ دیا گیا۔ الیکشن کی بھاگ دوڑ کی دھول بیٹھی تو فیصلہ ہوا کہ اس کا پتہ چلایا جائے کہ کوہ ندا کی حقیقت کیا ہے۔ تحقیقات شروع ہوئی تو اب جونتیجہ نکلا ہے وہ کھودا پہاڑ اور نکلا چوہا کے مترادف ہے۔ اس آواز کی شناخت نہ ہو سکی جس نے آر ٹی ایس کی بندش کا حکم دیا تھا۔ اب کہتے ہیں مشکوک افراد کی آوازوں کو چیک کیا جائے تو سراغ مل سکتا ہے۔ بھلا مشکوک آوازکس کی ہو سکتی ہے۔ ویسے بھی خلائی مخلوق کی آواز میں کائنات کے دور دراز سیاروں سے جو سگنل یا پیغامات مل رہے ہیں۔ وہ ناقابل فہم ہیں۔ انہیں فی الحال پڑھایا سمجھا نہیں جا سکا۔ مگر یہ بندش کا حکم تو اردو یا انگریزی میں ہی ملا ہوگا جبھی تواس کو سن کر سمجھ کر عمل کیا گیا۔ اب یہ حکم کس نے دیا اس کا سراغ لگانا ویسا ہی مشکل کام ہے جس طرح بے نظیر بھٹو کے قاتل کا سراغ لگانا۔
٭…٭…٭…٭
لاہور میں چھاپہ سابق سرکاری افسر کے گھر سے 33 کروڑ برآمد
یہ رقم اگرچہ بلوچستان اور سندھ سے اس طرح کے چھاپوں میں پکڑی جانے والی بھاری رقوم کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ مگر بات تو وہی ہے کہ جس نیک نام سرکاری افسر کے گھر سے اتنی بڑی رقم برآمد ہوئی ہے۔ اگر یہ رقم رزق حلال ہے تو اسے ڈرنے کی قطعی ضرورت نہیں۔ ہر شہری کی مرضی ہے۔ رقم بنک میں رکھے یا گھر میں ۔ بس ذرائع آمدن کا سوال ضرور تلخ ہے جس کا جواب دینا بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا رقم کاموجود ہونا۔ یہ تو نیب کی بڑی مہربانی ہے کہ ابھی تک اس نے اس نیک نام افسر کا نام تک ظاہر نہیں کیا۔ اس پرتو یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ بلوچستان اور سندھ کے جن سرکاری افسران کے گھروں سے ایسے ہی نوٹوں سے بھری دیگیں برآمد ہوئیں کیا ان کا نام صیغہ راز میں نہیں رکھا جا سکتا تھا یا انہیں عبث بدنام کرنے کی دانستہ کوشش کی گئی۔ناپسندیدہ سیاستدانوں کو ملزم سے مجرم بنانے والے اگر یہ تفریق ختم کریں۔ پسندیدہ افراد کو ہی نشانہ بنانے کی بجائے سب سے یکساں سلوک کریں تو کسی کو نیب پر انگلی اٹھانے کا موقع نہیں ملے گا۔ ورنہ کھڑکیاں اور درازے تو بند ہو سکتے ہیں مگر لوگوں کے منہ بند نہیں کئے جا سکتے۔ جس کے جو منہ میں آئے گا وہ بولے گا۔ قصہ مختصر جس کا جی چاہے بولے یا نہ بولے مگر ناجائز طریقے سے جمع شدہ دولت گھروں پر چھاپے مار کر نکلوانا ایک بڑا فن ہے اور ہماری حکومت اس فن میں طاق جس کا بھرپور مظاہرہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ عام لوگ بھی خوش ہیں کہ زیادہ نہ سہی چلیں تھوڑا تھوڑا تو نکل رہا ہے چھپا ہوا ناجائز خزانہ۔
وہاڑی کے نوجوان نے پرانی سائیکل کو موٹر سائیکل میں بدل لیا
ہمارے سائنسدان ا ور انجینئرز ہی نہیں بفضل خدا ہمارے عام نوجوان بھی ایسی ایسی سائنسی ایجادات تیار کرنے میں ماہر ہیں جن کا ذکر کیا جائے تو ایک ضخیم کتاب مرتب ہو سکتی ہے۔ پانی سے گاڑی چلانا ہو یا بغیر انجن کے راکٹ چلانا یہ سب کام ہمارے عام نوجوان بھی کر کے دکھا سکتے ہیں۔ ان میں اتنا ٹیلنٹ ہے کہ دنیا کا کوئی بھی کام وہ کر سکتے ہیں۔ آج کل ایک لطیفہ سوشل میڈیا پر چل رہا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ پاکستان میں موجود ان جینئس سائنسدانوں کو تلاش کر ر ہے ہیں جو ایک دن میں ایک کروڑ نوکریاں دینے دس لاکھ مکان بنانے اور آئی ایم ایف کے اربوں ڈالر ان کے منہ پر مارنے کی صلاحیت سے مالا مال ہیں اور ملک میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں۔ صدر ٹرمپ کو شاید یہ معلوم نہیں کہ یہ تو عام معمولی کام ہیں۔ ہمارے ہاں تو ایسے ایسے نابغہ روزگار سائنسدان بھی پائے جاتے ہیں جو چند لمحوں میں ز یورات یا روپوں کو ڈبل کر دیتے ہیں۔ وہ بھی صرف ایک یا دو پھونکیں مار کر۔
اسی طرح جو لوگ خود کچھ نہیں کرتے فارغ البال ہوتے ہیں وہ اربوں روپے ڈبل کرنے کے نام پر لوگوں سے لے کر ایسے غائب ہو جاتے ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ اور کوئی بھی انہیں ڈھونڈ نہیں پاتا۔ ایسے میں اگر کوئی باہمت نوجوان سائیکل کو موٹر سائیکل میں بدل لیتا ہے تو حیرانی کی کونسی بات ہے۔ بس دیکھنا یہ ہے کہ یہ موٹرسائیکل صرف پٹرول پر چلتی یا بیٹری اور اس کے علاوہ پیڈل اور ہوا سے بھی چلتی ہے۔ اگر یہ موٹر سائیکل ان سب طریقوں سے چلائی جاتی ہے تو پھر اس کی ملک بھر میں ہی نہیں دنیا میں بھی مانگ پیدا ہو سکتی ہے۔ اس لئے حکومت ابھی سے اس باہمت نوجوان کے سر پر دست شفقت رکھتے ہوئے اس ایجاد کے جملہ حقوق محفوظ کرلے۔
٭…٭…٭…٭
کمپریسر لگانے لگانے والوںکے میٹر 4 ماہ بند کرنے کا فیصلہ
محکمہ سوئی گیس کا یہ فیصلہ بروقت ہے مگر کیا صرف اس طرح وہ گیس چوری روکنے میں کامیاب ہوسکتاہے۔ پہلے تو محکمہ اپنی کارکردگی دیکھے۔ سردیاں شروع ہوتے ہی ملک بھر کے اکثر رہائشی علاقوں سے گیس غائب ہو چکی ہے۔ اکثر علاقوںمیں صبح اور شام کے اوقات میں تو گیس مکمل غائب ہوتی ہے۔ باقی علاقوں میں تو صبح اور شام بھی یہ شکل نہیں دکھاتی۔ لوگ پریشانی کے عالم میں سلنڈر اٹھائے ایل پی جی ڈھونڈنے نکلے ہوتے ہیں جو اس وقت 125 روپے کلو کے حساب سے بک رہی ہے۔ یوں شہریوں کے لئے کھانا پکانا ناشتہ بنانا مشکل ہو چکا ہے۔ اب ایسی صورتحال میں گیس حاصل کرنے کے لئے جو لوگ کمپریسر لگاتے ہیں وہ بھی سراسر غلط ہے۔ مگر اس طرح انہیں کم از کم گیس تو میسر آ جاتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کم بخت کمپریسر کی وجہ سے اردگرد کے گھروں کے رہے سہے چولہے بھی ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں۔ اس لئے محکمہ سوئی گیس والوں کو چاہئے کہ وہ پہلے گیس کی فراہمی بہتر بنائیں پھر جو کمپریسر لگائے اس کی شامت لائیں۔ ویسے کیا محکمہ سوئی گیس والوں کو دکانوں پر بکتے یہ کمپریسر نظر نہیں آتے۔ اگر آتے ہیں تو ان دکانداروں کیخلاف کارروائی کیوں نہیں کی جاتی جو یہ سامان بیچ رہے ہوتے ہیں۔
٭٭٭٭